ارشد نذیر
وزیرِخزانہ اسحاق ڈار اس بات پر اتراتے پھر رہے ہیں کہ ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں اور ملک معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ جہاں تک زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا تعلق ہے تو4 ستمبر کو ورلڈبنک سے 50 کروڑ ڈالر اور ایشیائی ترقیاتی بنک سے 40 کروڑ ڈالر کے قرضے لئے گئے جن میں 27 کروڑ ڈالر قرض کی قسط کے طور پر ادا کر دیئے گئے۔کہا جا رہا ہے کہ اب یہ ذخائر 20 ارب 45کروڑ ڈالر تک کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ ان ذخائر کے اضافے کا قصہ جو سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اسلام آباد میں ایک سیمینار کے دوران بیان کیا ذرا سن لیجئے ۔ اس نے کہا کہ ملک کا موجود ہ بیرونی قرضہ جو کہ 65 ارب ڈالر ہے 2018-19 تک بڑھ کر 90 ارب ڈالر ہو جائے گا۔ حکومت کو ہر سال 20 ارب ڈالر بطور سود کی قسط ادا کرنا ہوگی۔ یعنی آنے والے تین برس میں یہ اضافہ 38% ہو گا۔
سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بیرنی قرضے رواں سال کی تیسری سہ ماہی میں 66490 ملین ڈالر کی بلند ترین سطح تک پہنچ گئے ہیں۔اندرونی قرضے 12 ٹریلن تک ہیں۔ اس طرح یہ قرضے مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے 64.4% بنتے ہیں۔ خود لبر ل اور بوژوا معیشت دانوں کے مطابق قرضوں اور مجموعی قومی پیداوار کے درمیان تناسب کو 30% تک مثالی قرار دیا جاتا ہے۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ حکومت میں شامل یہ لٹیرے اس معاشی صورتحال سے بے خبر اپنے تجوریاں بھرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ گردن تک قرضوں میں ڈوبے ملک کا سیاسی ڈھانچے یہاں کی اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ بس اشرافیہ کا ایک چھوٹا سا طبقہ ملک میں لوٹ مار پر لگا ہواہے۔ معاشی بہتری کی تمام تر پالیساں صرف انہی کے مفادات کی غماز ہیں۔
ملک کی حقیقی شرحِ نمو صرف 3% یا اس سے بھی کم ہے ۔ اس شرحِ نمو کے ساتھ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی کوئی امید کی جا سکتی ہے اور نہ ہی روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ حکومت کے جاری کردہ چند بڑے منصوبوں میں بڑے ٹھیکیدار اور اشرافیہ کا چھوٹا سا طبقہ نوازا جا رہا ہے ۔ اگر ان منصوبوں کا ملک میں موجود تعلیم ، صحت ، نکاسی آب اور پینے کے صاف پانی کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو اول الذکر منصوبے یقیناًاولین ترجیح کے حامل ہیں ۔ لیکن ہمارے ہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ان حکمرانوں کی ترقی کی تعریف میں تعلیم ، صحت اور پینے کا صاف پانی جیسے منصوبے شامل ہی نہیں ہوتے۔
ورلڈ بنک ، ایشیائی ترقیاتی بنک اور آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اداروں کے قرض انہی کی شرائط پرحاصل کئے جاتے ہیں۔ پھر ملک میں ڈاؤن سائزنگ، رائٹ سائزنگ ، پرائیویٹائزیشن اور ٹیرف کو یکساں بنیادوں پر لانے جیسی پالیساں متعارف کرائی جاتی ہیں۔قرض دینے والے اداروں کو ملک کی عوام اور بالخصوص غریب عوام کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ ان کا ہدف صرف قرض کی اقساط کی بروقت اور بمعہ سود واپسی ہوتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو بھی اسی تناظر میں ہی دیکھا جانا چاہئے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت کے پاس معیشت کا جو لگا بندھا فارمولا ہے وہ قومی اداروں کی نج کاری ، مستقل ملازمتوں کا خاتمہ ، ٹھیکیداری نظام ، ملازمت کے اوقاتِ کار کو طول دینا اور حقیقی اجرتوں میں کمی کرنا ہے۔سرمایہ داری جس موجودہ نہج پر پہنچ چکی ہے وہاں یہ اہداف محنت کشوں ، مزدوروں ، کسانوں اور غریبوں کو بے روزگار کرکے، ان کی اجرتوں میں کٹوتیاں کرکے ہی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ملازمین اور محنت کشوں کی تنظیم سازی کی آزادیوں کو ختم کیا جائے ۔
