سنہ1990 کی دہائی میں جب سوویت یونین ختم رہا تھا تو ہر سوہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ دلیلیں اور ثبوت دیئے جارہے تھے کہ دنیا میں نظریات کی لڑائی ختم ہوگئی کوئی اس کو تاریخ کا خاتمہ اور کوئی تہذیبوں کے تصادم کا راگ لاپ رہا تھا اور سرمایے کے محافظ سوویت یونین کے بکھرنے کو مارکسزم کی شکست قرار دے رہے تھے کہ مارکس ناکام ہوگیا مزدوروں کی جدوجہد شکست سے دوچار ہوچکی ہے کہ اب دنیا کو مارکس کی ضرورت نہیں رہی ہے اور دنیا کو صرف ایک نئے حکم نامے کے تحت ہی چلایا جاسکتا ہے۔
اور وہ حکم نامہ نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے جبر کی ایک نئی شکل میں سامنے آیا، ریاستوں کی ریاستیں اس حکم نامے کے آگے ڈھیر ہوگئیں۔ جمہوریت اور بنیادی آزادیوں کے نام پر اس حکم نامے نے ریاستوں اور ملکوں کو تاراج کردیا ۔آگ و خون سے دنیا بھرگئی ۔بین الاقوامی سرحدوں کو انسانوں کے گزرنے کے لئے انتہائی سخت کرکے دولت اور سرمائے کے لیے آزادانہ گزر گاہ بنا دیا گیا۔ بارور اور بموں کی بو اور تعفن نے انسان حیوان چرند پرند سب کو تعفن زدہ کردیا۔
بین الاقوامی حاکموں نے لفظوں کی ترتیب بدل دی۔ الفاظ کو نئے معنی دینے شروع کردیئے۔ نئی اصطلاحیں ایجاد کرنا شروع کردی۔ انقلاب و آزادی سوالات پس منظر میں دھکیل دیئے گئے مزدور کی جدوجہد اور طبقاتی تفریق کو یہ کہہ کر تاریخ کے پاتال میں پھینکنے کی کوشش کی گئی کہ اب طبقاتی جدوجہد نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔ مزدور طبقہ اپنی طاقت کھو چکا ہے سرمایہ داری جیت گئی ہے۔ ایک طرف یہ شادیانے بج رہے تھے، فتح کے اعلانات کیے جارہے تھے اور ساتھ ساتھ مارکسزم کا دم بھرنے والے کچھ حصے بھی سرمایہ داری کی تصدیق کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ سرمایہ داری نے سٹالنزم کو شکست دی ہے۔
کچھ مارکس وادی ماضی کی طرح وہی راگ گارہے تھے جو انہوں نے اپنی ساری تاریخ میں گایا ہے۔ وقت اور حالات سے پچھڑے ہوئے یہ بیچارے اونچا اونچا بول کر سرمایہ داری کی ہاں میں ہاں ملارہے تھے۔ اپنے اس فریضے کو بدرجہ اتم ادا کررہے تھے جو وہ ماضی میں انقلابات کو روکنے کے لئے مارکسزم کے نام پر کرتے رہے ہیں، مارکسزم کو شکست دینے کا کورس انہوں نے سرمایہ داری کے ساتھ مل کر خوب گایا اس شورو غوغا میں بعض اوقات یوں لگتا تھا کہ واقعی ہر چیز ختم ہوگئی ہے جو تھا سب غلط تھا اور جو ہے وہی صحیح ہے۔وقت سے پچھڑے ہوئے یہ ’’مارکس وادی‘‘ اور عالمی سرمایہ داری دونوں یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ دنیا میں جب تک ایک بھی مزدور زندہ ہے اور اس کا استحصال جارہی ہے تو پھر مزدوروں کی جدوجہد ختم نہیں ہوسکتی۔ یہ لامتناہی جدوجہد اس وقت تک جارہی رہے گی کہ جب تک جبر اور ظلم پر مشتمل عالمی نظام ختم نہیں ہوجاتا۔ ایک نئی دنیا دنیا تشکیل نہیں پاجاتی۔
