ارشد نذیر
پاکستان کی سیاست کا تجزیہ کرتے ہوئے ہمارے کچھ دانشور نظروں کے سامنے والے منظرنامے کا تجزیہ کرتے رہتے ہیں اور پسِ منظر میں موجود وجوہات کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ان کے ایسا کرنے سے کچھ الجھنیں اور کجیاں جنم لیتی ہیں۔ پاکستان کی سیاست کے تجزیہ کے لئے سیاسی پارٹیوں کے بننے اور بنائے جانے کے عمل کا جائزہ لینا انتہائی ضروری ہے ۔
جمہوریت اور اس کی مضبوطی کی باتیں اکثر سننے میں آتی ہیں ۔ اگر جمہوری نظام پر غور کیا جائے تو نظامِ جمہوریت سیاسی پارٹی سے ہی شروع ہوتا ہے۔ یعنی ہر پارٹی اپنا اپنا منشور پیش کرتی ہے ۔ اپنی کوئی معاشی پالیسی دیتی ہے۔ اس کی فارن پالیسی ہوتی ہے۔لوگوں کو اپنا ہم نوا بناتی ہے۔ انتخاب کے مرحلے سے گزار کر ان لوگوں کو پارٹی میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہ سیاسی پارٹیوں کے جمہوری عمل کہلاتا ہے۔ پھرعوام کو قائل کیا جاتا ہے کہ ان کا جاری کردہ یہ سیاسی عمل اُن کو سماجی اور معاشی انصاف فراہم کرے گا۔ وہ بلا امتیاز اور میرٹ کی بنیاد پر آگے بڑھیں گے۔
یہ سیاسی عمل عوام کی معاشی، معاشرتی اور شہری آزادیوں اور ترقی میں بلاامتیاز اور میرٹ پر ان کی شمولیت کو یقینی بنائے گا ۔انہیں اصولوں کی بنیاد پر یہ سیاسی عمل عوام کا ضامن بنتا ہے۔ ایک حقیقی جمہوری عمل میں سماجی اور معاشی انصاف کا تخم موجود ہوتاہے اور اپنے دوام کے لئے اس کی خواہش بھی ہوتی ہے ۔ ایک اور امر جو جائزے کے اعتبار سے خاصا اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ جمہوریت مغربی طرزِ حکمرانی ہے لہٰذا تقلید کے لئے بھی تمام تر مثالیں مغرب ہی سے حاصل کی جاتی ہیں۔
جمہوریت خود کوئی نظام نہیں ہے بلکہ سرمایہ داری جیسے معاشی نظام کو چلانے اور اس کے تحفظ کے لئے یہ ایک طرزِ حکمرانی ہے ۔ اسی جمہوریت کومغرب نے کم و بیش ان بیان کردہ خصوصیات کے تابع ہی چلانے کی کوشش کی اور اپنے سماج کو ان بنیادوں پر استوار کیا۔ یہ تو وہ باتیں تھیں جو ہم درسی کتب میں آج تک پڑھتے رہے۔ تاہم ہمیں اس بات کو تسلیم کرنے میں بھی کوئی عار نہیں ہونی چاہئے کہ مغربی ممالک نے کافی حد تک اس نظام میں موجود قدرتی ترقی و ارتقاء سے استفادہ کیا ہے۔ اُن کے ہاں اس نظام کے مرہونِ منت ایک متوسط طبقہ نے جنم لیا جو کافی عرصہ تک خود اس کے قیام و مضبوطی کا ذریعہ بنا رہا۔
جہاں تک مثالی جمہوریت کا تعلق ہے تو وہ جمہوریت دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے۔ اس کا تذکرہ صرف کتابوں ہی میں ملتا ہے ۔ کیونکہ فیصلہ سازی اور فیصلے مسلط کئے جانے کے عمل میں معیشت کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے اور آخر ی تجزیئے میں مجتمع معیشت ہی سیاست کا روپ دھارتی ہے۔ جب ریاست کو معیشت کے جبر کے تحت فیصلے کرنے ہوتے ہیں تو شہریوں کی تمام سیاسی ، معاشرتی ، ثقافتی اور مذہبی آزادیاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔
