ڈاکٹر پرویز ہود بھائی
میرے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان دونوں میں سے کیا زیادہ خطرناک ہے
۔1۔ امریکی صدر جارج بش کے سر پر سوار دنیا پر امریکی فوجی فوقیت کی دھن یا 2۔ پاکستان جیسے ملک میں مذہبی بنیاد پرستی کا بھیانک عفریت
میں یہاں پر مسئلہ نمبر 2 پر بات کروں گا
ہر معاشرے کے بنیاد پرست اپنی مذہبی کتب کی صرف انہی تفاسیر پر یقین رکھتے ہیں جو ان کے مکاتبِ فکر کے علما نے لکھی ہوں۔ ایسے لوگ خواتین کے حقوق، آبادی میں کمی کے لئے خاندانی منصوبہ بندی، اور زندگی کے معمولات (مثلاً کھانے پینے اور اوڑھنے بچھونے کے آداب) میں شخصی آزادی کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔
معاشرے کے سدھار کے لیے یہ لوگ اپنے مبینہ مشن کی آفاقی منظوری کا دعویٰ تو کرتے ہی ہیں لیکن بدقسمتی سے انہیں مغرب میں مابعد الجدیدیت (پوسٹ ماڈرن ازم) کے حامی مفکرین کی حمایت بھی حاصل ہے جو جدید سائنسی حقائق کو محض ایک معاشرتی اور لسانی تصور گردانتے ہیں ۔ اگر ان بنیاد پرستوں کو نہ روکا گیا تو یہ یقیناً ہمیں صدیوں پیچھے لے جائیں گے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سائنسی انقلاب کے چار سو سال بعد بھی ہم سائنس کو تخریبی قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں ۔ کچھ لوگ شاید یہ سمجھتے ہوں کہ سائنس اور منطق کی چار سو سال کی مسلسل جدوجہد کے بعد ہم عیسائی بنیاد پرستی کے قلعوں کو سر کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ آپ کے مغرب میں تو اس سلسلے میں بے شمار معتبر ہستیاں ہیں: برونو، وائکلف، گیلیلیو اور بہت سے دوسرے جنہوں نے جم کر قرونِ وسطیٰ کی انتہا پسند عیسائیت کا مقابلہ کیا ۔
لہٰذا شاید ہم یہ امید کریں کہ ان کی محنت کے نتیجے میں جو روشن خیالی کی لہر آئی اس میں تمام وہ لوگ بہہ گئے ہوں گے جو عوام کے انجان کے خوف سے فائدہ اٹھا کر انہیں ڈراتے تھے اور جہنم میں خوفناک سزاؤں کی دھمکیاں دیتے تھے ۔ لیکن افسوس کہ جب میں آپ کے ملک (امریکہ) میں دوبارہ آیا اور عیسائیت کا پرچار کرنے والے کچھ ریڈیو سٹیشنز کی نشریات سنیں تو معلوم ہوا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے ۔
آج ‘روحانی خوشی‘ دلانے والے بہت سے لوگ اس کاروبار سے منسلک ہیں جو کمزور دل اور ضعیف الاعتقاد لوگوں کو اپنے چنگل میں پھنسا کر، ان کے موت کے خوف سے فائدہ اٹھا کر انہیں لوٹتے ہیں ۔ یہ لوگ سائنس کے ثابت شدہ نظریات مثلاً حیاتیاتی ارتقاء کو رد کرتے ہیں اور فطرت پر ریسرچ کو ناجائز سمجھ کر اس پر پابندیاں لگانے کے درپے ہیں۔
بہرحال آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ آپ اکیسویں صدی میں رہتے ہیں لیکن ہم اپنے ملک میں ساتویں اور آٹھویں صدی کے بیچ میں پھنسے ہوئے ہیں – کبھی کبھی یوں بھی محسوس ہوتا ہے کہ ہم شاید پندرہویں صدی میں ہیں – یہ بات تو طے ہے کہ ہم نویں صدی اور چودہویں صدی کے درمیانی عرصہ میں نہیں ہیں جب اسلامی معاشرہ اپنی تاریخ کے بہترین دور میں تھا اور علم و دانش میں اپنے عروج پر تھا ۔
یہ وہ وقت تھا جب اسلامی معاشرے نے قدرے آزاد خیالی اور برداشت کے رویوں کی وجہ سے الکندی، ابنِ سینا، الرازی، ابنِ رشد اور ابنِ خلدون جیسے کئی بہترین سائنس دان پیدا کیے ۔ یہ لوگ اس وقت کے طاقتور اور روشن خیال خلفاء، سلاطین، اور سرپرستوں کی وجہ سے مذہبی روایت پسندوں کے ظلم و ستم سے محفوظ رہے ۔ یہ اسی اسلامی فکروفہم کی لہریں تھیں جو یورپ تک پہنچیں اور وہاں پر یورپی نشاة ثانیہ کے آغاز میں مددگار ثابت ہوئیں۔
