یہ کلچر دنیا کے ایک سرے سے لے دوسرے تک قائم و دائم تھا۔معلوم انسانی تاریخ اس کی گواہ ہے۔ یہ دنیا کے ایک بڑے حصے میں اس وقت ٹوٹا جب عوام نے مُتحد ہو کر اس کے خلاف جدوجہد کی۔جدید جمہوری تاریخ اسی کلچر کے خلاف ایک طویل جدو جہد کی تاریخ ہے۔سچ کی راہ کے عظیم شہید سقراط نے کہا تھا۔فطرتاً ہر انسان خیر کا طالب ہوتا ہے۔مگر جہالت کے سبب شر کو خیر سمجھ بیٹھتا ہے۔اس لیے زندگی میں مسلسل کوشش ہونی چاہیے کہ جہالت کو دور کیا جائے۔تاکہ لوگ خیر اور شر میں تمیز کر سکیں۔
ہم بہت دور کی بات کرتے ہیں نہ ہی صدیوں پرانی تاریخ کے ورق پلٹتے ہیں۔صرف گزشتہ صدی پر نظر دوڑاتے ہیں۔جب بر صغیر میں عوام آزادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پرچم تلے ایک الگ ریاست کی مانگ کی۔مسلم لیگ عوامی جماعت کبھی تھی ہی نہیں۔یہ مسلم اشرافیہ کی نمائندہ جماعت تھی۔جو 1906میں ایک نواب سر سلیم اللہ خان کے گھر تخلیق ہوئی ۔ اس کے کرتا دھرتا سب وڈیرے سردار اور نواب ہی تھے۔
اسے عوامی قائد اعظم محمد علی جناح نے بنایا تھا۔لیکن وہ اسے کبھی بھی جاگیر داروں ۔نوابوں اور سرداروں کے چنگل سے چھڑا نہیں پائے۔ حسین شہید سہروردی جیسے رہنماوں کے چاہنے کے باوجود بھی ایسا نہیں ہو سکا تھا۔ مثلاً ان کے دست راست ابوالہاشم نے مسلم لیگ کا ایک منشور تیار کیا تھا۔جو عوام دوست منشور تھا۔یہ ایک شعوری کوشش تھی مسلم لیگ کو وی آئی پی کلچر سے آزاد کروانے کی۔ لیکن اسے ایک منظم سازش کے تحت ناکام کر دیا گیا۔ابولہاشم کے خلاف پرپیگنڈہ کیا گیا کہ وہ کیمونسٹ اور مذہب مخالف ہیں۔حالانکہ وہ بے چارے ایسے کبھی نہیں تھے۔
اس منشور کے خلاف اس حد تک دھول اڑائی گئی کہ حسین شہید سہروردی جیسے رہنما کو کہنا پڑا ۔ابھی ان بکھیڑوں نہ پڑیں۔اپنی توجہ حصول پاکستان پر رکھیں۔جب پاکستان بن جائے گا تو پھر دیکھا جائے گا۔ پاکستان تو بن گیا لیکن مسلم لیگ کے آنگن میں آج تک وہ سورج نہیں اُترا جس کی روشنی میں اسے صیح معنوں میں عوام دوست جماعت بنانے کا بیڑا ٹھایا جائے۔
دوسری جماعت پی پی پی تھی۔جو پیدا تو ایک عوام دوست منشور کے ساتھ ہوئی تھی۔کم از کم ڈاکٹر مبشر حسن اور جے اے رحیم نے یہی سوچا تھا۔علی جعفر زیدی جیسے روشن خیال صحافیوں نے نصرت جیسے اخبار کے پلیٹ فارم سے جس کے خط و خال ابھارے تھے۔ معراج محمد خان جیسے سیاسی ورکروں نے جس میں جان ڈالنے کی جدوجہد کی۔ لیکن کس طرح ایک منظم مہم کے تحت اس جدوجہد کو ناکام کیا گیا۔وہ طبقہ جس کے ظلم سے عوام کو نجات دلانے کے لیے یہ جماعت وجود میں آئی تھی۔وہ طبقہ دیکھتے ہی دیکھتے اس جماعت کے سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھا۔
جناب علی جعفر زیدی نے حال ہی میں اس دل فگار کہانی کو خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر رقم کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جناب بھٹو شہید کی زندگی میں ہی یہ جماعت اپنے منشور سے بہت ہٹ چکی تھی۔رہی سہی کسر ان کی موت کے بعد پوری ہو گئی۔بے نظیر کے دؤر میں کچھ بھی نہیں تھا۔ بقول صنم بھٹو میری بہن کی صورت میں ایک اُمید زندہ تھی،جو اس کے ساتھ ہی مر گئی۔اب تویہ ڈوبتا ہوا ہاتھی ہے جس کی دم ن لیگ نے پکڑ رکھی ہے۔ تحریک انصاف سے کچھ اُمید بندھی تھی۔جب ہمیں بتایا گیا تھا کہ اس جماعت کی سیاست کا مقصد نوجوان نسل کو سیاست کے میدان میں آگے لانا ہے۔
لیکن جس کشتی کے چپو قریشیوں اور ترینوں کے ہاتھ میں ہوں اور اس کے بیچوں بیچ جماعت اسلامی کا پتھر پڑا ہو۔اس کا دریا پار کر کے کنارے جا لگنے کی اُمید کی جا سکتی ہے۔ مگر بند آنکھوں کے ساتھ۔کراچی میں ایک معصوم بچی کا وی آئی پی کلچر کے بوجھ تلے دم توڑنا کوئی نئی بات نہیں۔ وہ تو ایک معصوم کلی تھی منٹوں میں مرجھا گئی، اس کلچر تلے تو ہم سب کراہ رہے ہیں۔اس شخص کی طرح جو کسی ملبے تلے دبا ہو ۔اس حادثے پر سندھ کے وزیر نثار کھوڑو نے جو کچھ کہا۔اس سے ہمارے دل بھلے دکھے ہوں لیکن سچ یہ ہے کہ کھوڑو نے جو کہا دل سے کہا۔
یہ ایک وزیر کے منھ سے اُگلے ہو لفظ نہیں اس کلاس کا مائنڈ سیٹ ہے۔جو بدلا ہے نہ کبھی بدلے گا۔ہمیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ بلاول آپ کو اتنا عزیز کیوں ہے۔ ہمارا کہنا تو صرف اتنا ہے کہ عوام کی زندگیاں کیا جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔آخر ان کی بھی تو کوئی قیمت ہوتی ہے۔بلاول تو مغربی ممالک میں پلا بڑھا ہے۔ کیا وہ نہیں جانتا کہ ان مہذب ممالک میں اگر کوئی صیح معنوں میں وی وی آئی پی ہوتا ہے تو وہ معصوم بچے ہوتے ہیں۔اس لئے کہ وہ کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔
ہمارے ہاں وہ مستقبل نہ سہی،انہیں حال کی ایک زندہ حقیقت تو سمجھا جائے۔عوام اتنا جان لیں کہ اگر انہیں عزت چاہیے تو کوئی بھی خود سے نہیں کرتا اسے کروانا پڑتا ہے۔بس اپنی عزت کروانے کا ڈھنگ سیکھ لیں۔پوری سندھ حکومت منٹوں میں الرٹ ہو گئی تھی۔ مرحوم نہیں مقتول بچی کے باپ کو بلا کر عزت دی گئی۔ اس لیے کہ انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔انہیں مجبور احتجاج نے کیا تھا۔ احتجاج کرنا سیکھو میرے لوگو۔