آج سولہ دسمبر ہے ، آج کا دن پاکستانیوں کے لئے بہت غمگین ہے ، آرمی پبلک سکول کے ایک سو بتیس بچوں کا خون انکی کتابوں ، بستوں اور سکول کے فرش پر بہا ، ہر ماں جس نے اپنا بچہ کھویا اسی لمحے سے آج تک چین سے کیسے سو سکی ہو گی اس کا اندازہ اس زندہ قوم کو ہے۔
میرا بچپن بہت تنگ دستی میں گزرا ، لیکن میں پھر بھی اپنے بچپن کو آج کے بچوں کے بچپن سے کافی خوش قسمت سمجھتا ہوں ، یہ سب جو ہو رہا ہے ہمارے بچپن میں نہیں تھا ، کیونکہ شاید شدت پسندی کے بیج اس وقت بوۓ جا رہے تھے ، جو اب واقعی میں ایک تن آور درخت بن کر اپنے گھناؤنے سایوں کے ساتھ پاکستانیوں کے لئے ایک کال کوٹھری کا منظر پیش کرتے ہیں جس کو ہم عرف عام میں پاکستانی معاشرہ کہتے ہیں۔
اس سال جنوری سے دسمبر تک دو سو پچیس افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ، چار سو سے زیادہ زخمی ھوۓ لیکن مجال ہے کہ ہمیں بحیثیت انسان زندہ قوم ہونے کی بھڑکیں مارنے پر کوئی پشیمانی ہو ، ہر دھماکے کے بعد ہمارے وزیر مشیر اور فوجی افسران ہسپتالوں کے دورے کرتے ہیں ، دو چار لاکھ لواحقین کی جیب میں ڈالتے ہیں اور ٹی وی پر دہشت گردوں کی کمر توڑ کر اگلے دھماکے تک رفو چکر ہو جاتے ہیں اور دہشت گرد نئی کمر لگوانے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور دکھ تو یہ ہے کہ اس ملک میں اگر کوئی اتفاق سے دودھ لینے نکلے اور بم دھماکے میں مارا جاۓ تو وہ جان بحق ہوتا ہے ، اور اسکے ساتھ وردی میں مرنے والا شہید کہلاتا ہے ، موت سے پہلے کی زندگی اجیرن بنا کر بھی اس ریاست کو چین نہیں ہے ، اسی لئے موت کے بعد بھی امتیازی سلوک برت کر یہ ریاست ہمیں ہماری اوقات نہیں تو اور کیا یاد دلاتی ہے ؟
دنیا میں کئی ملکوں کی مثالیں ایسی ہیں جہاں کے عوام ہم سے زیادہ مشکلیں جھیل چکے ہیں ، انہوں نے ترقی اپنی غلطیوں کو سامنے رکھتے ہوے کی ہے ، اور الجھنوں کو اپنے آپ سے دور رکھا ہے اور ایک ہماری عوام ہے جو خاص مخمصے کا شکار ہے جن کے بڑے بڑے مسائل ختم نبوت اور شیعہ کافر کے نام سے جانے جاتے ہیں ، اپنی حالت پر پشیمانی کی بجاۓ ہم حرم کی پاسبانی کے خواب دیکھتے ہیں ، ہم یہ بھول چکے ہیں کہ ہم انسان ہیں ، ہمیں انسان سے پہلے مسلمان ہونا اچھا لگتا ہے ، اور ہماری نظراتنی صاف ہے کہ ہمیں پاکستان میں رہتے دوسروں کا خون زیادہ دکھائی دیتا ہے۔
یہ کالم لکھتے ساتھ ہی آج کا جنگ اخبار پڑھ رہا ہوں جس میں ایک جھوٹ واضح لکھا ہے ، کہ ہماری قوم اس واقعے کے بعد ایک ہو گئی حالانکہ کل ہی حفیظ سنٹر کے سامنے احمدیوں کے خلاف ایک جلوس نکلا ہے اور جس شخص نے نفرت بھرے الفاظ کاغذپر لکھ کر اپنی دوکان پر چسپاں کیے تھے وہ ہمارے پڑھے لکھے پنجاب کا آئندہ ہیرو بننے سے کچھ زیادہ دور نہیں –
جب ہم بچے تھے تو ہمیں بتایا جاتا تھا کہ بھارت ہمارا دشمن ہے ، کچھ بڑے ھوۓ تو معلوم ہوا کہ امریکا بھی ہمارا دشمن ہے ، پانچ سال پہلے ہمیں پتہ چلا کہ طالبان بھی ہمارے دشمن ہیں۔ ایک بات جو میری سمجھ سے بالا تر ہے وہ یہ کہ یہ جو دشمن ہے بھارت امریکا سے ہوتا ہوا ہماری مسجدوں ، بازاروں اور سکولوں میں کیسے آن پہنچا ؟
اب دشمن کے بچوں کو پڑھانے کا جنون جو ہمارے سر پر سوار ہوا ہے تو سوچتا ہوں کہ یہ ملا عمر ، محسود برادران ، حقانی حضرات ، مولوی فضل الله ، تاشفین ملک اور بہت سے سپوت و دختران ہمارے ہی مدرسوں کے پڑھے ہوے ہیں ، ان کو دیکھ کر تو مجھ لا معرف جیسا بندہ نہ چاہتے ہوے بھی کہنے پر مجبور ہے کہ اگر دشمن کے بچوں کو یہی کچھ پڑھانا ہے تو الله دشمن کو ایسی پڑھائی سے جاھلیت ہی بخش دے تو اچھا رہے گا باقی رہے اپنے بچے تو وہ ہر دھماکے کے بعد قومی نغمے سن کر پھر سے زندہ ہونے والی قوم بن چکے ہیں۔
♣
One Comment