چند تاریخی غلط فہمیاں

640158-DrMubarakAli-1386018121-806-640x480ڈاکٹر مبارک علی

تاریخ اور تاریخی واقعات کو بیان کرتے وقت مورخ اپنے ذاتی خیالات کے ساتھ ساتھ معاشرے کے رحجانات کی بھی عکاسی کرتا ہے اگر تاریخی واقعات میں کئی اختلاف ہوں یا ان کا بنیادی اخلاقیات سے تصادم ہو تو ایسے موقعوں پر وہ اپنے نقطہ نظر کو صحیح ثابت کرنے کے لئے مختلف تاویلیں پیش کرتا ہے خصوصیت سے مذہبی نقطہ نظر سے لکھی جانے والی تاریخوں میں ایسی دلیلیں اکثر ملتی ہیں۔ جنگ ، لوٹ مار ، قتل عام اور کسی دوسرے ملک پر حملہ کو صحیح ثابت کرنے کے لئے دوردراز دلیلوں کے ذریعہ ان کو حق بجانب قرار دیا جائے۔

معاشرے کی اکثریت اس بات کی خواہش مند ہوتی ہے کہ تاریخ کے نتائج ان کے خواہشات کے مطابق ہوں اس لئے جو مورخ اس قسم کی تاریخیں لکھتے ہیں وہ صرف اس وقت تک مقبول رہتی ہیں جب تک ان سے معاشرے کی ذہنی تسکین ہولیکن حالات کے بدلنے کے بعد ان تاریخوں کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔ ان تاریخوں میں ایک خرابی یہ ہوتی ہے کہ یہ معاشرے کی خواہشات کے مطابق واقعات کو پیش کرتے ہوئے تاریخ میں بہت سی غلط فہمیاں اور مفروضے پیدا کردیتی ہیں او ریہ غلط فہمیاں معاشرے میں اسی طرح سے پیوستہ ہو جاتی ہیں کہ اصل حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جاتا ہے۔

ہندوستان میں مسلمانوں کے عہد کی تاریخ اس المیہ سے دو چار ہے۔ ان تاریخی غلط فہمیوں کی وجہ سے پوری تاریخ کی تعبیر وتفسیر متاثر ہوتی ہے وقت کی تبدیلی، تاریخی مواد کی نئی دریافت نئی تحقیق اور نئے مسودوں کی اشاعت کے باوجود یہ تاریخی غلط فہمیاں اسی طرح موجود ہیں۔ یہاں ان چند تاریخی غلط فہمیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو ہماری تاریخ میں عام ہیں۔

کیا ہندوؤں کو مسلمان کیا جاسکتا ہے؟
ہمارے ہاں اکثر لوگ یہ کہا کرتے ہیں کہ برصغیر ہندوستان وپاکستان میں مسلمان اس وقت جن حالات اور مسائل سے دوچارہیں یہ حالات پیدا نہیں ہوتے اگر ہندوستان کے مسلمان حکمران بروزتلوار یا دوسرے ذرائع سے انہیں مسلمان کرلیتے۔ اس سلسلہ میں ایک مورخ نے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح سے کیا ہے۔

’’ایسی حالت اور اس ذہنی تشکک وانتشار کے زمانے میں اگر مسلمان ذرا بھی تبلیغ اسلام کی طرف متوجہ ہوتے اور ہندوستان والوں کو اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کرتے تو صرف چند سال میں تمام ہندوستان کادائرہ اسلام میں داخل ہوجانا معمولی بات تھی لیکن مسلمان فرماں رواؤں نے اپنی مذہبی رواداری کو اس سختی کے ساتھ استعمال کیا کہ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ہندوؤں کے مذہب کو باقی رکھنا اور ہندوؤں کو اسلام میں داخل ہونے سے روکنا اپنے مقاصد میں داخل کرلیا تھا۔ ورنہ آج ہندوستان میں ایک ہی مذہب یعنی اسلام ہوتا۔‘‘( اکبر شاہ خاں نجیب آبادی، آئینہ حقیقت نما، کراچی 1958ء،ص91 )۔

اس رائے کے بعد ذہن میں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں: کیا بزور تلوار یا طاقت وقوت کے پوری آبادی کا مذہب تبدیل کرایا جاسکتا تھا۔ مسلمان حکمران لوگوں کو مسلمان کرنا چاہتے تھے بھی یا نہیں؟ کیا مسلمان حکمرانوں او رمبلغین نے اسلام کو پھیلانے کی کوشش کی اور اس میں انہیں کامیابی نہیں ہوئی یا انہوں نے اپنے مفادات کے تحت اس قسم کی کوئی کوشش ہی نہیں کی؟ اور کیا برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل ہندوستان کی آبادی کو مسلمان کرنے سے حل ہوجاتے؟

