خالد تھتھال۔ ناروے
اسلام امن کا مذہب ہے، کوئی مسلمان کسی بے گناہ کا قتل کر ہی نہیں سکتا۔ جس نے ایک انسان کا قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کا قتل کیا۔ یہ وہ چند فقرات ہیں جوپچھلے کچھ عرصے سے بہت تواتر سے سنائی دے رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود 11ستمبر 2001 کے واقعے کا تسلسل رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ ابھی ایک واقعے کی سیاہی خشک نہیں ہوتی کہ دوسرا واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔
برطانیہ میں کیا ہوا۔ سپین میں کیا ہوا۔ فرانس میں چارلی ہیبڈو کے بعد پیرس میں ایک نیا خونیں سانحہ۔ اور پھر برسلز جیسے شہر میں اتوار کی چھٹی کے روز بھی سڑکیں ویران نظر آئیں۔ میٹرو بند ، سکول بند، یونیورسٹییاں بند۔ اور وہ شہر جہاں پولیس مشکل سے نظر آتی ہے وہاں کی سڑکوں پر فوج گشت کر رہی تھی۔ اور مسئلہ بلجیئم پر ہی موقوف نہیں، امریکہ میں بھی ہائی ہائی الرٹ چل رہا ہے۔ لیکن قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔
شائد اس کی وجہ یہ ہو کہ رضوان فاروق اور تاشفین ملک ماڈریٹ مسلمان نہیں تھے، شائد ان کے نزدیک سورة المَائدة کی آیت نمبر بتیس جس میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر ٹھہرایا گیا ہے، اس کا اسلام یا مسلمانوں سے سرے سے تعلق ہی نہیں ہے، بلکہ یہ تو یہودیوں سے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
”اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ “جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی” مگر اُن کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے در پے ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے پھر بھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں“۔
تاشفین ملک نے اپنے امریکی شوہر رضوان فاروق کے ہمراہ سان برنارڈینو کے ایک سینٹر میں فائرنگ کر کے 14 افراد کو ہلاک کر دیا۔ اب وہ دنیا سے چلے گئےاور ہماری اس قسم کی سوچوں یا دعوؤں کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ وہ دونوں شہادت کے بلند مرتبے پر فائز ہوئے یا ناحق موت مرے ہیں؟۔ رضوان فاروق کو ان کے حصے کی بہتّر حوریں ملی ہیں یا کم۔ تاشفین ملک جنت میں بہتّر سوکنوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی رہ رہی ہیں یا ان کیلئے علیحدہ مرد مہیا کیے گئے ہیں؟۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ وہ ہمارے لئے کیا چھوڑ گئے۔
پاکستان میں رہنے والے دوست ہمیشہ کی طرح ایسے واقعات کو یہودی سازش کہہ کر رد کر سکتے ہیں، یا ان کو فلسطین، عراق، افغانستان اور شام سے جوڑ کرجیسی کرنی ویسی بھرنی کہہ کر دفاع کر سکتے ہیں ۔ لیکن وہ جو مغربی ممالک میں رہ رہے ہیں اور یہ مغربی ممالک جن کی اگلی نسلوں کا وطن ہے۔ اور ان وقتوں میں جو کچھ بویا جا رہا ہے جس کا پھل موجودہ اور اگلی نسلوں کو کاٹنا ہے۔ وہ کب تک اسلامو فوبیا اور نسل پرستی کے الزامات جیسے نازک ہتھیاروں سے اپنا دفاع کر پائیں گے۔
یہاں تو پہلے ہی مسلمانوں کو تلاش روزگار، رہائش اور روزمرہ کی زندگی میں مسائل کا سامنا ہے۔ تو آنے والا کل ہمارے لیے کونسی بری خبریں اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کو تو اوریا مقبول جان اور زید حامد کی خدمات بھی میسر نہیں ہیں۔ ہمیں اکیلے ہی میزبان معاشرے کے سوالوں کے جواب دینا ہیں، ناپسندیدہ نظروں کے علاوہ کسی پُرتشدد واقعے کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