سرمایہ داری اور معاشی استحصال لازم و ملزوم ہیں۔ اس نظام میں طبقات کا پیدا اور ان کا برقرار رہنا لازمی ہے۔ اس نظام کو چلانے کے لئے محنت کش طبقہ ، انتظامی امور چلانے والا طبقہ اور درمیان میں جھولتے رہنے والا متوسطہ طبقہ سب لازمی ہوتے ہیں۔ ان کے درمیان تضادات اس نظام کے چلتے رہنے کا سبب بنتے ہیں۔ جمہوریت انتہائی مکارانہ طریقے سے ان طبقات کے درمیان شدید ہوتے ہوئے تضادات کو کنٹرول کرتی ہے۔ یہ مکاری مغربی ممالک میں بھی موجود ہے اور ان کی تقلید میں چلنے والی جمہوریتوں میں بھی پائی جاتی ہے کیونکہ جمہوری نظام کے پاس روز بروز گہرے ہوتے ان تضادات کا کوئی حل نہیں ہے۔ یہاں اچھی طرزِ حکمرانی کام آتی ہے اور نہ ہی سماجی اور معاشرتی انصاف۔ اب اس کتابی تجزیئے سے باہر نکل کر پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری عمل پر تھوڑا سا غور کر لیتے ہیں۔
پاکستان میں جمہوری نظام اپنے ارتقائی مراحل سے گزر کر یہاں تک نہیں پہنچا بلکہ یہ باہر سے مسلط کیا گیا ہے۔ برِصغیر پاک و ہند کا اپنا جو معاشی، سماجی اور سیاسی نظام تھا وہ ابھی اپنے ارتقائی مراحل ہی میں تھا کہ بیرونی حملہ آوروں نے اپنے سامراجی عزائم کے تحت یہاں پر حملے شروع کر دیئے ۔ان حملہ آور قوتوں نے یہاں کے قدرتی وسائل کو لوٹا اور یہاں حکمرانی کے وہ طریقے اپنائے جن سے ان کے استحصال کی راہیں ہموار ہو سکیں۔ یہاں پر حکمرانی کا جو فلسفہ رائج کیا گیا وہ عوام اور حکمرانوں کے درمیان فاصلے ، خوف کی فضا کو برقرار رکھنے ، رعب و داب قائم رکھنے ، عوام کو جاہل سمجھنے اور انہیں بے وقوف بنائے رکھنے جیسے حربوں پر قائم تھا۔ ان کے ذرائع پیداوار میں ان کو شریک نہ کرنے اور موقع پرستی جیسی تمام خصوصیات بھی ان کے حکمرانی کے اس فلسفے کی حصوصیات رہی ہیں۔
یہاں کے جاگیردارانہ نظام کو بھی اپنے مفادات کے لئے استحصالی رنگ میں ڈھالا گیا۔ یہاں کے علاقائی لوگوں کے اذہان میں اس طرزِ حکمرانی کو راسخ کیا گیا۔ یہی نفسیات آج تک ہمارے حکمران طبقے میں چلی آرہی ہے۔ لہٰذایہاں جو جمہوری عمل شروع کیا گیا۔ اس جمہوری عمل کابھی ارتقاء اور ترقی اُسی انداز میں نہ ہو سکی جس انداز میں یہ مغرب میں ہوئی کیونکہ اُن کے تو ہاں یہ نظام اپنے افراد کی اس سیاسی عمل میں شمولیت کے فلسفے پر قائم تھا جبکہ یہاں یہ عوام کو حکمرانوں سے دور رکھنے اور اُن کو انگریز حکمرانوں کے تابع فیصلے کرانے کے تصور پر قائم کیا گیا۔یعنی یہاں پر رائج جمہوریت کو سامراجی اور توسیع پسندی کے مقاصد کے حصول کے لئے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا گیا۔
برِصغیر کی تقسیم کے بعد یہی طرزِ عمل پاکستان کے وڈیروں اور جاگیرداروں کو ورثہ میں ملا۔ سادہ الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں حکمرانی چھلانگ لگا کران روایتی جاگیرداروں اور وڈیروں کے ہاتھ آئی۔ اسی صورتحال میں ملٹری اور سول بیوروکریسی جس کی تربیت برطانوی سامراج نے خود کی تھی ،کے ساتھ ان جاگیرداروں اور وڈیروں کا تضاد بننا عین فطری تھا۔ یہ وڈیرے اور جاگیردار جو یونینسٹ پارٹی کے پلیٹ فارم سے پاکستان کی تخلیق سے چند سال ہی قبل مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے ، اپنی جاگیروں اور زمینوں کے تحفظ کے لئے اور اپنے استحصال کو قائم رکھنے کے لئے ملک کی سیاست میں گھس آئے۔ ایسا کرنااُنکی مجبوری بھی تھا اور ضرورت بھی۔ لیکن یہاں انہیں سول اور خاکی بیوروکریسی کی حکمرانی کی نفسیات جو اُسی انگریز سرکار نے بنائی تھی جن کے ہاتھوں پاکستان کے استحصال کرنے والے یہی جاگیردار اور وڈیرے کھیلتے رہے تھے ۔