ایک طرف یہ ہاہاکار مچی ہوئی تھی اور دوسری طرف دنیا بھر کے محنت کش عوام کچھ اور ہی سوچ رہے تھے بلکہ وہ ایک اور صف بندی کررہے تھے کہ دنیا کے ایک کونے سے وینزویلا بول پڑا عالمی سرمایہ داری کو چیلنج کردیا۔ بین الاقوامی سرمایے کے محافظوں کو للکار کر اپنے دیش سے نکال باہر کیا۔ تیل اور دوسری معدنی دولت کو وینزویلا کے عوام کے نام کردیا۔ پھر ایک سلسلہ چل نکلا۔ جب سرمایے کے بین الاقوامی محافظوں نے عراق، افغانستان پر حملے کیے تو دنیا بھرکے عوام لاکھوں کی تعداد میں امڈ آئے اس جنگ کے سامنے کھرے ہوگئے دنیا بھر کے غربیوں کے اس انبو کے سامنے جبر کی قوتیں ایک طرف دم بخود ہوکر رہ گئی ۔
دوسری طرف معاشی کسا و بازاری نے ان کو ایسے ایسے سمجھوتے کرنے پر مجبور کردیا کہ ماضی کے دشمن دوست اور حال کے دوست دشمنی پر اتر آئے۔ پورا عرب آگ و خون میں ڈوب گیا ہر سو انسانی لاشوں اور بچوں کی چیخوں نے ڈیرے جما لیے۔ لاکھوں انسان بے گھر اور بے وطنی کا شکار ہوکر دربدر ہوگئے۔ سرمایے کے ان محافظوں کے تربیت یافتہ مجاہدوں نے عورتوں کو جنگ میں لوٹا ہوا مال غنیمت کے طور پر جنسی غلام بنالیا یا ان کو منڈی لگا کر بیچ دیا۔ ان مجاہدوں نے بلا تخصیص کم عمر بچیوں سے لیکر بوڑھی عمر کی عورتوں سب کی عزتوں اور وقار کو پامال کردیا۔ مجال کے کسی کے پاس سے کوئی احساس بھی گزرا ہو کہ انسانوں کی یہ تذلیل آج کے ترقی یافتہ دور میں کیسے ممکن ہوگئی۔
روسی فیڈریشن نے نئے نظام کے تحت ایک نئی انگڑائی لی۔ ماضی کے اس بے خدا ریاست نے خداکو ماننے والوں سے ایک نیا اتحاد بنالیا۔ ہر دو طرف سے بارود کی برسات نے لاکھوں انسانوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کردیا۔ زندگی کی تلاش میں سرگرداں انسانوں کا یہ انبوہ کہیں تو پانیوں میں ڈوب گیا اور کوئی کسی کنٹینر میں دم توڑ کے مرگیا۔ کوئی معصوم ایان ساحل کی ریت پر اوندھا پڑا سوالیہ نشان بن گیا اور کوئی یمن کا گم نام علاج کرنے والے معالجوں کو کہتا ہے کہ مجھے زندہ دفن نہ کرنا۔دوسری طرف مالدار ملکوں کے کافر حکمرانوں نے انسانوں کے اس ریوڑ پر سرحد بند کردیں کہ اگر وہ بارود کی بارش سے بچ گئے ہوں تو کھلے آسمان کے نیچے موسم کی شدت اور بھوک سے مرجائیں۔
پھر ایک دوسرا ناٹک دہشت گردی کے خلاف رچایا گیا دلیلیں دی گئی خود تراشے تبوتوں کا انبار لگادیا گیا۔ بھوک کا شکار افغان عوام کے خدا کو تو بچالیا گیا لیکن خدا کو جاننے والے افغان بارود کا ڈھیر بن گئے۔ بارود کے اس ڈھیر سے بربادیوں کے نئے لشکر ابھر آئے۔ جو آس پاس اپنے نہ دکھائی دینے والے سپہ سالاروں کی سربراہی میں مورچہ زن ہوگئے۔ پارسائی کے لبادے میں باریش چہروں سمیت جدید زیبائش والے خوش نما شکلیں بھی ان کا دم بھرنے لگیں۔