نفرت کے چھوٹے موٹے واقعات تو اب عام ہوتے جا رہے ہیں۔ چند دن پہلے برطانیہ کے شہر برسٹل میں ایک مسلمان مرد کو بس سے اس لیے اتار دیا گیا کہ دوسرے مسافروں کی اس کی بس میں موجودگی ناگوار گزر رہی تھی۔ ایک بس میں سوار خاتون کو دو مسافروں نے سر پر ڈنڈا مار کر بس سے نیچے دھکیل دیا۔ ناروے کے شہر اوسلو میں بھی ایک حجابی عورت کے ساتھ ٹرام میں خاصی بدتمیزی ہوئی۔ آوازے کسنا تو عام سی بات ہوتی جا رہی ہے۔ سیاسی منظر نامہ بھی کچھ اچھی تصویر نہیں دکھا رہا۔
ناروے میں تارکین وطن مخالف جماعت فریم سکریت پارٹی (پراگرس پارٹی) جو پچھلے کچھ عرصہ سے اپنی مقبولیت کھو رہی تھی، وہ عوامی مقبولیت کے حوالے سے گیلپ سروے کے مطابق پندرہ اعشاریہ چھ فیصد کی سطح پر آن پہنچی ہے جو 2013 کے پارلیمانی انتخاب کے مقابلے چھ اعشاریہ ایک فیصد اضافہ ہے۔
سنہ 2014 میں سات یورپی ممالک میں مقامی باشندوں میں مسلمانوں کے خلاف منفی جذبات کے حوالے سے ایک تحقیق کی گئی۔ جس کے مطابق یونان اور اٹلی کی آبادی کا نصف حصہ مسلمانوں کے خلاف منفی جذبات رکھتا ہے۔ فرانس ایک واحد ملک تھا جہاں مسلمانوں کےخلاف اٹھائیس فیصد لوگوں کی رائے منفی تھی۔ جو چارلی ہیبڈو کے واقعے کے بعد بڑھ کر ساٹھ فیصد ہو گئی اور 13 نومبر کے موجودہ واقعہ کے بعد جو مسلمانوں کے متعلق جذبات پائے جا رہے ہیں اس کیلئے فرانس کے مقامی انتخاب کے نتائج دیکھ لینا ہی کافی ہے جن میں نیشنل فرنٹ نامی نسل پرست اور مسلمان مخالف جماعت بہت آگے آئی ہے۔ بلکہ ان انتخابی نتائج کی وجہ سے نیشنل فرنٹ کو امید ہو چلی ہے کہ سنہ 2017 کے صدارتی انتخابات بھی جیت سکتے ہیں۔
مستقبل میں کسی حادثے سے بچنے کیلئے پیرس میں کی جانے والی احتیاطی تدابیر کے تحت پیرس کے چارلس ڈیگال ایئر پورٹ پر 86000 ملازمین کے شناختی کارڈ کی دوبارہ چھان بین کی جا رہی ہے کیونکہ ایک رپورٹ کے مطابق ان میں 57 ملازمین ایسے ہیں جو پہلے سے ہی دہشت گردی کے حوالے سے زیر نگرانی تھے اس کے باوجود ملازمت کی وجہ سے ان کو جہازوں تک رسائی میسر ہے ۔
اس سلسلہ میں پیرس کے ایرپورٹ پر برطانیہ کی ایزی جیٹ نامی کمپنی کے جہاز پر پینٹ سے اللہ اکبر کی گریفیٹی پائے جانے کی خبر بھی خاصی دلچسپ ہے۔ ملازمین کی چھان بین بظاہر ایک عام سی خبر ہے لیکن اس کے پس پردہ یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ مستقبل میں ایرپورٹس پر مسلمانوں کے ملازمت کے دروازےتقریباً بند ہوگئے ہیں۔
بلجیئم میں بھی بھی کئی ایسے ورکرز سے سیکیورٹی بیجز واپس لے لیے گئے ہیں جو ایرپورٹس پر کام کرتے ہیں اور ان کا ان جہادیوں کے ساتھ تعلق پایا گیا ہے جو داعش کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کیلئے شام گئے ہوئے ہیں۔ ایرپورٹس پر کام کرنے والوں کے علاوہ بسوں، ٹرینوں اور میٹرو کے محکمے میں کام کرنے والوں کی بھی نگرانی سخت کی جا ری ہے کیونکہ پیرس کے تھیٹر میں خود کش دھماکہ کرنے والا بھی بس ڈرائیور کی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا جب کہ وہ بھی دہشت گردی کے سلسلہ میں واچ لسٹ میں تھا۔
