کراچی : کاروبار تشدد

11846546_1613758585541402_5577756574644902982_n

ذوالفقار علی زلفی

لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر حکیم سعید قتل کے الزام تک ہم مہاجروں پر ہمیشہ ظلم ہوا ہے حالانکہ یہ ہم تھے جنہوں نے پاکستان بنایا

وہ 1998 کا اواخر تھا , نوازشریف زمین پر بیٹھ کر ہائی جیکنگ کرنے کے الزام میں خاکی تحویل میں تھے….میرے اردو کے استاد جناب ندیم قریشی المعروف ماسٹر اسلام صاحب لالو کھیت (لیاقت آباد) میں ایک فکری نشست سے خطاب کررہے تھے….

ایم کیو ایم کے جوشیلے کارکنوں سمیت عوام کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جہاں غالباً میں اکلوتا بلوچ تھا….ماسٹر صاحب ایم کیو ایم کی بزرگ کمیٹی کے فعال رکن تھے چونکہ میرے ساتھ ان کے پدرانہ تعلقات تھے سو ان کے گھر اور دل کے دروازے میرے لیے ہمیشہ کھلے رہے….انہی کی وجہ سے لالو کھیت , لیاری کے بعد میرا دوسرا گھر بنا….
لونڈے لپاڑوں کی بدتہذیبی , ادب و فنون کی پرورش , عشق و محبت کے فسانے , آتش و بارود کی نمائش اور محبت و نفرت کی آمیزش بھی میرے مشاہدے میں آئی….

ایک عجیب احساس عدم تحفظ اور احساس محرومی تھی ان تنگ اور تاریک گلیوں میں جہاں آگرہ , بریلی , میرٹھ اور دہلی کی ثقافتیں چھوٹے چھوٹے گھروں میں , چھوٹے چھوٹے مسائل کے ساتھ زندہ رہنے کی تگ و دد کررہی تھیں….

پاکستانی اشرافیہ میں اہم حصہ دار ہونے کے باوجود یہ احساس محرومی میرے کالج کے ذہن سے کچھ بڑھ کر تھا….پھر , نفرت….پختون , پنجابی اور سندھی سے نفرت…..
پنجابی پولیس ہے , سندھی جاگیردار اور پختون قابض اس لیے یہ ناقابل اعتبار ہیںماسٹر اسلام کی بڑی بیٹی اور میری آپا نے ایک دن مجھے کچھ یوں سمجھایا….”اور بلوچ؟میں مشکوک تھا…”وہ میرا پیارا بھائی ہےانہوں نے مسکرا کر کہا….

رفتہ رفتہ مسلسل آمدورفت و میل ملاپ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا مہاجروں کا محنت کش طبقہ ایم کیو ایم کی عسکری قوت کو شہر میں اپنی دفاعی لائن سمجھتی ہے اور ایسا سمجھنے کیلئے اسے مواد بھی ایم کیو ایم ہی فراہم کرتی ہے…..لسانی فسادات ایک باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے تحت کرائے جاتے ہیں , ایک خوف اور نفسیاتی الجھن کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے پھر اس کے حل کیلئے کراچی کے ایک حصے پر ایم کیو ایم , دوسرے پر پیپلز پارٹی اور تیسرے پر اے این پی خود کو پیش کرتی ہے….

لیاری کی پیپلز امن کمیٹی ان دنوں نہیں تھی اس لیے بلوچ دشمن بھی نہ تھا….جب عبدالرحمن بلوچ المعروف رحمن ڈکیت , بلوچ احساس محرومی کا رابن ہڈ بن کر سامنے آیا تو صورتحال بدل گئی….رحمن بلوچ نے الطاف حسین کا ہی طریقہ استعمال کیا بس تڑکہ کچھ زیادہ ہی لگ گیا , انہوں نے کراچی میں بلوچوں کی پسماندگی کا ذمہ دار مہاجروں کو ٹھہرایا اور ان کیخلاف نفرتوں کو ہوا دی…..پیپلز پارٹی کو ریس کا گھوڑا مل گیا اس گھوڑے کو سدھانے کی ذمہ داری بدین کے جاگیردار ڈاکٹر مرزا کو دی گئی….

