انجمن ترقّی پسند مصنفین پاکستان کا تیسرا کنونشن

خالد محمود

12316472_978947842162742_484022375741074249_nانجمن کے صدر سلیم راز سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سید جعفر احمد کو فیض صاحب کاپورٹریٹ پیش کر رہے ہیں


انجمن ترقّی پسند مصنفین پاکستان کا تیسرا مرکزی کنونشن آرٹ کونسل کراچی میں جناب سحر انصاری کے تعاون سے،۲۸ اور۲۹ نومبر کو منعقد ہوا۔اس میں چاروں صوبوں کی نمائیدگان نے بھرپور شرکت کی۔خیبر پختون خواہ سے پشتو شاعر جناب سلیم راز اور انکے دیگر ساتھی بھی موجود تھے۔پنجاب سے ڈاکٹر سعادت سعید اور عابد حسین عابد کی قیادت میں پنجاب کے مختلف اضلاع سے انجمن کے نمائندوں نے شرکت کی۔

پہلے روز انجمن کا مرکزی الیکشن ہوا جس میں متفقہ طورپر پشاور سے جناب سلیم راز مرکزی صدر،کراچی سے ڈاکٹر سید جعفر احمد مرکزی سیکرٹری جنرل،لاہور سے مقصود خالق جائنٹ سیکرٹری اور راولپنڈی سے یوسف حسن رابطہ سیکرٹری منتخب ہوئے۔گوجرانوالہ سے توصیف احمد خاں،ڈاکٹر غلام عباس،متین کیف اور راقم نے شرکت کی۔

انجمن اپنے آغاز سے ہی زندگی کے سائنٹیفک نقطہ نظرپر نہ صرف یقین رکھتی ہے بلکہ ادب میں صحت منداورعقائد سے بالا بیانیے کی ترویج کے لئے کام کرتی آئی ہے۔بہت سے طالع آزما جو کہ این جی اوز کے نان نفقے پر پل رہے ہیں اور انجمن کے نام کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں اس کنونشن کی وجہ سے ناکام ہوئے ہیں کیونکہ انجمن بنیادی طور پر ان ادیبوں اور شاعروں کی تنظیم ہے جو عقیدوں کی بجائے سائنسی نقطہ نظر پر یقین رکھتے ہیں۔

اس کنونشن میں ’’ ترقی پسند ادب،عصری تقاضے اورمستقبل کے امکانات‘‘ پر ایک اوپن سیشن ہوا جس میں مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پٹرو ڈالر کے زور پر وہابی اسلام کی درآمداور اس کے ریاستی اداروں میں جبرا نفاذ سے ہمارے معاشرے کی نامیاتی ساخت کا تیاپانچا کر دیا گیا۔مذہب کے تزویراتی اور سیاسی استعمال کی بدولت ایک لاکھ سے زائد پاکستانی لقمہ اجل بنا دیے گئے جس میں ہمارے فوجی جوان بھی شامل ہیں۔

اس ضمن میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا کردارعوامی مفاد کے یکسر خلاف ہے۔آج بھی کئی لفافہ بردار کالم لکھنے والے فوج کو سیاسی رول دینے کے حق میں مسلسل عوام کو گمراہ کئے جارہے ہیں۔بجائے اس کے کہ سابقہ فوجی ڈکٹیٹرز کے ادوار میں ریاست اور عوام کو پہنچنے والے دائمی نقصانات کے ازالے کا تقاضا کیا جائے یہ آج بھی تیزی سے بدلتی دنیا میں اہم امورکو عسکری قیادت کے قبضے میں رکھنے پر موشگافیاں فرما رہے ہیں۔

عصر حاضر کے ترقی پسند ادیبوں کا یہ بنیادی فرض بنتا ہے کہ عوام کو گمراہ کن پراپیگینڈا سے باخبر رکھا جائے۔ترقی پسندوں کے راستے میں ہمیشہ خارزاروں کا اہتمام رکھا جاتا ہے اس لئے انہیں خود بھی چوکنّا رہنا ہوگا۔علاوہ ازیں اس میں علاقائی زبانوں کو ان کے جائز مقام نہ ملنے کاجائزہ لیا گیا۔

سب سے اہم گفتگو بلوچستان سے جناب منیر احمد بادینی نے کی جو انگریزی میں تھی۔وفاق کی طرف سے اکائیوں کے ساتھ سوتیلی ماں والے سلوک کا ذکرنہایت دلگداز تھا۔اور اس سے بھی لرزہ خیز یہ بات تھی کہ ہمارے سسٹم میں آج تک کمپنی بہادر اور اس سے قبل حملوں آوروں اور لٹیروں کی تعظیم اور تجلیل کا دائمی بندوبست موجود ہے مگر ہم نے آزادی کے بعد بھی مقامی باشندوں کو مسلسل دیوار سے لگا رکھا ہے اور انہیں انسانیت سے کمتر حالات کا قیدی بنا رکھا ہے۔

پینے کے لئے صاف پانی اور صحت کی بنیادی سہولتیں ملک کے طول و عرض میں مفقود ہیں۔کسی شہریا صوبے کے سماجی جغرافیے اور تاریخ میں من چاہی تبدیلی کی خاطران پرغیر مقامی حکمران اور آبادی مسلط کرنے سے معاملا ت جس طرح مزید پیچیدہ اور گھمبیر ہوئے ہیں اس سے نفرتیں مستقل ہو رہی ہیں ۔

ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں سے مکالمے کی بجائے تشدد کی پالیسی سے مزید تشدد جنم لیتا ہے۔ریاست کا اولین فرض ہے کہ بے گناہ اور ہتھیار نہ اٹھانے والوں لوگوں کو بلاوجہ عقوبت خانوں سے نجات دلائے اور انہیں فورا رہا کیا جائے تاکہ وہ اپنے خاندان میں زندگی بسر کریں۔

جناب احمد سلیم نے چھوٹے صوبوں کے ساتھ ناانصافی کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس موضوع پر اپنی نظموں کا حوالہ بھی دیا۔

Comments are closed.