دوستین بلوچ ، چیف ایڈیٹر ماہنامہ سنگر
بلوچستان کے اس خون آشام فضانے سنگت محراب کوزندہ رہنے کی مہلت نہیں دی اور وہ پاکستان بردار بلوچ کش بندوق کی گولی سے لینن ازم و مارکسزم کی عظیم تعلیمات کے فکر فلسفے کو لئے ہمیشہ کیلئے ہم سے رخصت ہوگیا مگر ہمیں یہ درس دے گیا کہ مارکس ولینن ازم سے پاکستان سے جنگ ممکن نہیں البتہ یہ تعلیمات آزاد بلوچستان میں کارگر ہوسکتے ہیں مگر پاکستان میں ان کی اہمیت سے خود مارکس وادی دانشورانکاری ہیں اور وہ بلوچستان میں غیرمقامی مزدور وں کے ہلاکت سے نوحہ کنا ں ہوتے ہیں(جو عسکری تعمیراتی کمپنی کے ماتحت ہوتے ہیں) لیکن مقامی مزدوروں کی حراستی قتل و گمشدگی میں چپ سادھ لیتے ہیں جو مارکس وادو لینن ازم تعلیمات سے راہِ فرارکی نہ صرف کوشش ہے بلکہ اس کی وجود سے انکار کی پہلو بھی در آتی ہے ۔
ہر ذی شعور اس بات سے آگاہ ہے کہ بلوچستان میں آزادی کی جنگ لڑنے والے مٹھی بھر عناصر علم سے لیس ہیں۔وہ چاہے خیر بخش مری و نواب بگٹی کی شکل میں ہو یا بالاچ مری وغلام محمد ۔۔۔صبا دشتیاری یاحمید شاہین ۔۔۔ڈاکٹر منان یا سنگت محراب۔۔۔یا موجودہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ جو کتابوں کے چھاؤں سے خود کو دور نہیں کرتا۔کتابوں کے نایاب لفظ اور سفید ورق ہی بلوچ تحریک کی اساس ٹھہرے۔کیونکہ بلوچ تحریک آزادی کی روح اسی سفید ورق کی طرح اجھلا ہے جو کسی بھی گندگی سے دور محض اپنی سرزمین کی خالص آزادی حصول کو سائنٹیفک بنیادوں اور علم سے منور راستوں کا راہی ہے ۔
اب ایسی تحریک سے جنم محراب سنگت بلا گولی کا حقدار ٹھہرتا ہے …؟؟؟ لیکن ہاں ۔۔۔وہی گولی کا حقدار ہے کیونکہ وہ حافظ سعید ،مولانا مسعود اظہر نہیں ہے۔۔۔اس کے ہاتھ میں بندوق نے نہیں قلم اور کتابوں نے جگہ بنالیا تھا۔۔۔اس مملکت خدداد کے کرتا درھرتا ؤں کو بندوق سے زیادہ علم و کتاب سے ڈر لگتاہے اور بلوچ کی شومی قسمت کہ انہوں نے تحریک آزادی بھی شروع کردی تو بنیاد بندوق سے نہیں رکھا بلکہ اسی کتاب کو وسیلہ بنایا ۔
اور دنیا نے دیکھ لیا کہ جب فرنٹیئر کور (ایف سی)نے تربت عطاشادکالج کے بوائز ہاسٹل میں چھاپہ مارا تو وہاں صرف کتابوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔جس میں عظیم مفکر و فلاسفرلینن ومارکس سمیت ڈاکٹر مبارک علی،لالہ ہتورام،گل خان نصیر (ڈاکٹر مالک وزارت اعلیٰ دور میں 2015کا سال گل خان نصیر قرار دیا گیاتھا)،عطاشادو دیگر اہم لکھاریوں کی کتابیں شامل تھیں۔ا ب غلام محمد ، صبادشتیاری ،ڈاکٹرمنان و سنگت محراب جواس کتابِ علم کے پرچار تھے تو انہیں کیونکر بخشا جاتا جو ایک ایٹمی ریاست کے پرخچے کرنے چلے تھے۔۔۔۔!!
تیس جنوری کوبلوچستان کے شہرمستونگ کے ایک قصبے کلی دتو میں سیکورٹی فورسز نے نہتے آزادی پسندوں کیخلاف ایک وسیع آپریشن میں بی این ایم کے سیکر ٹری جنرل ڈاکٹر منان بلوچ اور اس کے چار ساتھیوں جن میں ایک کامریڈ بابو نوروز بلوچ بھی تھے جو محراب سنگت اور بیورغ بلوچ کے قلمی ناموں سے عرصہ دراز سے اپنی سوشلسٹ نظریات کی پرچار اپنی تحریروں میں کرتے آ رہے تھے کو گولی مارکر شہید کردیاگیا۔ ان نہتے سیاسی و علم پروروں کی شہادت کو سیکورٹی فورسز نے بلوچستان میں ایک بڑی کارروائی سے تشبیہ دیکرپاکستان کو دولخت ہونے سے بچانے کا سہرا اپنے سر لیا ۔
پاکستان میں مارکسزم کے اکلوتے تخت نشین کامریڈ ڈاکٹر لال خان کو شاید یاد ہوکہ انہوں نے دو مہینے قبل بلوچستان کے موجودہ صورتحال پر جس محراب سنگت کے نام اس کے خط کا کھلا جواب دیا ۔بلوچستان مستونگ میں 30جنوری میں ریاستی نقطہ نظر میںآپریشن دوران مارے گئے دہشتگردوں میں ایک یہی صاحب قلم و کتاب کامریڈ محراب سنگت بھی تھے جولفظوں کی نشتر چلانے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتاردیئے گئے اورمارکس وادی دہشت گرد قرار دیئے گئے!!