بدقسمتی سے آج اسلام ایک بالکل مختلف دور سے گزر رہا ہے ۔ پاکستان میں اسلام ملک کا سرکاری مذہب ہے اور ملک کے آئین سے بالاتر ہے ۔ ہمارے ہاں اسلام کو سائنس سمیت تمام علوم اور حکمت کا منبع مانا جاتا ہے ۔ اسلام کا یہ روپ اپنے آپ کو مکمل کہتا ہے اگرچہ اس کی تفصیلات سمجھنا تقریباً ناممکن ہے ۔ یہ ہمیں کھانے پینے، لباس، مردوں اور عورتوں کے تعلقات کے آداب دیتا ہے اور بلا شرکتِ غیرے ملک کے سیاسی اور سماجی رجحانات کا فیصلہ کرتا ہے ۔
پاکستان میں کسی ائرلائن کی کوئی پرواز سپیکر پر دعا کے بغیر نہیں اڑتی ۔ پاکستان کی سب سے بڑی اسلامی عدالت نے سود پر پابندی لگانے کا فیصلہ دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ بینکنگ کا پورا نظام بدلا جائے ۔ حکومت کے لئے اس حکم پر عمل درآمد کروانا ناممکن نظر آرہا ہے ۔ قانونی طور پر خواتین کو وراثت میں مردوں کی نسبت آدھا حصہ ملتا ہے ۔ مزید برآں عدالتوں میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے البتہ ایک آدمی بیک وقت چار تک شادیاں رچا سکتا ہے۔
اس نظام کی حفاظت کے لئے حکومت کے پاس وافر تعداد میں اسلحہ، ٹینک اور اب ایٹمی ہتھیار ہیں – ایسی صورت میں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا میرے ملک اور اس جیسے دوسرے ممالک میں بہتری کی کوئی امید ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم انسانیت کی مسلسل ترقی میں شامل ہوسکیں ۔ میری دانست میں اس کا جواب خاموش تخریب میں ہے ۔ سائنس کی تعلیم کی مدد سے تخریب۔
تخریب سائنس میں فطری طور پر موجود ہے کیونکہ سائنس کی بنیاد منطقی کھوج ہے جو کہ تمام نظریات اور اعتقادات کو ناپسند ہے ۔ خوش قسمتی سے سائنس ایک بہترین اور خوشنما ٹروجن گھوڑے کی طرح ہے (یونانی رزمیہ داستانوں میں یونانیوں نے ٹروجن نامی جنگ لکڑی کا ایک دیو ہیکل گھوڑا بنا کر جیتی تھی جس کے اندر فوجی چھپے ہوئے تھے) جو اپنے ساتھ زندگی کی بہت سی آسائشیں مثلاً کار، ہوائی جہاز، کمپیوٹر، ریفریجریٹر، ادویات، کوکا کولا کی قبیل کے مشروبات اور چوئنگم وغیرہ لاتی ہے – طالبان بھی سیل فون اور بڑی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں (اگرچہ ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پر پابندی ہے اور شاید ایک دن چیوئنگ گم بھی ان پابندیوں کی فہرست میں شامل ہوجائے) ۔
لیکن ان سہولتوں کے ساتھ ساتھ سائنس میں کچھ ایسے جراثیم بھی پائے جاتے ہیں جو آہستہ آہستہ بنیاد پرستی پر مبنی عقائد پر حملہ آور ہوتے ہیں اور انہیں اندر ہی اندر کمزور کرتے ہیں۔
سائنس غیر منطقی عقائد کے لئے کیوں اتنی خطرناک ہے؟ یہ سمجھنے کے لئے کہ ہمیں ماضی میں گیلیلیو کے مقدمے کو دیکھنا ہوگا ۔ جس چیز نے پاپائے روم کو سیخ پا کر دیا وہ کونیات یا طبیعات کے سوالات نہیں تھے ۔پادریوں کو اس بات سے غرض نہیں تھی کہ سورج زمین کے گرد گردش کرتا ہے یا معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ انہیں خطرہ اس بات کا تھا کہ خدا کا کلام جھوٹا ثابت نہ ہوجائے ۔