لہٰذاتاریخ گواہ ہے کہ ابتدا سے ہی پاکستان میں خاکی وردی والے اور سول بیوروکریسی نے ان جاگیردار اور وڈیرے سیاست دانوں کو قبول نہیں کیا۔دونوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی کا عمل شروع ہو گیا۔ اقتدار کی اس رسہ کشی نے یہ ثابت کردیا کہ تخلیقِ پاکستان جسے حقیقی جمہوری عمل کا نتیجہ کہا جاتا ہے میں عوام اور محنت کش کہیں نہیں تھا بلکہ یہ اشرافیہ کے اقتدار اور تقسیم کرو اور حکمرانی کرو جیسی پالیسی کا نتیجہ تھا۔ لہٰذا تخلیق کے فوری بعد کے اس سیاسی عمل میں بھی عوام ان تضادات سے باہر رہے۔ وڈیروں ، جاگیرداروں اور سول و ملٹری بیورو کریسی کے درمیان اقتدار کے لئے جاری رسی کشی صرف انہی عناصر کے ذاتی مفادات کے لئے تھی۔
ہمارے سیاست دانوں کی نفسیات آج بھی اوپر بیان کردہ طریقوں اور طرز پر قائم ہے۔کتابی جمہوریت کاپاکستان کی عملی جمہوریت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ تاہم سرمایہ داری کی اپنی قدرتی گروتھ اور ذرائع پیداوار میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موجود طبقات کی شکلیں تبدیل ہوئی ہیں لیکن سیاست میں گھس آنے والے ان وڈیروں اور جاگیرداروں کاطرزِ حکمرانی آج بھی وہی روایتی ہے۔پاکستان کی سیاست میں آج بھی یہی لوگ یا ان کے بچے فیصلہ کن کردار ادا کر رہے ہیں۔سیاست آج بھی کسی نہ کسی طرح انہی خاندانوں کے گرد گھوم رہی ہے۔
سرمایہ داری کو اپنی ضرورت کے لئے جتنا صارف طبقہ چاہئے ہوتا ہے ، سرمایہ داروں اور سامراجیوں نے پاکستان میں وہ طبقہ پیدا کیا۔ زرعی اراضی بھی تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزری جس نے چھوٹے زمین داروں اور کاشتکاروں کو مزدور اور مزارع بنا کر رکھ دیا۔شہروں میں چھوٹے کاروباری اور ملازمت پیشہ طبقے نے جنم لینا شروع کیا ۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بڑی تعداد میں محنت کش اور مزدور مشرق وسطیٰ میں روزگار کی تلاش میں گئے۔ ان لوگوں نے یہاں اپنوں کو پیسے بھجوانا شروع کئے جس سے اُن کی کچھ حالت بدلی اور ایک باقاعدہ ایک متوسط طبقے نے جنم لینا شروع کیا۔لیکن یہ لوگ حقیقی سیاسی عمل میں کبھی بھی شریک نہیں ہوئے ۔
بھٹو کے دور میں کسی قدر عوامی سیاست کی طرح اپنائی گئی لیکن ضیاء الحق نے اس سیاسی عمل کو سبوتاژ کر دیا۔ اُس کے بعد صرف نودولتیوں کی ایک کلاس نے جنم لیا۔ عوام کی اجتماعی سوچ اور اجتماعیت کی تربیت پہلے ہی نہیں تھی۔ نودولتیہ کلاس نے خود پسندی، خود غرضی، حرص ، لالچ اور طمع جیسے منفی جذبوں کی پرورش کی۔کہا جاتا ہے کہ متوسط طبقہ صاحبِ اقتدار طبقے کی ہمیشہ پیروی اور اطباع کے نفسیاتی مرض میں مبتلاہوتا ہے ۔ وہ ان جیسا بننے کے خواہاں ہوتے ہیں اور اپنے سے نچلی طبقے یعنی مزدوروں اور محنت کشوں سے متنفر رہتا ہے۔ حکمران طبقے کو متوسط طبقے کی یہ نفسیات وار ے آتی ہے ۔ لہٰذا وہ اس طبقہ کو اس کیفیت اور سراب میں مبتلا رکھتے ہیں کہ وہ بھی ایک نہ ایک دن اُن جیسے بن جائیں گے ۔
ان کی یہ نفسیات محنت کشوں اور حکمرانوں کے درمیان تضادات کو فیصلہ کن جھگڑے کی طرف پہنچنے کی راہ میں حائل رہتی ہے۔ صرف یہی نہیں ان کی یہ خود غرضی خاندان جو کہ سماج کی بنیادی اکائی ہوتی ہے کو بھی شدید تضادات کا شکار بناتی ہے۔خاندانی رشتوں میں بھی خود غرضی، منافقت، بغض، حسد ، جھوٹی انا پرستی اور بے جا نمود و نمائش اور مقابلہ بازی جیسے منفی جذبے پروان چڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ حقیقی محنت اور الفت عنقا ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