ہندوستان کو جن مسلمان حکمرانوں نے فتح کیا ان کے دائرہ عمل میں لوگوں کو مسلمان کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا ان کی فتوحات خالصتاً سیاسی مقاصد کے لئے تھیں یعنی سلطنت کی حدود بڑھانا اور ذرائع آمدنی میں اضافے کرنا۔ اگر مفتوح قوم میں سے کچھ نے اسلام قبول کرلیا تو ان کی ہمت افزائی ضرور کی گئی لیکن انہوں نے اس پالیسی کو اختیار نہیں کیا کہ مفتوحین کو تبلیغ کے ذریعے یا جبر کے ذریعے مسلمان کیا جائے۔ اس عمل میں کئی دقتیں تھیں یہ ناممکن تھا کہ تمام مفتوحہ علاقے کے لوگوں کو جبراً مسلمان بنایا جاتا اور انکار کی صورت میں تمام آبادی کو قتل کردیا جاتا۔

مذہب کی تبدیلی ویسے بھی اچانک نہیں ہوتی اس کے لئے ذہن کو آہستہ آہستہ تیار کرنا پڑتا ہے اپنے آبائی عقائد اور روایات کو ترک کرنے کے اذیت ناک عمل سے گزرنا پڑتا ہے دوسرا مذہب اسی صورت میں اختیار کیا جاتا ہے کہ جب ذہن اس پر تیار ہوکہ اسے اپنے آبائی مذہب کے مقابلے میں نئے مذہب میں زیادہ سکون ملے گا۔ ایسا ضرور ہوا کہ لالچ طمع اور موقع پرستی کی وجہ سے کچھ لوگ مسلمان ہوئے لیکن ان کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ ذہنی طور پر لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لئے ضروری تھا کہ مبلغین اور علماء لوگوں پر اسلام کی برتری ثابت کرتے لیکن جب بھی اس سلسلہ میں ذرا بھی کوششیں ہوئیں تو ہندو مفکرین اور ان کے مذہبی طبقوں نے ہندو مذہب کی برتری ثابت کرکے اسلام کی تبلیغ کو زیادہ نہیں پھیلنے دیا بھگتی تحریک اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ جس نے ہندو معاشرے میں سماجی ومعاشرتی تبدیلیاں لاکر اسلام کی تبلیغ کا مقابلہ کیا۔

اسلام کی برتری کی ثابت کرنے کی دوسری صورت یہ تھی کہ اسلام کے مقلدین اپنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرکے لوگوں کو متاثر کرتے لیکن نہ تو حکمران طبقے نے اعلیٰ کردار کا مظاہرہ کیا اور نہ ہی علماء نے۔ مذہبی رواداری کے لحاظ سے علماء نے تنگ نظری اور تعصب کا اظہار کیا مثلاً شاہ ولی اللہ کافروں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:’’کفار‘‘ یہ سخت منکر اور سرکش لوگ ہوتے ہیں ان کی عقلیں درست نہیں ان تک دعوت بھی پہنچ چکی ہے مگر انہوں نے پھر بھی لاالہ الا اللہ سے انکار کردیا۔۔۔ چنانچہ یہ لوگ اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ان پر ہمیشہ ہمیشہ لعنت رہے گی او ریہ لوگ دائمی قیدوبند میں رہیں گے۔‘‘۔(شاہ ولی اللہ، حجتہ اللبالغہ جلد اوّل، کراچی، لاہور 1979ء، ص289)۔

جو لوگ مسلمان ہوئے انہیں نو مسلم ہونے کی حیثیت سے معاشرے میں اعلیٰ سماجی مرتبہ نہیں ملا کیونکہ ہندوستان کے مسلمان معاشرے میں ایران وسط ایشیا اور افغانستان سے آنے والوں کو اعلیٰ او رممتاز مقام ملتا تھا اور مقامی لوگ جو مسلمان ہوئے تو انہیں نچلے درجہ کا مسلمان سمجھا گیا سماجی رشتوں میں شادی بیاہ میں ان کو برابر کا نہیں سمجھا جاتا تھا اور نہ ہی حکومت میں ان کو اعلیٰ عہدے ملتے تھے اس طبقاتی تقسیم اور سوچ نے اسلامی مساوات کے سارے تصور پاش پاش کردئیے۔