سیاست کی اس بین الاقوامیت نے پورے عالم کو ہلا کے رکھ دیا۔ سوویت یونین کے خلاف خوست کے زیر زمین تہہ خانے میں تیار کئے جانے والے مجاہدوں کو ڈالروں اور ہیروئن کے کاروبار میں پُرو دیا گیا۔ پلٹا کھا جانے والی طاقتوں نے افغان جنگ کے بعد بیروزگار ہو جانے والے ان مجاہدوں کے لئے دھیمی آنچ پر رکھی زعفرانوں اور چناروں کی سرزمین یعنی کشمیر میں ایک نیا کار زارسجالیا۔
جنگ کے اس نئے میدان میں مجاہد کہلانے والے حریت پسندی کی چھتری اوڑھے آدھمکے۔ ان کو منظم کرنے اور بھیجنے والی قوتوں نے بارود برسانے سے پہلے نچلی سطح پر کام کیا۔ کشمیر کی الگ ریاست کی بات کرنے والے گروہ جو پاکستان کے ان اداروں کی نظر میں غدار تھے کو گود لے لیا۔ مقبول بٹ شہید کے ان ساتھیوں نے ذرا بھی توقف نہیں کیا وہ پکے پھل کی طرح ان کی جھولی میں گرگئے اور یہ بھی نہ سوچا کہ تہاڑ جیل میں مدفون مظلومیت اور مزاحمت کی یہ نحیف سی علامت اپنے آدرش کھو تو نہیں رہی۔
کشمیر کو ایک الگ ملک کے خواہشمند بڑی جلدی میں سپہ سالار بننے کی خود پسندی میں نفرت اور بربادیوں کی علامت بن گئے۔ بندوق دینے والوں نے دیکھتے ہی دیکھتے کشمیر کو فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ صدیوں سے مل کر رہنے والوں کو جو ایک تاریخی پس منظر رکھتے تھے عقائد کی بھینٹ چڑھ گئے۔ آزادی کا گیت ان بندوقچیوں کی گولیوں کی نظر ہوگیا۔ پنڈتوں کو کافر قرار دیکر مارا جانے لگا۔ ہجرتیں شروع ہوگئیں ہندوستانی افواج کا عوام پر جبر تیز ہوگیا۔ مجاہدین کے خوف سے 6 لاکھ پنڈت جموں اور دہلی کی طرف ہجرت کرگئے اور ہندوستانی فوج کے خوف سے کوئی ڈھائی لاکھ کے قریب مسلمان پاکستان کے زیر قبضہ آزاد کشمیر کی طرف ہجرت کرگئے ۔
دونوں طرف کے ان مہاجروں کو ہندوستان اور پاکستان کے حکمران طبقات نے بین الاقوامی سطح پر ان درماندہ انسانوں کی چابکدستی سے منادی کی اس سب سے اور تو کچھ ہوا یا نہیں لیکن یہ مذہبی نفرت صدیوں سے مل کر رہنے والوں کے لیے عذاب بن گئی۔ آزادی کی جدوجہد جہاد کی شکل اختیار کرگئی جبکہ دوسری طرف لاتعلق اور خاموش بھگوان بھی جاگ اُٹھا پھر خون آشام اور بربادی نے ہر چیز کو بھسم کرکے رکھ دیا۔