پاکستان کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے درمیانے طبقے کے سیاسی عمل کبھی میں براہِ راست شامل نہیں رہنے کی وجہ سے ان کی وہ تربیت بھی نہ ہو سکی جو مغرب کے درمیانے اور متوسط طبقے نے حاصل کی۔رہا سہا کام نصابِ تعلیم کی عملی زندگی سے ناہم آہنگی اور بے ربطگی نے بھی کر دیکھا۔ علاوہ ازیں وڈیروں اور جاگیراروں کی یہ خواہش کہ عوام کو سیاست کے کھیل سے الگ تھلگ ہی رکھا جائے بھی کام کرگئی۔لہٰذا یہ ابھرنے والا درمیانہ اور متوسط طبقہ سیاست میں کوئی کردار ادا نہ کر سکتا۔ اگر اس طبقے کا سیاست میں کوئی کردار نظر آتا ہے تو وہ دولت اور شوشا کی سیڑھی کے ذریعے اس عمل میں شامل ہونے کا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی اس نفسیاتی پسپائی کہ ملک میں سیاست صرف دولت کی بنیاد پر ہی ہو سکتی ہے کا اظہار اپنے اس عمل سے کیاہے۔ اکا دکا غریبوں کی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں لیکن ان کو استثنائی مثالیں کہاجاسکتا ہے۔ نیز وہ کوئی خاص تبدیلی بھی نہیں لا سکیں۔
اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں غریبوں اور متوسط طبقے کا کوئی زیادہ حصہ نہیں ہے ۔ ان عہدوں پر بھی ہمیشہ سے انہیں اشرافیہ کے بچے یا رشتہ دار ہی فائز رہے ہیں۔ اور آج بھی انہیں کے عزیز و اقارب کی کثیر تعداد براہِ راست یا بلواسطہ طور پر ان عہدوں میں دخیل ہے۔ کچھ متوسط طبقے کے بچے سول سروسز میں آبھی گئے ہیں تووہ بھی انہیں کے رنگ میں رنگے گئے۔ ان کی اس سوچ نے بھی بے حسی ، خود غرضی اور مفاد پرستی کے جذبات ہی کو پروان چڑھایا۔آج پاکستان میں ادارے کمزور ہیں اور افراد مضبوط ہیں۔ رشوت، بد عنوانی ، اقرابا پروری اور بری طرزِ حکمرانی کا سبب انہیں کی یہ سوچ ہے۔ سول بیوروکریسی نے ہمیشہ اداروں کو کمزور کیا ہے۔ میرٹ کی دھجیاں اُڑائی جاتی رہیں ہیں۔ ان اداروں کے افسران اور سربراہان اربوں پتی ہو گئے ہیں۔غریب اور امیر کے درمیان مسلسل بڑھتا ہوا یہ فرق نفرتوں کو جنم دے رہا ہے۔
ملٹری اسٹیبلیشمنٹ یا خاکی بیوروکریسی نے اپنے وجود کو برقرار رکھنے اور اپنی اہمیت کو قائم رکھنے کے لئے پہلے دن سے ہی پاکستان اور انڈیا کا ہوا کھڑا کیا۔ یہ فلسفہ بھی روایتی سیاسی فلسفہ جس میں معیشت کی مضبوطی ہی خشتِ اول کا کام کرتی ہے کے متضاد تھا۔تاہم خاکی بیوروکریسی بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ان نفرتوں کو آگے بڑھاتی رہی ۔ آج متوازن سوچ کے متحمل افراد بھی یہ رائے رکھتے ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کی دشمنی کو حقیقی اور قدرتی ہے۔یہ سوچ فوج کے قیام اور اس کے کثیر دفاعی اخراجات کا جواز خود بخود پیدا کر دیتی ہے۔
ایسی صورتحال میں کسی دوسرے سیاسی آپشن پر غور وخوض کی کوئی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ ہندوستان کے خلاف دشمنی کو تو چلیں مذہبی تفریق کی بنیاد پر قائم رکھا گیا ہے لیکن ہم اپنے مسلمان ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ بھی دوستانہ مراسم قائم رکھنے میں شروع دن سے ناکام رہے ہیں۔ ہم نے اپنے اس ہمسائے کو ہمیشہ ہی اپنا مرغِ دست آموز بنائے رکھا ۔ یہ پالیسی سامراجی عزائم کی عکاس ہے نہ کہ کسی حقیقی جمہوری رویے کی ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور و مرکز یہ دونوں ممالک ہی رہے ہیں۔آج تک خارجہ پالیسی میں خاکی بیوروکریسی براہِ راست دخیل ہے۔اس کے تمام تر معاشی مفادات اسی پالیسی کے تابع ہیں۔ خارجہ پالیسی کبھی بھی غریب عوام اور محنت کشوں کے مفادات کے تحفظ کے تابع نہیں بنائی گئی۔