اگر یہ ثابت ہوجائے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو انجیل غلط ثابت ہوجائے گی گویا اسے لکھنے والا طبیعات کے بنیادی اصولوں سے بھی واقف نہیں ۔اس سے ممکن ہے کہ انجیل کا سارا متن ہی ناقابلِ اعتماد سمجھا جانے لگے اور لوگ اس میں بتائے گئے تمام معجزوں اور کہانیوں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھنے لگیں۔ سائنس جو کہ مسلسل منطقی توجیہات اور ثبوت مانگتی ہے روم کے کلیسا کے لیے حد سے زیادہ پریشانی کا باعث بن سکتی تھی جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی تھی۔
مسلمان چونکہ انجیل کو تحریف شدہ سمجھتے ہیں اس لیے وہ گیلیلیو کی کہانی سے زیادہ متاثر نہیں ہوتے ۔ البتہ پرانے وقتوں کی نسبت آج کل ان میں بجا طور پر زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے ۔ مسلمان قرآن کو حرف بحرف خدا کا لغوی پیغام مانتے ہیں جو کہ آج تک اسی حالت میں ہے جس میں اسے نازل کیا گیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام کے آغاز کے دنوں میں قرآن سینہ بہ سینہ پھیلا چنانچہ اس میں کتابت کی غلطیوں کا امکان نہیں تھا ۔ آج بھی روایتی مسلم معاشرے میں بچہ سب سے پہلے قرآن پڑھنا سیکھتا ہے اور اسے حفظ کرتا ہے ۔ روشن خیال معاشروں میں قران کی پڑھائی کچھ تاخیر سے شروع ہوتی ہے ۔ ہمارے ہاں قرآن کی صحت پر سوال اٹھانا ناممکن ہے اور اسکی سزا موت ہوسکتی ہے۔
قرآن کو حرف بحرف خدا کا کلام سمجھنے والے لوگ جب جدید سائنس کی عظیم کامیابیاں دیکھتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ قرآن کی ان آیات کی نئے سرے سے تشریح کی جائے جو مادی اشیا کے متعلق ہیں مثلاً سورج کا طلوع اور غروب ہونا، شہابیوں کا آسمان پر نظر آنا، بارش اور قحط، زلزلے، رحمِ مادر میں انسانی بچے کی نشوونما وغیرہ ۔ چنانچہ لوگ قرآن کے سائنسی ثبوتوں کا بہت بے چینی سے انتظار کرتے ہیں اور اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں ۔
اس رجحان کا ایک ثبوت مسلم ممالک میں ڈاکٹر مارس بکیل کی کتاب ‘قرآن، انجیل، اور سائنس‘ کی بے انتہا مقبولیت ہے جس کی لاکھوں کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں اور اس کتاب کے کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں – اس کتاب کی مقبولیت کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کیونکہ اس کتاب میں مصنف نے یہ ثابت کیا ہے کہ سائنسی امور کے بیان میں انجیل بعض مقامات پر غلط ہے جبکہ قرآن میں سائنس سے متعلق بیانات درست ہیں۔
اگرچہ اس طرح کی کوششیں قرآن کے لفظی ترجمہ کرنے والے کچھ حضرات کے لیے خوش کن ہوتی ہیں لیکن بہت سے لوگ ایسی کاوشوں کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھتے ۔ خاص طور پر قدامت پرست حلقوں میں سائنس کو غیراسلامی اور ایمان کے لیے خطرناک گردانا جاتا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے دو مختلف قسم کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔
کچھ لوگ تو سائنس اور طبعی علتوں کو سرے سے ہی رد کر دیتے ہیں ۔ ان کی نظر میں علت اور معلول کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں ہے ورنہ کائنات محض ایک میکانکی نظام بن کر رہ جائے گی ۔اسلام آباد سے شائع شدہ کیمیا پڑھانے کی گائیڈ میں پانی کے ہائیڈروجن اور آکسیجن سے مل کر بننے کے نظریے کو پڑھانے سے منع کیا گیا ہے اور اس کے بجائے اساتذہ کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بچوں کو یہ بتائیں کہ آکسیجن اور ہائیڈرجن ملتے ہیں اور پھر اللہ کے امر سے پانی میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح کی منطق آفتوں سے متعلق بھی پیش کی گئی ہے ۔ مثال کے طور پر ‘ایڈز‘ کی بیماری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لوگوں کے غیر اخلاقی اعمال کا نتیجہ ہے اور نہ صرف یہ کہ اس کا علاج ناممکن ہے بلکہ اس کا علاج ڈھونڈنا بھی گناہ ہے ۔ زلزلے بھی ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہی آتے ہیں ۔ مجھے اس امر کا ذاتی تجربہ 1974 میں ہوا جب پاکستان میں ایک شدید زلزلے کہ وجہ سے تقریباً 10000 لوگ جاں بحق ہوئے ۔
میں اپنی یونیورسٹی کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ امدادی کاموں کے لئے ان دور دراز پہاڑی علاقوں میں گیا جو زلزلے کے مرکز پر واقع تھے ۔ وہاں پر ایک اور امدادی ٹیم تبلیغی جماعت کی طرف سے پہنچی جن کے باریش کارکنوں نے ہمارے کام کو بے فائدہ اور فضول کہہ کر اس کا مذاق اڑایا – ان کی دانست میں یہ آفت وہاں کے لوگوں کے گناہوں کا نتیجہ تھی اور وہ وہاں پرنیکی کی تبلیغ کو زلزلے سے بچاؤ کا واحد طریقہ سمجھتے تھے۔
دوسرا حربہ یہ ہے کہ سائنس کو ہی مشرف بہ اسلام کر لیا جائے ۔ ‘مغربی سائنس‘ کے مقابلے میں قدامت پرست لوگوں نے نئی ‘اسلامی سائنس‘ کا اجراء کیا ہے جس میں مابعد جدیدیت کی اصطلاحات کی بھرمار ہے ۔ اس ‘کریشنسٹ سائنس‘ کی مانند جس سے آپ بخوبی واقف ہیں، اسلامی سائنس میں بھی منطق، موجبیت اور ثبوت کی کوئی ضرورت نہیں ۔ ایسی سائنس کے زیادہ تر پیروکار ریٹائرڈ پی ایچ ڈی سائنس دان ہیں جن کی تعلیم تو سائنس میں ہے لیکن جو اب سائنس سے منسلک نہیں رہے ۔
ان کے سینکڑوں پیپرز ‘سائنسی جریدوں‘ میں چھپ چکے ہیں یا اسلام اور سائنس کے بارے میں کانفرنسوں میں پیش کئے گئے ہیں – مثال کے طور پر میرے ایک پرانے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ نے آئن سٹائن کے نظریہِ اضافیت کو قران کی ایک آیت کے ساتھ منسلک کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جنت روشنی کی رفتار سے ایک سینٹٰی میٹر فی سیکنڈ کم کی رفتار سے زمین سے دور جارہی ہے ۔ کچھ اور لوگوں نے کولمب کے قانون کو استعمال کرکے معاشرے میں منافقت کی شرح، جہنم کا درجہِ حرارت اور جنات کے کیمیائی اجزا کا اندازہ لگایا ہے۔
ان دو مثالوں سے بھی زیادہ عام رویہ یہ ہے کہ اسلام کو تمام موجودہ اور مستقبل میں ہونے والی سائنسی دریافتوں کا منبع بتلایا جاتا ہے – حکومت کی سرپرستی میں قومی نشریاتی ادارے اس بات کا پرچار کرتے ہیں کہ قرآن نے چودہ سو سال پہلے ہی تمام سائنسی ایجادات بیان کر دی ہیں ۔ مجھے خدشہ ہے کہ بہت سے لوگ اسے صحیح بھی سمجھتے ہیں جن میں کچھ میری یونیورسٹی کے طلباء بھی شامل ہیں ۔ مبینہ طور پر اگر کوئی شخص ‘صحیح‘ عربی جانتا ہے اور قرآن کی ‘صحیح‘ تشریح کرتا ہے تو وہ قرآن سے بگ بینگ کا نظریہ، بلیک ہول، کوانٹم مکینکس، ڈی این اے، کلوننگ، کا نظریہ (جس میں افراتفری کی حالت سے منظم اشیاء کے ارتقاء کا تجزیہ کیا جاتا ہے) اور نہ جانے کیا کچھ اخذ کرسکتا ہے ۔
اس قسم کی درجنوں کانفرنسیں منعقد ہوچکی ہیں جن کا بنیادی مقصد اسی پیغام کا پرچارکرنا ہے ۔ ان میں سب سے نمایاں وہ کانفرنس ہے جو 1987 میں اسلام آباد میں منعقد ہوئی اور جس کا عنوان تھا ‘قرآنِ کریم اور سنت کے سائنسی معجزات پر کانفرنس‘ – یہ قرآنِ کریم اور سنت کے سائنسی معجزات نامی ادارے نے ترتیب دی تھی اور اسے پاکستان کی حکومت نے 20 لاکھ ڈالر کا سرمایہ فراہم کیا تھا ۔ اس میں دنیا بھر سے دو سو سے زیادہ مسلم مندوبین شامل ہوئے ۔ اب ایسی دوسری کانفرنس منعقد کروانے کی تیاری ہورہی ہے۔