لہٰذا ٹریڈ یونینز پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں ۔ نج کاری ، ٹھیکیداری اور کٹوتیوں جیسی پالیسیوں کی موجودگی میں ٹریڈ یونینز کا کلچر ختم ہو جاتا ہے۔ جن اداروں میں ٹریڈ یونینز کی اجازت ہے وہاں یا تو مالکان نے اپنی پاکٹ یونیز قائم کرکے مزدوروں کے استحصال کاطریقہ نکالا ہوا ہے یا پھر ٹریڈ یونیز کی قیادتوں کو اکثر ملازمتوں سے برطرفی جیسے جبر کا سامنا رہتاہے۔ لیبر قوانین ، سوشل سکیورٹی اور سیفٹی قوانین کا اطلاق کسی بھی فیکٹری میں نہیں ہو رہا۔ لیبر ڈیپارٹمنٹ کی موجودگی کے باوجود ملک میں مزدوروں کے حوالے سے کوئی اعداد و شمار تک موجود نہیں ہیں۔ خواتین مزدوروں کا بھی استحصال بھی ہو رہا ہے اور چائلڈ لیبر بھی نہ صرف جوں کی توں موجود ہے بلکہ انتہائی سفاکانہ طریقے سے پھل پھول رہی ہے۔
حکومت یا تو سرمایہ دار کو مراعات دے کر اس نظام کو چلا سکتی ہے یا پھر ٹریڈ یونینز کے ذریعے محنت کشوں ، مزدوروں ، چھوٹے کاشتکارو ں اور کسانوں کی فلاح کو اپنا ہدف بنا سکتی ہے۔ دونوں کا بیک وقت حصول ممکن ہی نہیں ہے۔اب بھی کچھ اداروں میں یونینز کام کر رہی ہیں لیکن ایسی پالیسیوں کی روشنی میں یونینز کے اوپر بے روزگار کئے جانے کی تلوار سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ آئینِ پاکستان میں بیان کردہ یونین سازی کا یہ بنیادی انسانی حق ایک فریب اور دھوکے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔موجودہ حکومت بھی بڑے اداروں جیسا کہ پاکستان سٹیل ملز، واپڈا، پی آئی اے اور کالجز کو پرائیویٹائز کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ حال ہی میں حکومت نے فیسکو کی پرائیویٹائزیشن کے لئے اخباروں میں اشتہارات بھی دے دیئے ہیں۔
آج بھی ملک کی% 90 سے زیادہ معیشت کالے دھن پر کھڑی ہے۔کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے اُٹھائے گئے اقدامات سے اب تک کوئی خاطر خواہ وصولی ہوئی ہے اور نہ ہی کرپشن محکموں کے اندر سے ختم ہوئی ہے۔ البتہ کرپشن سے پاک معاشرے کے قیام کا شور و واویلا ضرور مچایا جا رہا ہے۔ سیاستدانوں کے درمیان بھی احتساب کے اس عمل پر اختلافات موجود ہیں۔ پی پی پی کا کہنا ہے کہ کرپشن صرف سندھ کا مسئلہ نہیں ہے ۔ یہ تو پورے ملک کا مسئلہ ہے ۔ پھر کرپشن اور بد عنوانی کے حوالے سے صرف سندھ ہی کو نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے۔
اس طرح ریاستی اداروں کے درمیان بھی کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں۔ پی پی پی کی طرف سے جنرلوں اور سول بیوروکریٹس کی کرپشن پر غیر جانبدارانہ احتساب کی بات کی جاتی ہے۔ ایک طرف تو پی پی پی کے اس موقف سے ان کی اپنی کمزوری ، بددلی اور بے بسی چھلک رہی ہے کیونکہ پی پی پی نہ چاہتے ہوئے بھی ملکی خاکی بیوروکریسی کے دباؤ میں رہی ہے اور آج تک چلی آرہی ہے ۔ دوسرا کرپشن کے الزام دوسروں پر لگا کر خود کو کرپشن کے عمل سے مبرا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حقیقت تو یہی ہے کہ پی پی پی کے پچھلے دور میں سرکردہ افراد نے ہمیشہ کی طرح کرپشن کی ہے۔لیکن وفاقی حکومت سندھ میں جس طرح کرپشن کارڈ کھیل رہی ہے ۔ یہ غیر متعصب اور غیر جانبدارانہ احتسابی عمل کو مشکوک کرتا ہے۔