بیرونی سامراجی قوتوں نے ہماری اس صورتحال کا بھر پور فائدہ اٹھایا ۔ ہمارے سیاسی عمل میں بھی گھس بیٹھے یہ کرائے کے سیاستدان اپنی عوام کی نمائندگی کم اور بیرونی سامراجی قوتوں کے مفادات کا تحفظ زیادہ کرتے ہیں۔ ان قوتوں کو اپنے مفادات کا تحفظ کرنے والے سیاست دان ہی چاہئے ہوتے ہیں ۔ سو وہ انہیں پاکستان میں آسانی سے دستیاب آ جاتے ہیں۔ لہٰذا وہ پاکستان میں ہر جیتنے والے گھوڑے پر یا ہاتھ رکھتے ہیں یا کوئی جیتنے والا گھوڑا تیار کرتے ہیں۔ اس کھیل میں فوج کو بھی ملوث کیا جاتا ہے اور خود سیاسی پارٹیوں کے یہ کرتا دھرتا خود بھی استعمال ہوتے ہیں۔ انگریزی میں ایک محاورہ ہے کہ بھکاریوں کے پاس چناؤ کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ غریب ملک میں سیاست کرنے والے یہ سیاست دان بیرونی طاقتوں کا تختہ مشق بننے کے لئے آسانی سے تیار ہو جاتے ہیں۔
اس سیاسی عمل سے پاکستان کی غریب عوام اور محنت کش نہ صرف اکتائے ہوئے ہیں بلکہ نفرت بھی کرتے ہیں۔ اُنہیں یہ یقین ہے کہ اُن کے مفادات کی کوئی بات نہیں کرتا۔ یہ سب اپنا پیٹ بھرنے کے لئے میدان میں اترے ہیں۔ یہ کوئی فلسفیانہ جملہ نہیں ہے بلکہ یہ گلی تھلی میں بیٹھے عام آدمی کی سوچ ہے۔ ایسے میں اگر کوئی غریب اور محنت کش اپنا ووٹ بیچنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے تو اُسے اپنے ووٹ کا سب سے بڑا مصرف ہی یہی نظر آتا ہے ۔
آج حالت یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا کوئی منشور نہیں ہے۔ ہر سیاسی پارٹی انتخابات کے دنوں میں غریب عوام سے ووٹ حاصل کرنے کے لئے سیاسی نعرے تو لگاتی ہے لیکن کوئی قابلِ عمل منشور پیش نہیں کرتی۔ اقتدار میں آنے والی ہر سیاسی پارٹی بلاامتیاز پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ (ن ) سب ہی منی بجٹ دیتے رہے ہیں۔ عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری ، گیس اور بجلی کے بحرانوں کا تحفہ دیتے رہے ہیں۔ یہ غریبوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔
ان کی معاشی پالیسیوں کی روشنی میں دیکھا جائے تو آج دائیں بازو اور بائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں میں کوئی فرق ہی نہیں رہا۔ جب تک کوئی واضح معاشی ایجنڈا نہیں دیا جاتا ، اُس وقت تک پاکستان میں سیاسی عمل شروع ہی نہیں ہو سکتا۔ معاشی ایجنڈا دینے کے لئے اس آزاد معیشت کی آزاد منڈی میں ہونے والی تبدیلیوں اور آئے ہوئے معاشی بحرانوں کی نمٹنے کی کوئی سنجیدہ پالیسی تیار کرنا ہو گی۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک سے چنگل سے نکلنا ہوگا۔ کیا ہمارے حکمرانوں کے پاس اتنی سیاسی بصیرت ہے کہ وہ ان بحرانوں سے نکل سکیں لیکن ان سوالوں پر کوئی بھی سنجیدگی سے سوچنے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ان سوالات کے جواب کے بغیر پاکستان میں خونی انقلاب کو کوئی نہیں روک سکتا۔
♣
3 Comments