بلوچ قوم نے اپنی تحریک آزادی کوعلم و آگہی ،مارکسزم،لینن ازم ،سوشلزم اور سائنٹفک خطوط پر استوار رکھا تاکہ دنیا دیکھے کہ ان کا تحریک کتناخالص اور انسانی حقوق و سماجی رشتوں کے عین مطابق ہے لیکن دشمن نے کتنی چالبازی سے اس خالص تحریک کو ایک دہشت گرد تحریک میں بدلنے کی اپنی سہی کی جو اگرچہ ابھی تک کامیاب نہ ہوسکی اور دنیا کو یہ ثابت کرنے میں ناکام ہے کہ بلوچ قومی تحریک آزادی دہشت گردانہ تحریک ہے لیکن سیاسی رہنماؤں اورلکھاری ودانش وروں کو اپنے دم چلے میڈیا میں دہشت گرد قرار دینے میں کامیاب ہوگیا ہے ۔
کامریڈ بابو نوروز بلوچ نے اپنے قلمی نام محراب سنگت کے نام سے کچھ عرصہ قبل کامریڈ لال خان کو ایک خط لکھا جسکا شایدانہوں نے اپنی مجبوریوں کے تحت دیر سے جواب دیا ،مگر مارکسی نظریات کے دعویدارجناب لال خان کے ’’پندرہ روزہ طبقاتی جددجہد ‘‘کے صفحات میں جگہ دینے سے وہ قاصر رہے۔ البتہ لال خان کا جواب ضرور وہاں شائع ہوا۔ پھر ادارہ ’’سنگر‘‘ کو وہ میل موصول ہوا جس پر سنگت محراب نے ایک نوٹ درج کیا تھا ( یہ مضمون 26 نومبر 2015 کو نیا زمانہ ڈاٹ کام پر بھی شائع ہوا تھا)۔
مارکس وادی دانشور ’لال خان‘ کے نام خط
’’جناب ایڈیٹر اور پوری سنگر ٹیم کو انقلابی جذبہ بھرا سلام!
اْمید ہے آپ اور سنگر کی پوری ٹیم خیر و عافیت سے ہونگے، اور صحافتی دنیا میں اپنی کردار کو ایمانداری و مخلصی سے نبھاتے ہوئے محکوم بلوچوں کی آواز کو پوری دنیا میں پہنچانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ اس سے بڑھ کر ہمارے لئے خوشی اور مسرت کی اور کیا مقام ہوسکتا ہے کہ سنگر جیسا ادارہ ہمارے ہاں موجود ہے ، جس کے ذریعے سے ہم اپنے خیالات و نظریات کا کھل کر اظہار کرسکتے ہیں۔ وگرنہ نوآبادیاتی سامراجی نظام کے ہوتے ہوئے غلامی و محکومی کے زیر سایہ ہم جیسے لکھاری اپنے خیالات و نظریات کا اظہار کرنے سے بھی محروم رہ جاتے۔
جناب‘ عرض یہ ہے کہ یہ خط میں نے پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے مارکسسٹ دانشور ’لال خان‘ کے نام مئی 2015ء میں لکھاتھا اور اسے ’پندرہ روزہ طبقاتی جدوجہد‘ اور خود لال خان کو بذریعہ ای میل بھیجا تھا۔ لال خان نے تو خط کا جواب دیا تھا البتہ طبقاتی جدوجہد والوں نے اسے شائع نہیں کیا تھا۔ انٹرنیٹ کی بروقت عدم دستیابی کی وجہ سے اسے ’ماہنامہ سنگر‘ کے لئے نہیں بھیج سکا، لہٰذا اب اسے سنگر کی قارئین کی دلچسپی کے لئے بھیج رہا ہوں۔ اگرچہ اسے دیر ضرور ہوا ہے لیکن مجھے سو فیصد یقین ہے اس کی اہمیت اب بھی ہے، اگر ’ماہنامہ سنگر‘کے آنے والے شمارے میں شائع ہوجائے تو قارئین کی دلچسپی کا مرکز بنے گا۔ اْمید ہے کہ میری گزارش پر ضرور توجہ فرمائیں گے۔
محراب سنگت
14 جولائی 2015ء‘‘