برطانیہ کے اخبار ڈیلی میل کی 4 دسمبر کی اشاعت کے مطابق سکاٹ لینڈ یارڈ کے مطابق پیرس کے واقعہ کے بعد مسلمانوں سے نفرت پر مبنی حملوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ درجنوں راہ گزرتے مسلمان اپنے مذہب کی وجہ سے ہراساں کیے گئے ہیں۔ فنز بری پارک مسجد کو جلانے کی ناکام کوشش ہوچکی ہے۔
پیرس حملوں اور مہاجرین کے بحران کے بعد سے کاونٹر جہاد نامی تحریک برطانیہ میں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔
انگلش ڈیفنس لیگ جو کافی حد تک ختم ہو چکی تھی۔ اب اس کا سابقہ راہنما ٹومی رابنسن کے فرضی نام سے پیگیدا کی برطانوی شاخ کے تحت واپس میدان میں اتر رہا ہے۔ نسل پرستی کے مخالف تنظیم ہوپ ناٹ ھیٹ( نفرت نہیں امید) کے بقول 22 ملکوں میں مسلمانوں سے نفرت کرنے والی تنظیمیں جو کبھی چند افراد پر مشتمل ہوا کرتی تھیں اب وہ عام سیاسی دھارے کا حصہ بن رہی ہیں۔ برطانیہ کی دوسری ایسی تنظیم بریٹن فرسٹ ہے جس کی فیس بک پر لائکس گیارہ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ اور یہی حال اس کا ٹوئٹر پر ہے۔
امریکہ میں چوبیس اور اسٹریلیا میں بارہ مسلمان مخالف ٓگروپس کام کر رہے ہیں۔ امریکہ میں ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کے امریکہ داخلے پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹرمپ انتخاب جیتے یا نہ جیتے، اسے لاکھ جوکر کہہ کر رد کیا جائے لیکن اس کا یہ بیان امریکی عوام کے ایک حصے کی سوچوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
آج کے وقتوں میں مغربی ممالک میں موجود ماڈریٹ مسلمانوں کی بہت شدت سے یاد آ رہی ہے اور حیرت ہو رہی ہے کہ وہ اس قدر چپ کیوں ہیں۔ کیا یہ ان کا فرض نہیں کہ وہ ثابت کر دیں کہ دہشت گردوں کی کامیاب کاروائی پر وہ دل ہی دل میں خوش نہیں ہوتے بلکہ ان کے نزدیک چند شدت پسندوں نےان کا مذہب یرغمال بنایا ہوا ہے۔
آج ماڈریٹ مسلمانوں کو تاریخ نے ایک نادر موقع مہیا کیا ہے کہ وہ دنیا کے سامنے اپنے تمام دعوے سچے ثابت کر سکیں۔ جس کیلئے انہیں آگے بڑھ کر ایک تحریک کا آغاز اور قیادت کرنا ہو گی، اور اسی شدت اور جوش سے اپنے بھائی بندوں کی حرکات سے لاتعلقی کا اظہار کرنا ہو گا جیسے انہوں نے سلمان رشدی کی شیطانی آیات، انوسینس آف مسلمز نامی فلم اور ڈنمارک میں رسول اللہ کے بنائے گئے کارٹونز کے سلسلے میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔
انہیں اسی جذبے سے باہر نکلنا ہو گا اور دنیا پر ثابت کرنا ہو گا کہ ہم پر امن انسانی معاشرے میں رہنے کے حقدار ہیں۔ اور اسلام کا امن کا دین ہونے کا ہمارا دعویٰ مبنی بر حق ہے۔ آج ہر ملک، ہر شہر میں جہاں مسلمان آباد ہیں، ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ امن ریلیوں کا انعقاد کریں، نفرت کے سوداگر مولویوں اور مسجدوں کا محاسبہ کریں۔ جہاں کہیں مقامی معاشرے سے نفرت کا سبق دیا جا رہا ہے، اس کو روکیں۔
لیکن اگر وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ وقت گزر جائے گا، اور سب کچھ خود بخود ہی ٹھیک ہو جائے گا، لہذا انہیں ہاتھ پاؤں مارنے کی ضرورت نہیں تو جو نقصان ہو جائے گا۔ اس کا ازالہ اسلامو فوبیا کے الزام سے نہیں ہو پائے گا۔ ویسے ماڈریٹ مسلمانوں کے رویوں کے حوالے سے مجھے اپنے گاؤں کے بڑے بوڑھوں کی بات یاد آ گئی جن کے بقول جب بھیڑیا کسی گدھی پر حملہ کیلئے آگے بڑھتا ہے تو گدھی آنکھوں پر اپنے کان پھینک دیتی ہے کیونکہ اسے آس ہوتی ہے کہ جیسے مجھے بھیڑیا اب نظر نہیں آ رہا اسی طرح میں بھی بھیڑیئے کو نظر نہیں آ رہی۔
♣