حکمرانوں اور علماء کی یہ خواہش ضرور تھی کہ ہندوؤں کا اعلیٰ طبقہ مسلمان ہوجائے کیونکہ اس صورت میں حکومت کے اداروں اور حکمران طبقہ کو زیادہ طاقت ملتی یہ ان کے مفاد میں نہیں تھا کہ ہندوستان کے عوام کو مسلمان کیا جائے وہ فاتح کی حیثیت سے خود میں اور رعایا میں فرق رکھنا چاہتے تھے اس لئے اعلیٰ وادنیٰ طبقوں کا وجود ان کے مفاد میں تھا تاکہ مفتوحین ومحکومین کا طبقہ جو سماجی ومعاشرتی اور معاشی لحاظ سے ان سے کمتر ہو او رجس کی محنت ومشقت اور ذرائع آمدنی سے یہ آرام و آسائش حاصل کرسکیں۔

برہمن اور راجپوتوں کے علاوہ ہندوؤں کی دوسری ذاتیں جو سماجی اعتبار سے نچلی ذاتیں تھیں مسلمان حکمران طبقے انہیں اسی حیثیت سے دیکھتے تھے او ریہ گوارہ کرنے پر تیار نہیں تھے کہ شودرمسلمان کو مسلمان معاشرے میں برابر کا درجہ ملے۔ اس لئے وہ ہندوؤں کی اعلیٰ ذاتوں کو برابر کا سمجھ کر صرف ان کے مذہب کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ اس سلسلہ میں شاہ ولی اللہ کے افکار بڑے اہم ہیں جن سے ہندوستان کے مسلمان حکمران طبقے کی سوچ ظاہر ہوتی ہے۔ وہ دین اسلام کے غلبہ کے لئے مندرجہ ذیل باتیں ضروری سمجھتے ہیں:

۔(1)۔دوسرے مذاہب کے طریقوں پر اپنے مذہب کے شعار اور طریقوں کو غالب کردے تاکہ مذہب اسلام ماننے والے دوسروں سے اعلیٰ وبرتر نظر آئیں۔
۔(2)۔دوسرے مذاہب والوں کو پابند کردیا جائے تاکہ وہ اپنے مذہبی شعار کا کھلم کھلا اظہار واعلان نہ کریں۔
۔(3)۔قصاص ودیت میں مسلمانوں اور کافروں کو برابر کا درجہ نہیں دیا جائے اس طرح شادی بیاہ اور انتظام سلطنت میں کافروں کو مسلمانوں کے برابر درجہ نہ دیا جائے تاکہ یہ پابندیاں انہیں ایمان لانے پر مجبور کریں۔
۔(4)۔لوگوں کو نیکی اوربدی کے ظاہری اعمال کا پابند بنایا جائے۔
۔(5)۔مسلمان حکمران اسلام کو دوسرے مذاہب پر غالب کردے اور کسی کو دین کے غلبہ سے باہر نہ رہنے دے چاہے عزت کے ساتھ یا ذلت کے اس طرح تین جماعتیں بن جائیں گی۔

۔(1)۔ظاہر وباطن میں دین کے حامی
۔(2)۔مجبو رہوکر دین کی اطاعت کرنے والے
۔(3)۔ذلیل کافر جن کا کھیتی کاٹنے اناج پیدا کرنے اور اس قسم کی دوسری مزدوریوں کے کام میں لایا جائے ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے جو بوجھ اٹھانے والے چوپایوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ کافروں پر ذلت کے قانون نافذ کرے اور انہیں مغلوب کرکے ان سے جزیہ لے۔(ایضاً، ص293)۔

شاہ ولی اللہ امت کے طبقات تقسیم کرتے ہوئے کسانوں اور کاشت کاروں کو بچوں اور دیوانوں میں شمار کرتے ہیں اور انہیں ناقص العقل قرار دیتے ہیں وہ ان میں صرف اس قدر ایمان کافی سمجھتے ہیں کہ وہ مسلمانوں سے مشابہت رکھ سکیں۔(ایضاً،ص288 )۔

