بلوچستان: بد سے بد تر کی تلاش میں

baloch

ملک سراج اکبر

آج کل اہلیانِ بلوچستان ایک عجیب کشمکش میں گھرے ہوئے ہیں۔

شاید آپ میری بات پوری ہونے کا انتظار کئے بغیر بے صبری سے لقمہ دے کر فرمائیں گے۔چھوڑیں جی، بلوچستان کے لوگوں کی کون سنتا ہے؟آپ کی بات تو سوفیصد درست ہے۔ لہذا میں ادھر ہی رک کر اپنی تصیح کرتا ہوں۔

دراصل بات یہ ہے کہ بلوچستان کے لوگ آج کل عجیب وغریب صورتحال اور بدلتے حالات کا نظارہ کررہے ہیں۔ معاہدہ ِ مری کے تحت لگتا ہے کہ صوبائی حکومت میں تبدیلی ناگزیر ہوگئی ہےاوراب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ اپنے عہدے پر برقرار ر ہیں یاحکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے سردار ثنااللہ زہری کو صوبے کی وزارت اعلیٰ سونپی جائے؟

یا خدایا اس غریب صوبے کو اتنے بڑے آزمائش میں کیوں ڈال دیا ہے؟ کیا یہ کہنا گناہ ِکبیرہ ہوگا کہ ڈاکٹرمالک نے بلوچستان کے لوگوں کو مایوس کیا ہے اور انھیں قوم پرستی کا لبادہ پہن کروزیراعلیٰ رہنے کا کوئی حق نہیں پہنچتااورمزید یہ کہ صوبے کے لوگوں نے اتنے بڑےگناہ نہیں کئے ہیں کہ سزا میں ان پر ثنااللہ زہری کو بطورِ وزیراعلیٰ مسلط کیا جائے۔

بلوچستان اچھے اور سچے لوگوں کی سرزمین ہے۔ یہاں کے لوگوں کا حق بنتا ہے کہ ان کے ساتھ انصاف ہو اور ان کے حکمران ایمان دار ہوں۔ باقی صوبوں میں تو شاید سیاست دانوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ عوام کا خون چوستے ہیں لیکن بلوچستان کے افلاس زدہ لوگوں کے جسم میں اب چوسنے کو مزید خون بھی باقی نہیں رہا۔ جن جن نوجوانوں کے جسم میں گرم لہو گردش کررہا تھا،اسے تو بڑی بے دردی سے گلی گلی اورکوچے کوچے میں بہادیا گیا ہے۔

آخر بلوچستان پر قدرت نے اتنا بڑا جبر کیوں کیا ہے کہ ایک طرف تو فوج اور خفیہ اداروں نے صوبے کی ایک نسل تباہ کردی ہے اور پنجابی اسٹبلشمنٹ بلوچستان کے نوجوانوں کو فوج، فارن سروس اوراہم قومی اداروں میں نمائندگی دینے کو تیار نہیں تو دوسری طرف بلوچستان کو اندرونی سطح پر ان سیاست دانوں سے واسطہ پڑا ہے جو صوبےکو کئی نسلوں سے دیمک کی طرح چاٹتے آرہے ہیں۔

انھوں نے زندگی کے ہرشعبے میں بلوچستان کی ترقی مفلوج کردی ہے، اقتدار پراپنا قبضہ مضبوط کیا ہوا ہے اور اپنے راستے پر آنے والے ہر شخص کو اس کی قیمت کے مطابق خرید کر چُپ کردیا ہے۔ کاش آج بلوچستان کے پاس بہتر رہنما ہوتے اور ہمارے سامنے مسئلہ یہ نا ہوتا کہ ہم ڈاکٹر مالک کو اپنا وزیراعلیٰ منتخب کرتے ہیں یا ثنااللہ زہری کو۔

پچھلی چھ دہائیوں میں بلوچستان میں جو پانچ چھ تحریکیں چلی ہیں ان سب میں ایک بڑی خامی رہی ہے اورچونکہ اس خامی کی کبھی نشان دہی اور تصحیح نہیں کی گئی اسی لئے یہ مسئلہ بار بار سر اٹھاتا گیا اور آج یہ مسئلہ کینسر کی طرح بڑھ گیا ہے۔ اوروہ مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان کی ہر بغاوت فوج اور پنجاب کے خلاف رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ بلوچوں کے ایک (قوم پرست) طبقے اور وفاق کی لڑائی میں ایک دوسرا طبقہ ہمیشہ فائدہ اٹھاتا رہا اوراقتدار کے مزے لیتا رہا۔

