چھوٹے قد کا بُلند قامت انسان

sibte hasanسبط حسن گیلانی۔ لندن

سنہ1986کا برس تھا۔ بے نظیر کو وطن لوٹے کچھ ہی دن بیتے تھے۔ملک کے طول وعرض میں ایک ایسا ولولہ تھا جیسے بے نظیر کے لوٹنے سے اُمید لوٹ آئی ہو۔جس دن بے نظیر نے جہلم میں خطاب کیا تھا،ہمیں شہر میں داخل ہونے کے لیے چار گھنٹے انتظار کرنا پڑا تھا۔جب واپس لوٹے تو میں جہلم پل پر کھڑا ہو گیا۔ اس دن دریا کا خشک پاٹ انسانوں سے بھر گیا تھا۔ میں نے زندگی میں انسانوں کا اتنا بڑا ہجوم کبھی نہیں دیکھا تھا۔

یہی صورت حال اس دن تھی جب بے نظیر نے راولپنڈی سٹیشن پر تھوڑی دیر رُک کر خطاب کرنا تھا۔ہم سرشام ہی ڈھیری حسن آباد سے پیدل ہی ریلوے سٹیشن روانہ ہوئے۔اس لیے کہ جلدی پہنچنے کا یہی ایک طریقہ تھا۔جب پنڈی صدر پہنچے تو انسانوں کا ایک دریا تھا جو ریلوے سٹیشن کی سمت بہہ رہا تھا۔میں ایک جاننے والے پویس افسر کی مدد سے پلیٹ فارم کی اگلی استقبالی صف تک جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔

جب بے نظیر کی ٹرین سٹیشن میں داخل ہوئی تو وزیر اعظم بے نظیر وزیر اعظم بے نظیر کے نعروں سے سارا شہر گونجنے لگا۔یقیناًان نعروں کی دھمک قریب ہی مقیم اقتدار پر ناجائز قابض ڈکٹیٹر کے کانوں تک پہنچ رہی ہوگی۔اتفاق سے ٹرین کا وہ ڈبہ ہمارے سامنے آ ٹھہرا جس میں بے نظیر سوار تھیں۔وہ جب باہر تشریف لائیں تو سفید لباس میں ملبوس تھیں۔ ان کے دائیں ہاتھ میں انگریزی کا ایک جریدہ تھا۔جسے دیکھ کر میں بے حد متاثر ہوا کہ وہ اتنی مصروفیت میں بھی مطالعے کا وقت نکال لیا کرتی تھیں۔

انہیں ان کی پارٹی کے محافظوں کے حصار میں قریب ہی کھڑے ایک ٹرک تک لایا گیا۔ جسے سٹیج کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ مسلسل تقاریر سے ان کی آواز تھوڑی بیٹھ چکی تھی۔ان کے گلے کے ساتھ ساتھ ان کی اُردو بھی صاف نہیں تھی۔ لیکن اس میں بھی کمال کی کھنک اور ایک عجیب شان تھی۔انہوں نے تقریر شروع کرتے ہی کہا مجھے قاضی سلطان جیسے سیاسی کارکنوں پر فخر ہے۔ایسے لوگ جمہوری تحریکوں کا آثاثہ ہوا کرتے ہیں۔

qazi

بے اختیار میری نگائیں قاضی سلطان محمود کو تلاش کرنے لگیں۔ کہ وہ کون ہے جس پر بے نظیر کو فخر ہے؟۔ جب وہ مجھے کہیں نظر نہ آے تو میں نے ایک صاحب سے پوچھا ۔ بی بی کے ساتھ موجود لوگوں میں قاضی صاحب کون ہیں؟۔ تو انہوں نے ٹرک کے اوپر بائیں سمت اشارہ کرتے ہوے کہا۔وہ بائیں کونے میں ایک صاحب کھڑے ہیں جن کا صرف سربمشکل نظر آرہا تھا۔ وہ قاضی سلطان محمود ہیں۔ یہ میرا ان سے پہلا تعارف تھا۔