اس ضمن میں اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ہندو مذہب تبلیغی مذہب نہیں۔ اس کا ارتقاء برصغیر میں ہوا اور یہیں اس کی نشوونما ہوئی اور اس نے اپنی جڑیں اس سر زمین کی گہرائیوں میں پیوست کردیں۔ یہاں تک کہ یہ مذہب محض عقائد کا مجموعہ ہی نہیں رہا بلکہ اس میں ثقافتی وتہذیبی او رتمدنی روایات رچ بس گئیں کہ کسی ہندو کا اس سے باہر نکلنا مشکل تھا تہواروں، رسومات او رمختلف رواجوں نے ان کی زندگی کو اس طرح جکڑ دیا تھا کہ اگر وہ اسے چھوڑ دیتے تو ان کی زندگی میں خلاء ہی رہ جاتا۔ جو جاذبیت، رنگینی، دلکشی اور موسیقیت اس میں تھی، اس کا نعم البدل ان کے لئے او رکوئی نہ تھا۔ انگریز فلسفی ڈیوڈ ہیوم نے کہا ہے کہ جو معاشرے کئی دیوتاؤں اور خداؤں کو مانتے ہیں وہ زیادہ روادار اور قوت برداشت رکھتے ہیں اور دوسرے مذاہب کے دیوتاؤں کو بھی اپنے مذہب میں داخل کرلیتے ہیں۔ اس لئے ہندو مذہب نے ہندوستان میں پیدا ہونے والے دوسرے مذاہب کو خود میں ضم کرلیا۔

ہندو مذہب کا تعلق ہندوستان سے تھا اور اس کا مزاج اسی زمین سے تعلق رکھتا تھا اس لئے ان کے لئے دوسرے مذاہب میں وہ ثقافتی ، دلکشی نہ تھی جو اپنے مذہب میں تھی یہی وجہ تھی کہ اکثریت ہندو رہی اور جو ہندو مسلمان ہو بھی گئے تو وہ ہندو تہذیبی اور ثقافتی روایات اور رسوم سے چھٹکارا نہیں پاسکے اور ان کی سماجی ومعاشرتی زندگی میں یہ تہذیبی قدریں اسی طرح موجود رہیں۔ اسی وجہ سے ہمارے علماء ان مشرکانہ اور ہندوانہ رسومات کے خلاف برابر آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔

اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نہ تو مسلمان حکمران طبقے عام لوگوں کو مسلمان بنانا چاہتے تھے او رنہ ہی ہندو مذہب اتنا کمزور مذہب تھا کہ وہ شکست کھا جاتا اور یہ کہ ایک ہی مذہب میں داخل ہونے سے معاشرے کے مسائل کبھی بھی حل نہیں ہوتے ہیں۔

کیا ہندو حکمرانوں سے جنگیں جہاد تھیں؟
ہندوستان میں مسلمان او رہندو حکمرانوں کے درمیان ہونے والی جنگوں کو ہم عصر مورخین او رجدید مسلمان تاریخ دانوں نے جہاد کہا ہے۔ اسلام میں جہادکا ایک خاص تصور ہے جب تک وہ حالات نہ ہوں کسی بھی جنگ کو جہاد نہیں کہا جاسکتا۔ امیہ او رعباسی خالص سیاسی حکومتیں تھی اور انہوں نے جو بھی فتوحات کیں ان کا مقصد توسیع سلطنت تھا۔ ہندوستان میں محمود غزنوی کی فتوحات خالص سیاسی وثقافتی مقاصد کے لئے تھیں۔ اس نے اپنی جنگوں کا ٹائم ٹیبل موسموں کے لحاظ سے ترتیب دیا تھا مثلاًوہ موسم گرما میں وسط ایشیا کے مسلمان حکمرانوں سے جنگیں کرتا تھا او رموسم سرما میں ہندو حکمرانوں سے جہاد کرتا تھا۔

جب معزالدین غوری کی فتوحات کے نتیجہ میں ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تو سلاطین دہلی نے اپنے وجود کو برقرار رکھنے اور اپنی طاقت واقتدار کو مستحکم رکھنے کے لئے ہندوستان کے حکمرانوں سے مسلسل جنگیں لڑیں۔ اقتدار کی یہ جنگیں صرف مسلمانوں او رہندو حکمرانوں کے درمیان ہی نہیں رہیں بلکہ مسلمان حکمران آپس میں لڑنے لگے اوربعض حالات میں ایک مسلمان حکمران نے ہندو حکمران سے اتحاد کیا تاکہ وہ مخالف مسلمان حکمرانوں سے جنگ کرسکے۔

ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں نے جو جنگیں لڑیں وہ اپنے اقتدار اور سیاسی مقاصد کے لئے تھیں جن کا مقصد توسیع سلطنت او رمال ودولت کا حصول تھا۔ اگر ہم اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر اپنی تاریخ کا تجزیہ کریں تو اس صورت میں تاریخ کو بہتر سمجھ سکیں گے۔