اس طبقے کی خوش قسمتی دیکھئے کہ کبھی ان سے پوچھ گچھ نہیں ہوئی کہ بلوچستان کی حکومت کو جو (کم بلکہ بہت کم ہی سہی) پیسے ملتے ہیں وہ کہاں خرچ کیئے جاتے ہیں؟ فوج اور مرکز کی ناانصافیاں اپنی جگہ پر لیکن تعلیم، صحت اور انسانی ترقی کے شعبہ جات تو صوبائی حکومت کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اوران شعبوں میں صوبہ کیوں ترقی نہیں کرتا؟

اگرچہ بلوچستان کے مسئلے کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے میں بلوچ مسلح تنظیموں کا اہم کردار رہا ہے لیکن خود ان تنظیموں کی کارروائیوں اور بیانات کا اگر دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے انھیں سرے سے صوبائی حکومت سے کوئی تعلق ہی نہیں کہ بلوچستان کے اس حکمران طبقے کی وجہ سے صوبے کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔ ان تنظیموں نے اپنی وحشت سے ڈرگ مافیا کو ڈرایا اور پنجابی آباد کاروں کو بلوچستان سے بھگا یا ہے ( جو میرے خیال میں ہرگز نہیں ہونا چائیے تھا) لیکن کبھی ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ کبھی آزادی پسند بلوچستان کی ناقص اور بد عنوان حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کریں۔

کیا کسی سماج میں ظلم، بد عنوانی، اقربا پروری، رشوت اور سفارش اتنے ہی بڑے جرائم نہیں ہیں جتنا منشیات ہے؟ بلوچستان سیاسی حوالے سے باشعور ضرور ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں کبھی ایسی سیاسی تحریک کا آغاز نہیں ہوا جس کا نشانہ صوبے کا اشرفیہ ہو۔ کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا گیا کہ صوبے میں لینڈ ریفارمز ہوں اور جن چند امیروں کے پاس ہزاروں، لاکھوں ایکٹر زمینیں ہیں وہ عام بلوچوں میں تقسیم کی جائے۔ اگرچہ وقتی طور پر طلبہ تنظیمیں اپنے حقوق کے حق میں مظاہرے کرتی ہیں لیکن صوبے میں منظم طریقے سے کوئی دیرپا تحریک کبھی نہیں چلی جس نے حکومت کو جھکنے یا اپنی پالیساں بدلنے پر مجبور کیا ہو۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ صوبے میں ایک پڑھا لکھا طبقہ نہیں ہے جو یہ تبدیلی لاسکے لیکن پڑھا لکھا طبقہ اسی تاریخی جبر کا شکار رہاہے جس کاشکار انگریز کے جانے کے بعد بھی پنجابی حکمران رہے۔ بڑے لوگوں کی صحبت میں رہنے کا سب سے بُرا اثر یہ پڑتا ہے کہ ہم ان کی غلامی قبول کربیٹھتے ہیں اور ان ہی کی طرح بننا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر مالک اور ان کی نیشنل پارٹی اس کی ایک بڑی واضح مثال ہے۔

اگرچہ ڈاکٹر صاحب کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اور جب انھیں وزیراعلیٰ بنایا گیا تو پورے بلوچستان میں اس بات پر خوشی کا اظہار کیا گیا کہ پہلی مرتبہ ایک غیر سردارو نواب صوبائی حکومت کا سربراہ بنے ہیں لیکن دیکھنے میں یہ آیا کہ قوم پرستی اب محض اقتدار حاصل کرنے کا ایک بہانہ بن گیا ہے اوراس اقتدار کی خاطر لوگ کچھ بھی کرگزرتے ہیں اور ڈاکٹرمالک کے معاملے میں بلوچستان بھر میں جاری فوجی آپریشنز اور ان کی خاموشی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔

ان کے دور میں بلوچستان اور خاص کر مکران کے تعلیمی اداروں اور ان کے سربراہان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ایک موقع پر پہنچ کر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے لوگ بھی یہی سمجھنا شروع کردیتے ہیں کہ بلوچستان میں طبعی و سیاسی حوالے سے زندہ رہنے کے لئے لازمی ہے کہ آپ اتنے ہی طاقتورہوں جتنے سردار نواب ہیں۔ اگر آپ کا تعلق مکران سے ہے تو اپنے ارد گرد نظریں دوڑائیے کہ ہم میں سے کتنے ایسے لوگ تھے جن کے باپ دادا کے پاس ذاتی محافظ ہوتے تھے یا وہ کئی گاڑیوں کا کاروان میں سفر کرتے تھے؟ یہ تو سرداری اور نوابی حصلتیں تھیں تو مکران جیسے علاقے میں کیسے پہنچے؟

اس کا جواب یہی ہے کہ جو لوگ سردار اور نواب نہیں ہوتے وہ اسے اپنی ایک کمی سمجھتے ہیں اور اس کمی کو پورا کرنے کے لئے بالکل وہی کرتے ہیں جو کہ سردار نواب کرتے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسا کہ یہ سب کچھ کرنے سے ہمارا شان بڑھتا ہے۔

جس طرح چند ملاوں نے اپنی حرکتوں کی وجہ سے اسلام کو بدنام کیا ہوا ہےبالکل اسی طرح کچھ لوگوں نے اپنے مفادات کی خاطر قوم پرستانہ سیاست کو اس حد تک بدنام کیا ہے کہ اب لوگ قوم پرستوں کا نام سنتے ہی طنزکرتےہیں کہ ’’ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت‘‘۔ آخر بلوچستان کا سیاسی منظر نامہ کیسے بدل سکتا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ بلوچستان میں آزادی کی باتیں کرنے والوں اور وفاقِ پاکستان کے ساتھ رہنے والے کرپٹ سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ ایک ایسی نئی اور ایماندار قیادت سامنے آئے جو کہے کہ ہمیں یہ پتہ نہیں کہ بلوچستان کب آزاد ہوگا لیکن ہم نہیں چاہتے کہ آزادی آنے تک ہمارے صوبے کے خزانے سے کروڑوں روپے عوام کی ترقی و فلاح و بہبود پر خرچ ہونے کے بجائے چند افراد کے ذاتی بینک اکاونٹس میں جمع ہوں؟

جس طرح ہندوستان میں کرپشن کے خلاف اروند کیجرول نامی سیاست دان اور ان کی عام آدمی پارٹی‘‘ ابھر کر سامنے آئے کیا یہ ممکن ہے کہ بلوچستان میں بھی ایک ایسا رہنما پیدا ہوجو کہے کہ بلوچستان آزاد ہو یا نہ ہو ہم کسی ایم پی اے کو کروڑوں روپے اپنے جیب میں ڈالنے نہیں دیں گے؟ جب تک بلوچستان میں ایک ایسی تحریک نہیں اٹھتی جس کا مقصد صوبائی حکومت، اس کے ڈھانچے اوراس میں موجود افراد کی تصیح اوران کا احتساب ہو اس وقت تک صوبے کے جسم میں موجود یہ کینسر بڑھتا جائے گا۔ وفاق اور آزادی پسند قوتوں کی جنگ جتنی لمبی ہوتی جائے گی اس کا فائدہ اسی مقتدرطبقے کو ہوگا۔ اور یہ ٹولہ ہے کیسا؟ اس میں ہر طرح کے لوگ شامل ہیں ملا سے لے کر سردارو نواب تک اور قوم پرستوں سے لے کر خواتین تک۔

اور جب تک یہ طبقہ اقتدار میں رہے گا اور اس کی معاونت پڑھے لکھے نوجوان بیورو کریٹ کرتے رہیں گے تب تک بلوچستان سماجی و معاشی حوالے سے نہیں بدلے گا کیوں کہ حالات جیسے ہیں انہیں اسی طرح رکھنا غریب عوام کے سوا ہر کسی کے مفاد میں ہے۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ اگرصوبے میں سماجی و معاشی تبدیلی کے تمام راستے بند کئے جائیں گے اور لوگوں کے ذہنوں کو زنگ لگے گا تواس وقت کا منظر کیسا ہوگا؟ جواب آسان ہے۔ اس وقت کا منظر بالکل ویسا ہی ہوگا جیسا آج ہےیعنی صوبے میں اس بات پر غوروحوض کیا جائے گا کہ ڈاکٹر مالک اور ثنااللہ زہری میں میں سے کون وزیراعلیٰ ہواور لوگوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں۔

ملک سراج اکبر واشنگٹن ڈی سی میں مقیم صحافی ہیں

2 Comments