خیر رحمن بلوچ اور ڈاکٹر مرزا اب کراچی کی سیاست میں دو مختلف واقعات کے باعث نہیں رہے مگر جو بنیاد انہوں نے فراہم کی اس پر ایک کریہہ عمارت تعمیر ہوچکی ہے….

مہاجر سول و ملٹری بیوروکریسی اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کیلئے ایم کیو ایم پر تکیہ کرتی ہے جبکہ سندھی وڈیرے کراچی کا خون نچوڑنے کیلئے لیاری کے غنڈوں پر دوسری جانب اے این پی نے مختلف مافیاز پال رکھے ہیں….ان سب کے ان داتا وہ جلی و خفی حکمران ہیں جن کیلئے مقتدرہ” , “تیسری قوت” , “پس چلمن حلقےوغیرہ وغیرہ استعمال کیے جاتے ہیں….

اب تحریک انصاف کے رہنما لاکھ بے شرم ہونے کے طعنے دیں , بلوچ قوم پرست ہزار دفعہ اظہار افسوس کریں اور پختون روشن خیال روتے رہیں , بلوچ ووٹ , پی پی کا , مہاجر ایم کیو ایم کا اور پختون منقسم ہی رہے گا….البتہ یہ طے ہے کہ ٹرن آؤٹ ہر سال گرتا ہی رہے گا……

کراچی کا ہر شہری احساس عدم تحفظ کا شکار بنایا گیا ہے , ان کیلئے تمام راستے بند کردیے گئے ہیں….اب اگر میرا عزیز دوست , خاور صدیقی , جس کی نوکری اس کی قابلیت سے زیادہ ایم کیو ایم کی مرہون منت ہے , اسے ووٹ نہ دے تو کس کو دے؟؟؟ خاور صدیقی کے جاننے والے بھی تو اسی امید پر زندہ ہیں….یہی حال لیاری کا ہے اور اسی طرح سوچتا ہے بنارس کا پختون…..

ماسٹر اسلام کی وفات اور پیپلزامن کمیٹی کی منظم مہاجر کشی کے بعد لالو کھیت کبھی نہ جاسکا کیونکہ بقول آپا تم آج بھی بھائی ہو مگر اب ہمارے لیے بلوچ گینگ وار ہے سو مت آنا“…..

پاکستان کے معروف کالم نگار جناب ایاز امیر صاحب فرماتے ہیں کہ رینجرز نے کراچی میں لکیر کھینچ دی ہے , اب ٹی ٹی پستول اور بوری بند لاشوں کا زمانہ گیا…..کراچی کا بیٹا ہونے کی حیثیت سے میں سمجھتا ہوکہ تشدد کا زمانہ نہ کبھی گیا ہے اور نہ ہی جائے گا….تشدد بھی ایک جنس ہے جو فری مارکیٹ اکانومی کے بازار میں زائد منافع کے ساتھ بکتی ہے….یہ کاروبار جاری ہے اور شاید مستقبل قریب میں بھی جاری رہے گا….رینجرز خود اس کاروبار میں ساجھے دار ہے….بلکہ میں سمجھتا ہوں سب سے بڑا سرمایہ ہی وردیکا لگا ہے اس کاروبار پر…..وسیم اختر میئر بنے یا نہ بنے , ایم کیو ایم کی ضرورت مہاجر کو اتنی نہیں ہے جتنا اس پر سرمایہ کاری کرنے والے خفیہسرمایہ داروں کو ہے یہی بات لیاری کی نام نہاد گینگ وار پر بھی صادق آتی ہے…..

سوچتا ہوں , شاید وہ دن پھر آئے جب مہاجر بچوں کی نشست ہو اور ایک بلوچ , پختون یا سندھی بچہ بنا کسی ڈر اور خوف کے ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کی باتیں سنے….لیاری اور لالو کھیت کے درمیان زمینی فاصلہ تو کبھی نہ تھا کاش دلوں کی الجھنیں بھی باہم مشوروں سے دور ہوں…..مگر جانتا ہوں پاکستان کی بدبودار سیاست اور غلیظ ریاستی بیانیہ مستقبل قریب میں ایسا ہونے نہ دے گا……

Tags: , , ,

Comments are closed.