جھوٹ کے پراپیگنڈے نے جموں وکشمیر کے ہر حصے کو متاثر کیا ایک سراسیمگی پھیل گئی۔ پاکستانی پریس نے وہ ہاہاکار مچائی کہ لگتا تھا اب دلی دور نہیں۔ لیکن نائن الیون کے واقعہ نے ماضی کے ان مجاہدوں کو لمحے بھر میں دہشت گرد قرار دے دیا۔ افغانستان کو بارود میں ڈبو دیا گیا پاکستان کے پالیسی سازوں کو جہاد روکنا پڑا۔ لائن آف کنٹرول پر گولہ باری رک گئی۔ جے کے ایل ایف کے ایک رہنما نے ہندوستان میں قید سے رہائی کے بعد بندوق والی لڑائی سے علیحدگی اختیار کرلی اور گاندھی کے عدم تشدد کی فلاسفی کو آزادی کی بنیاد قرار دے دیا۔
لیکن اس عدم تشدد کی تبلیغ کا بندوقوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ ان مجاہدوں کو برا قرار دے دیا گیا اور دلچسپ بات یہ کہ ان برے مجاہدوں کو صرف منظر سے ہٹاکر محفوظ جگہ پر پہنچا دیا گیا کہ حسب ضرورت ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جاسکے۔ 2005ء کے زلزلے کی تباہی میں ان برے مجاہدوں کے نرم حصوں کو متاثرین کی اولاد کے لئے بھیج دیا گیا اس بات کو تسلیم کئے بنا کوئی چارہ نہیں کہ مجاہدوں کی ان تنظیموں نے متاثرین کی بے حد مدد کی، وہاں بھی پہنچے جہاں حکومت اور پاکستانی فوج نہیں پہنچ سکی تھی۔ امداد کی ان سرگرمیوں نے ان تنظیموں کے جہاں حوصلوں میں اضافہ کیا وہی پر نئے مراکز بھی قائم ہوئے۔ عوام کے لئے یہ مراکز صحت بخش جنت سے کم نہیں تھے جہاں جہاد کی تعلیم و تربیت بھیحاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان کی فوجی حکومتیں ہوں یا جمہوری، ہر دور میں جاری و ساری رہتا ہے۔
جہاں ایک طرف پاکستان کے مقبوضہ علاقوں میں یہ عمل جاری تھا کہ ہندوستان میں کانگریس کی بدترین شکست کے نتیجے میں بی جے پی کی حکومت بڑی اکثریت سے قائم ہوگئی جنت میں سمادھی لے جانے کی خواہش ان میں بھی کم نہ تھی۔ مسلمانوں کی لشکر طیبہ کی طرز کی شیوسینا، راشٹریہ سیوک سنگھ اور جن سگھی بھگوان کی آتما کو شکتی دینے نکل پڑے انہیں جہاں جو ملا ذبح کردیا گیا ۔ہندوستانی ریاست کی مکمل آشیرباد سے ان گروہوں نے جو جہاں پورے ہندستان کو تاریخ کے نازک موڑ پر لاکھڑا کیا وہیں پر کشمیر میں بھی صف بندی شروع کردی۔
پاکستان اور ہندوستان دونوں کی جمہوریت حکومتوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشی کا پرانا فن دوبارہ آزمانا شروع کردیا۔ جنگ بندی لائن پر گولہ باری شروع کردی گئی دونوں طرف کی گولیوں سے نشانہ غریب الوطن کشمیری مرتے رہے۔ ان مظلوموں کی لاشوں کی نمائش پر ہر بین الاقوامی فورم پر کرتے رہے۔ دنیا نے ان لاشوں پر کیا کہا یہ تو معلوم نہیں لیکن جموں و کشمیر کے تمام حصوں میں مذہبی نفرت شدید تر ہوگئی۔ جموں ابل کر باہر آگیا وادی گولیوں کی بوچھاڑ کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر ہڑتالوں کینذرہوگئی۔