ان سب توجیہات میں مسئلہ یہ ہے کہ کوئی ہمیں یہ نہیں بتلاتا کوانٹم مکینکس، جینیات وغیرہ پہلے غیرمسلموں نے کیوں دریافت کیں – اس کے علاوہ کسی قسم کی کوئی ایسی پیش گوئی نہیں کی جاتی جسے پرکھا جاسکے ۔ اسی طرح اس بات پر کوئی بحث نہیں ہوتی کہ ٹیکنالوجی مثلاً اینٹی بایوٹکس، اسپرین، بھاپ کا انجن، بجلی، ہوائی جہاز اور کمپیوٹر وغٰیرہ مسلمانوں نے کیوں ایجاد نہیں کیے – اس قسم کے سوال اٹھانا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔
ان قدامت پرست اور غیر سائنسی اسلامی تحریکوں کی بڑھتی ہوئی قوت کی وجوہات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ۔ ان کی جڑیں اٹھارویں صدی میں مسلم ممالک پر زبردستی ٹھونسے گئے نوآبادیاتی نظام، مسلمانوں کی مغرب اور خاص طور پر اسرائیل کے ہاتھوں مسلسل ہزیمت، اور بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں مسلم ممالک میں سیکولر حکومتوں کی ناکامی میں ڈھونڈی جاسکتی ہیں ۔ بدقسمتی سے ایسی تحریکیں مسلمانوں کو مزید پستی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔
آنے والی دہائیوں اور صدیوں میں جدید سائنس اور ہر قسم کی سوڈوسائنس کے درمیان مقابلہ شدید تر ہوجائے گا – جیسے جیسے سائنس کی ترقی کی رفتار بڑھے گی ویسے ہی کالج کے تعلیم یافتہ افراد کے لئے بھی سائنس کی پیچیدگی کا سامنا کرنے میں دشواری ہوگی اور وہ مختلف مذاہب کی طرف سے پیش کی گئی سادہ لوح توجیحات اپنانے میں اپنی پناہ ڈھونڈیں گے۔
یہ درست ہے کہ محض سائنس ہی نوعِ انسانی کی تعلیم اور بہتر دنیا کے قیام کے لئے کافی نہیں ہے لیکن سائنس کے بغیر ایسی دنیا کے قیام کی کوئی امید ہی نہیں کی جاسکتی – اگر انسان کی ترقی مقصود ہے تو سائنس کو صرف ایک اوزار کی طرح محض مسائل کے حل کے لیے یا صرف حقائق کو ازبر کرنے کے لیے ہی استعمال نہیں کیا جاسکتا – سائنس کی تعلیم سے لوگوں کے ذہنوں کو وسعت دینا اور انہیں سوچنے کی قابلیت دینا بھی مقصود ہے ۔ میرا خیال ہے کہ مابعد جدیدیت کی سائنس کے بارے میں ہرزہ گوئیوں میں (جسے طبیعات کے ماہر ایلن سوکل نے بہترین انداز میں بے نقاب کیا) اس بات کا بھی ہاتھ ہے کہ ایسے مصنفین کو سکول میں سائنس کس طرح سے پڑھائی گئی تھی ۔
یہ باعثِ صد افسوس ہے کہ جدید معاشرے میں سائنس کی یوں نفی کی جاتی ہے ۔ ابھی تک معروضی حقائق کو جاننے کے لئے سائنس سے بہتر کوئی طریقہ ایجاد نہیں ہوا ۔ کائنات کس طرح وجود میں آئی، ستارے کیوں چمکتے ہیں، آیا دوسرے سیاروں پر بھی کوئی مخلوق آباد ہے، ایٹم کے اندر کی پراسرار دنیا، مالیکیولز کی وہ حیرت انگیز ترتیب جس سے ڈی این اے بنتا ہے اور زندگی پنپتی ہے اور ایسے کئی دوسرے سوالات سائنس کے بغیر حل نہیں ہوسکتے ۔
حقیقت یہ ہے کہ سائنس ہی ہمیں آدمی سے انسان بناتی ہے ۔ سائنس نہ ہوتی تو شاید ہم ابھی تک جنگلوں میں بھٹک رہے ہوتے اور زبانوں کے مختلف ہونے کی وجہ سے اپنے تجربات ایک دوسرے کے ساتھ شیئر نہ کرپاتے۔
یہ مقالہ فروری 2001 میں سان فرانسسکو میں منعقد ہونے والی امریکن ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس کی سالانہ میٹنگ میں پیش کیا گیا۔
انگریزی سے ترجمہ: قدیر قریشی
2 Comments