انہیں دیکھ کر میرا اس بات پر یقین مزید پختہ ہو گیا۔کہ انسان محض جسمانی قدو قامت کا نام نہیں بلکہ دماغ ہمت ولولے اور کردارکا نام ہے۔ اور وہ اس حقیقت کی چلتی پھرتی ایک تصویر ہی تو تھے۔وہ راولپنڈی کے جوار میں پنڈ ملکاں میں پیدا ہوئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد ایک استاد کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ یہ وہ دؤر تھا جب ایوب آمریت کے پاوں اکھڑ رہے تھے۔ اور شھید بھٹو کی زیر قیادت ایک جمہوری تحریک کا آغاز ہو رہا تھا۔

وہ جمہوری شعور کے حامل ایک لکھے پڑھے انسان تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ باقاعدگی سے بھٹو کے جلسوں میں شریک ہوتے۔ جس کی اطلاع پا کر ان کی سرکاری نوکری ختم کر دی گئی۔یہ ان کی جمہوریت کے لیے پہلی قربانی تھی۔بعد میں غالباًبھٹو صاحب ہی کے کہنے پر انہیں ایک پنج ستارہ ہوٹل میں استقبالیہ کلرک کی نوکری دے دی گئی۔ جب ایشیا کے عظیم لیڈر اور چین کے صدر چواین لائی پاکستان تشریف لاے تو ان کا قیام اسی ہوٹل میں تھا۔

جب بھٹو ہوٹل آئے تو چواین لائی کا ہاتھ پکڑ کر لابی میں لائے اور ان سے کہا ،میں آپ کو اپنی پارٹی کے ایک کارکن سے ملوانا چاہتا ہوں۔ اس طرح چینی صدر نے قاضی سلطان محمود سے ہاتھ ملایا اور ان کی تعریف کی۔ بھٹو لوگوں سے ہمیشہ ان کا تعارف اپنا دوست کہہ کر کرواتے۔ اور اکثر ان سے کہا کرتے میں تمہارا بہت احترام کرتا ہوں۔ بھٹو سے اپنے اسی احترام اور عزت کا رشتہ اس عظیم سیاسی کارکن نے اپنی زندگی کی آخری سانس تک نبھایا۔

ہر مہذب اور جمہوری سوسائٹی میں ایک سیاسی کارکن اس معاشرے میں روح کی طرح ہوتا ہے۔جب تک وہ متحرک رہتا ہے معاشرے زندہ رہتے ہیں۔جہاں سیاسی کارکن اپنے فرائض سے منہ موڑ لیتا ہے وہاں کے معاشرے مردہ ہو جاتے ہیں۔قاضی سلطان محمود بے شک ایک ایسے ہی جمہوری شعور سے مالا مال سیاسی کارکن تھے۔ انہیں اپنی پارٹی کا منشور حفظ تھا۔ ساری زندگی انہوں نے اسے اپنی حرزِ جان بنائے رکھا۔

وہ بہت اچھے مقرر بھی تھے، جلسوں میں انہیں خصوصی دعوت دے کر بُلایا جاتا۔بھٹوکے بعد بے نظیر بھی انہیں بہت عزت دیتی تھیں۔ اورسچ تو یہ ہے کہ اس تعلق کو آصف علی زرداری نے بھی نبھایا۔ضیا کے سیاہ دؤرِ حکومت میں اتنی سکت بھی نہیں تھی کہ دوفٹ گیارہ انچ کے اس کمزور سی جسمانی ساخت کے انسان کو برداشت کر پاتا۔ انہیں دیگر سیاسی قیدیوں کے ساتھ شاہی قلعے کے بدنام زمانہ اور انسانیت سوز عقوبت خانے میں قید رکھا گیا۔

انہوں نے اس ایذا ئے مسلسل کو جس ہمت اور بہادری کیساتھ برداشت کیا۔ وہ ایک الگ کہانی ہے۔جسے جمہوری جدو جہد کی تاریخ میں ایک شاندار باب کی صورت رقم کیا جائے گا۔قاضی سلطان محمود کی موت صرف ان کی پارٹی کا نقصان نہیں بلکہ ہر اس جماعت کا نقصان ہے جو جمہوریت پر ایمان رکھتی ہے ۔چھوٹے سے جسمانی قد کے اس بلند قامت انسان نے جمہوری جدوجہد کی تاریخ میں ایک شاندار مثال قائم کی جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

Comments are closed.