ایسے حالات میں پی پی پی بھی نواز حکومت کو یہ کہہ کر خوف زدہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ آنے والے دور میں یہ پھندا ان کی گردن میں بھی اسی طرح لٹکایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا احتساب کے اس جاری عمل کو قطعاً غیر جانبدار اور غیر متعصب نہیں کہا جا سکتا۔کون نہیں جانتا کہ نواز لیگ کے سرکردہ افراد جو آج حکومت میں موجود ہیں بھی کرپشن میں دھنسے ہوئے ہیں۔ لہٰذا اس احتسابی عمل کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے ۔ یہ سیاسی کھیل نواز حکومت کے اقتدار کے خاتمے تک اسی طرح چلتا رہے گا۔ جہاں تک نچلی سطح پر کرپشن اور بد عنوانی کا تعلق ہے ۔ وہ آج بھی دھڑلے سے جاری ہیں ۔ غریب آدمی کو کورٹ کچہری ، تھانے اور پٹواری سے آج بھی انصاف نہیں ملتا۔
وائٹ کالر کرائم بد عنوانی کی سب سے گھمبیر اور پیچیدہ شکل ہے جس میں خود یہ اشرافیہ ، خاکی اور سویلین بیوروکریسی اور اقتدار میں بیٹھے لوگوں ان جرائم پیشہ افراد کا دست و بازو بنتے رہے ہیں ۔ ایسے جرائم سے بچنے کے راستے خود قانون کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ عدالتیں بھی انہیں تحفظ فراہم کر دیتی ہیں۔ ایسے لوگ پاک صاف اور پارسا بن کر دوبارہ عوام کے حکمران بن کر اقتدار کے مزے بھی لوٹتے رہتے ہیں۔ اشرافیہ کا یہ سیاسی ناٹک محنت کشوں کی زندگی میں کوئی سہولت پیدا کرتا ہے اور نہ ہی ان کے لئے اشیاء صرف کی ارزانی اور روزگار کے مواقعے پیدا کرتا ہے۔
یو این ڈی پی کے حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 45% خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ یہ تو حکومتی اعداد و شمار ہیں۔ حقیقی صورتحال اس سے کہیں زیادہ گھمبیر ہے۔ ہر سال تیس لاکھ سے زائد نوجوان بے روزگاری کی منڈی میں داخل ہو رہے ہیں۔
انسانی حقوق اور سماجی انصاف کے حوالے سے بھی ملک کی صورتحال بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ خواتین پر تشدد ، ملازمت کی جگہ ہوں، گھر ہو یا بازار خواتین کے ساتھ صنفی امتیاز بھی ہوتا ہے۔ ان کی عصمت پر بھی ہاتھ ڈالے جاتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ بڑے بڑے جنسی سکینڈلز اسی سال میڈیا کی شہ سرخیاں بنتے رہے ہیں۔ غربت ، بے بسی اور بے روزگاری کے ہاتھوں مجبور خواتین کو جنسی بے راہ روی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہی انتہائی غربت جنسی بے راہ روی میں مسلسل اضافے کا سبب ہے۔
حکومت نے حال ہی میں چالیس ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈالا ہے ۔ ایک دفعہ پھر ٹیکسوں کا یہ بوجھ بلواسطہ طور پر عوام پر ڈال دیا جائے گا۔ بڑے سرمایہ دار اور تاجر اس سے بچ جائیں گے۔ ویسے بھی اس مالی سال میں حکومت کی ٹیکس وصولی مقرر کردہ ہدف سے کہیں کم ہے جو اس بات کی غماز ہے کہ حکومت اور ٹیکس چور اشرافیہ ، بڑے سرمایہ داروں اور تاجروں کے درمیان اعتماد کی فضا نہیں ہے۔ حکومت مجبور ہو کر اس سال بھی ٹیکس ایمنیسٹی کا اعلان کرنے جاری ہے۔ جس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ریاست نے اشرافیہ ، بڑے تاجروں اور سرمایہ داروں کے آگے ہمیشہ کی طرح گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔
افراطِ زر مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اشیاء صرف کی قیمتوں میں ایک بار پھر ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے نے مزدوروں ، محنت کشوں اور غریبوں کی زندگی کو مسلسل عذاب بنا دیا ہے ۔حال ہی میں حکومت نے گیس کی قیمتوں میں 38%اضافے کا اعلان کیا ہے جو جنوری 2016 ء سے لاگو ہوگا۔ گیس کی صورتحال یہ ہے کہ ابھی سردیاں شروع ہو ئی ہی ہیں کہ گھریلو صارفین کے لئے بھی گیس کی قلت شروع ہو گئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ گیس کی قلت پوری سردیوں میں جاری رہے گی۔
13 دسمبر 2015 ء کے روزنامہ جنگ میں ایف بی آر اور آئی پی پیز کے اس تنازعہ کو رپورٹ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایف بی آر اور آئی پی پیز کے درمیان ٹیکس وصولیوں پر تنازعہ ہے ۔ ایف بی آر کا کہنا ہے کہ پاور کمپنیاں بجلی کے بلوں سے ٹیکس کی جو کٹوتی کرتی ہیں انہیں باقاعدگی سے ایف بی آر کے پاس جمع نہیں کرایا جا رہا جس کی وجہ سے وہ ملک کی تمام بجلی کی تقسیم کار کی کمپنیوں کے اکاؤنٹس منجمد کردیں گے۔ اس کے برعکس آئی پی پیز کا کہنا ہے کہ فیلڈ دفاتر کیپسٹی پرچیز پرائس پر ان پٹ ٹیکس ایڈجسمنٹ نہیں کرتے۔ بجلی کی تقیسم کار کی کمپنیوں نے بھی اپنے اکاؤنٹس کے منجمند کئے جانے پر تمام ملک کی بجلی بند کر دینے کی دھمکی دے دی ہے۔
اکیسویں صدی میں پاکستان کا 82% طبقہ سائنسی طریقہِ علاج سے محروم ہے ۔ وہ نیم حکیم ، طبیبوں اور غیر تربیت تافتہ افراد سے علاج کروانے کے لئے مجبور ہے۔ حکومت صحت پر آج بھی بجٹ کا 0.5% فیصد خرچ کر رہی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کی صحت اس ریاست کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ جہاں علاج جیسی بنیادی ضرورت ایک منافع بخش کاروبار ہو ، تو وہاں بیماری کے خاتمے کے لئے صحت، صفائی ، نکاسیِ آب اور پینے کے صاف پانی پر توجہ مرکوز ہی نہیں کی جاتی۔
سٹیٹ بنک آف پاکستان نے اپنی 2014-15 کی سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے ملکی معاشی پالیسی پر تنقید کی ہے اور حکومت سے کہا ہے کہ حقیقی معاشی ترقی کے لئے حکومت کو اپنی پالیسیوں کی سمت درست کرنا ہوگی۔ دوسری طرف بنکوں کے منافع جات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک کے نجی بنک اربوں روپے کے منافع جات بٹور رہے ہیں۔ رواں سالی کی دوسری سہ ماہی میں بنکنگ سیکٹر کا منافع 41.2 بلین روپے رہا۔ جو گزشتہ سہ ماہی کا ریکارڈ منافع ہے۔ اس سے صاف طور پر سامنے آجاتا ہے کہ ہماری ملکی معیشت کی تمامتر توجہ اشرافیہ طبقے کی خوشحالی پر مرکوز ہے۔
لیکن یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ کمزور معیشت اپنے اثرات ریاستی ڈھانچہ پر لازماً مرتب کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کی تمام تر کاسمیٹکس تبدیلیوں کے باوجود ملکی ریاستی ڈھانچہ روز بروز گہرے تضادات کا شکار ہو رہا ہے۔ یہی معاشی صورتحال اُن کے باہمی تضادات کو شدید سے شدید تر بھی کرے گی اور آنے والے دنوں میں ان تضادات کے تیز سے تیز تر ہونے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ لبرل اوربورژوا معیشت دانوں اور سماجیات کے ماہرین کا یہ خیال غلط ہے کہ غریب اور محنت کش اس صورتحال میں خاموش تماشائی بنے رہیں گے۔ ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا۔
کیونکہ جب زندہ رہنا موت سے زیادہ کربناک اور تکلیف دہ ہو جائے ، تو غریب اور محنت کش کے دل سے ریاست اور اس کی مشینری کا خوف مٹتا چلا جاتا ہے ۔ اس کے اندر غصہ ، نفرت اور انقلاب کے جذبات پک رہے ہوتے ہیں۔ کوئی واقعہ بھی چنگاری کا کام کرتا ہے ، پھر عوام اسی ریاستی ڈھانچے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
♣