کیا ہندوستان پر انگریزوں نے چالاکی سے قبضہ کیا؟
ہندوستان میں انگریزوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بحیثیت تاجر کے آئے اور اپنی شاطرانہ چالوں دھوکہ و فریب اور چالاکی سے ہندوستان پر قبضہ کرلیا جس معصومانہ انداز میں یہ دلیل دی جاتی ہے اسی سادگی سے اسے صحیح بھی تسلیم کرلیا جاتا ہے اور ذہن تاریخ کی ان پیچیدگیوں میں نہیں الجھتا کہ جس کے نتیجہ میں یہ تغیر وتبدل ہوا اور ایک معاشرے نے دوسرے معاشرے اور ایک تہذیب نے دوسری تہذیب سے شکست کھائی۔ انگریزوں کا ہندوستان پر قبضہ اتنا آسان نہیں تھا کہ محض چالاکی اور دھوکہ سے وہ اقتدار حاصل کرلیتے ہندوستان شکست اور انگریزوں کی کامیابی میں دونوں معاشروں کی ذہنی اور فکری رجحانات تھے۔

جب ہندوستان میں مغل اقتدار روبہ زوال تھا او راپنی عظمت کے بوجھ تلے اس کی کمر ٹوٹ رہی تھی تو اسی وقت یورپ میں ذہنی وفکری تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں۔ جغرافیائی معلومات بحری راستوں کی دریافت، نئی سرزمینوں کی تلاش اور نئی تجارتی منڈیوں کے حصول نے یورپی معاشرے کو دور جاگیرداری سے نکال کر دور سرمایہ داری میں داخل کر دیا گیا۔ تاجر طبقہ اپنی تجارت کو بڑھانے کی خواہش میں نئی سائنسی وفنی ایجادات میں دلچسپی لے رہا تھا جس کی وجہ سے صنعت وحرفت میں انقلابی تبدیلیاں آرہیں تھیں بادشاہ وامراء کے اقتدار میں تاجر طبقہ بھی شریک ہوگیا تھا اور سیاست کا دائرہ وسیع ہوگیا تھا۔

جب کہ اسی وقت ہندوستان میں مغل حکمران کی مرکزی طاقت وقوت کے خاتمہ کے بعد جگہ جگہ خود مختار گورنر او رحکمران وجود میں آرہے تھے۔ قومی بنیادوں پر اٹھنے والی مرہٹہ، سکھ اور جاٹ تحریکیں لوٹ مار اور جنگ وجدل کے ذریعہ سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کررہی تھیں۔ ہندوستانی معاشرے کی تمام صلاحتیں جنگ وجدل اور تحفظ کی تلاش میں صرف ہورہی تھیں ہندوستانی معاشرہ اسی طرح جاگیردارانہ روایات میں مقید یورپ کی فکری تبدیلیوں سے بے خبر تھا جب کہ مغلوں کے عہد سے یورپی سیاح ہندوستان آرہے تھے اور اہل یورپ کو ہندوستان کے بارے میں معلومات فراہم کررہے تھے جو معاشرہ دنیا سے کٹ جاتا ہے وہ تاریخ کی گرفتار کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ ہندوستانی معاشرہ بھی دنیا میں ہونے والی ترقی کی رفتار سے علیحدہ ہوکر پیچھے رہ گیا۔ اس لئے جب انگریز یہاں آئے اور انہوں نے اپنے اقتدار کی راہیں ہموار کیں تو انہیں کوئی دشواری پیش نہیں آئی اور سب سے بڑھ کر یہ بات ہوئی کہ یہ ملک ہندوستانیوں نے فتح کرکے انگریزوں کے حوالے کیا کیونکہ انگریزوں کی فوج میں اکثریت ہندوستانی سپاہیوں کی تھی۔

کیا انگریزوں نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا؟
یہ غلط فہمی بھی بڑی عام ہے کہ انگریزوں نے حکومت و اقتدار اور طاقت مسلمانوں سے چھینی اور ان کی سلطنت پر قابض ہوئے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اورنگ زیب کے بعد سے مسلمان سلطنت تیزی سے زوال پذیر ہوگئی تھی اورجگہ جگہ آزاد اور خود مختار ریاستیں و سلطنتیں وجود میں آگئی تھیں اس دور انتشار میں مرہٹہطاقت انتہائی مضبوط بن کر ابھری اور انہوں نے دکن وشمالی ہندوستان میں اپنا اقتدار قائم کرلیا یہاں تک کہ مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی برائے نام حکمران تھا اور مرہٹہ فوج جنرل پیرون کی سربراہی میں حکومت کررہی تھی جب 1803ء میں لارڈلیک نے دہلی فتح کی تو اس نے مغلوں کو نہیں بلکہ مرہٹوں کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کیا اور مغل بادشاہ مرہٹوں کی قید سے نکل کر انگریزوں کی غلامی میں آگیا۔

Tags:

One Comment