جہاں کے جموں یاد وادی کی سیاسی جماعت نے لوگوں کو جوڑنے کی کوشس کی ہو ان کی نفرتوں تو کم کرنے کی کوشش کی ہو۔ ہندوستان کی سیکولر جماعتوں اور کمیونسٹ پارٹیوں نے بھی یا تو خاموشی اختیار کی ہوئی ہے یا مصلحت کے تحت خاموش ہیں۔ سوائے کمیونسٹ پارٹی مارکسسٹ کی کشمیر برانچ جو براہ راست متاثر بھی ہے کہ ان کے رہنما یوسف تاری گامی کو بھی سرینگر سے ہجرت کرنا پڑی۔ یہ پارٹی روا داری کا درس دے رہی ہے جو نہ صرف ناکافی ہے بلکہ بربریت کے اس ہجوم میں طوطی کی آواز سے زیادہ کچھ نہیں چونکہ یہ خدا اور بھگوان دونوں کو ناپسند ہے۔ اسی کے ساتھ ایک اور نحیف سی آواز لبریشن پارٹی کے ہاشم قریشی کی بھی آتی ہے جو بندوقوں کے سائے میں دبی دبی سی ہے۔
جبکہ پاکستان کا بیانیہ جہاد کی مقدس ترتیب سے شروع ہوتا ہے۔ جہاں پیپلز پارٹی جیسی پارٹی کو بھی کشمیر بنے گا پاکستان کا گیت گانا پڑتا ہے۔ جبکہ آزاد کشمیر میں قوم پرست گروپ نہ صرف تنظیمی انتشار کا شکار ہیں بلکہ فکری ابہام میں بھی مبتلا ہیں۔ جبکہ جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی جو بائیں بازوں کے نظریات رکھتی ہے معتوب اور مجاہدین کی حکومت اور دائیں بازوں کی ساری قوتوں کے حملوں کی زد میں ہے۔ماضی کی خوش گمانیوں میں مبتلا یہ نجات دہندہ ہر لمحہ کشمیری عوام کی غربت غلامی محرومی کے زخموں کے ساتھ ساتھ بربادیوں کے زخم سے بھی چور کررہے ہیں۔
بین الاقوامی تبدیل ہوئی اس صورتحال میں جموں کشمیر تنہائی کے کونے پر کھڑا سوالیہ نشان بن گیا ہے جبکہ یونان سے لیکر کینیڈا اور لاطینی امریکہ سے لیکر برطانیہ تک سیاست نئے رخ اختیار کررہی ہے۔ زیادہ ریڈیکل لوگ قیادت کے منصب پر نمودار ہورہے ہیں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے کہ سرمایہ داری نے انسانوں کو بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا اس فالج زدہ نظام سے چھٹکارے کے سوا نسل انسانی کی بقا ممکن نہیں ہے۔
ا س نئی کروٹ لیتی دنیا میں جموں کشمیر کے عوام کو اپنے مرتبے کا تعین کرنا پڑے گا۔ نئی راہیں تلاش کرنا پڑیں گی۔ تاریکی کی تمام قوتوں کو مسترد کرنا پڑے گا ایک خوبصورت معاشرے کی تشکیل کی طرف بڑھنا پڑے گا۔ قابضین سے ریاست کے چھٹکارے کے لئے تمام مذاہب اور فرقوں کو باہم جوڑنا پڑے گا۔ قابض ملکوں کی بلاواسطہ کی لڑائی سے الگ کرنا پڑے گا اور یہ کام 80 فیصد سے زیادہ محرومیوں کے شکار عوام اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا۔
انسانی آزادی اور انسانوں کے درمیان محبت جیسے آدرشوں کی حفاظت کے لئے جابروں کے بنائے نظام سے انکار کرنا ہوگا۔ اور یہ انکار وسیع تر عوام کی مزاحمت ہی آزادی، امن، روٹی اور انصاف کی شکل کرسکتی ہے اس کے سوا باقی سب راستے سراب جھوٹے اور غلط ہیں۔
آخری جیت سچائی کی ہوگی۔
اٹھو تم سب جو غلام نہیں ہو۔