ادارہ نے بروقت اپنی ویب سائٹ پر اسے شائع کرنے کے ساتھ ماہنامہ’’ سنگر‘‘ میں بھی اسے شامل کیا۔دسمبر میں مارکسی نظریات کے اکلوتے وارث جناب لال خان نے اس خط کا جواب بعنوان’’کامریڈ لعل خان کا جوابی خط محراب سنگت کے نام ‘‘ لکھ ڈالاجوانکی ویب سائٹ میں شائع ہوا۔میرے خیال میں اگلے روز ہی کامریڈ محراب سنگت،یعنی بابونورز کا میل ایک مضمون کے ساتھ ملا۔اسکے بعد جوابی میل میں سنگت کو لال خان کا جوابی خط بھی میل کیا اور اسکے ایک گھنٹے بعد انہوں نے ای میل کا جواب دیتے ہوئے کہا
’’ سفر میں ہوں،جلدہی رابطہ ہو گا، کہیں پہنچ کر جناب لال خان کی راہ فرار والی خط کا جواب دونگا،میں پہلے ہی جواب پڑھ چکا ہوں ،بہرحال آپکے ای میل کا شکریہ کہ آپ کے سامنے جناب لال خان کا جواب گزرا تو آپ نے مجھے ارسال کیا،مگراس بار کسی مضمون کی شکل میں مارکسی تعلیمات پر بحث کریں گے۔۔۔‘‘
وقت تیزی سے گزر جاتا ہے۔پھر اچانک 24جنوری کو سنگت محراب سے بات ہوئی اور پہلا سوال میرا یہی تھا کہ ’’کامریڈ لال خان کا کیا بنا؟‘‘
تو شہید کامریڈ کی آواز دیمی تھی اور کہا طبیعت ناساز ہے ،مضمون میں نے تقریباً مکمل کرلیاکچھ دنوں میں میل کر دونگا‘‘۔
وہ اور ڈاکٹر منان ایک ساتھ تھے ،سنگر سالنامہ ایڈیشن کی سالنامہ رپورٹ پر کچھ بحث کے بعد سنگت محراب کی خواہش تھی کہ مارکس اور لینن کی تعلیمات پر مزید کام کر کے انھیں سیاسی کارکنوں تک پہنچایا جایاسکے، کچھ ذمہ داریاں اپنے اوپر اور تھوڑی کچھ ہم سے بہتر کرنے کے ساتھ ۔کامریڈ ساتھی سے 26 جنوری کو آخری باتیں ہوئیں ۔
میں نے یوں ہی پوچھا کہ مضمون کا نام کیا ہے،تو انہوں نے کہا
’’ ٹائٹل ابھی تک نہیں دیا ہے،سوچ رہا ہوں …..میرے خیال میں’’ جنوبی ایشیا میں مارکسزم کی تلاش‘‘ یا مارکسی تعلیمات کے دعویدار؟ خیر دیکھتے ہیں آپ کے اس شمارے میں تو نہیں مارچ میں جگہ دے دینا اور اگر ہو سکے تو لعل خان کو بھی میل کر دینا ویسے’’ سنگر‘‘ کے ساتھ انھیں بھی میں ای میل کر دونگا،آج کہیں سفر پر جا رہے ہیں واپسی پہ بات ہو گی‘‘۔
پھر بات نہیں ہوئی 26 جنوری کے بعد میں بھی اپنے حسب معمول کاموں میں مگن تھا کہ اچانک30 جنوری کی صبح کسی دوست نے میسج بھیجا کہ ڈاکٹر منان جان ریاستی فوجی آپریشن میں ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے ہیں۔
شاید ان لمحات اور اس وقت کی احساسات کو قلمبند نہ کر سکوں مگر دوپہر تک شہید ساتھیوں کا پتہ چلا۔اشرف ساسولی،حنیف ساسولی جو شہید حکیم جان کے کزن تھے اور حکیم جان سے کئی ملاقاتیں رہیں جو خود میں ایک دبستان تھے۔کامریڈ حمید شاہین کے شاگرد بابو نوروز قلمی نام محراب سنگت،بیورغ بلوچ بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ لال خان کے نام ایک مضمون مکمل کر کے ہمیشہ کے لیے مارکس اور لینن کی تعلیمات کا پرچار کرتے شہید ہو گئے۔مگر کامریڈ محراب سنگت کی شہادت کے بعد مارکسی اکلوتے تخت نشین کامریڈ لال خان کا قلم خاموش ہے۔۔۔
شاید لال خان اپنے اثرر سوخ سے ہم پر ایک احسان کرلیں کہ صاحب طاقت جو شہید ڈاکٹر منان جان کی دو ڈائریاں ،لیپ ٹاپ اور سنگت محراب کی ڈائری و لیپ ٹاپ اپنے ساتھ لے گئے، ان کی کھوج لگا کر اس مارکسی تعلیمات پر دسترس رکھنے والے شہید سنگت کی اس مضمون کو اگر ہو سکے تو ضرور پڑھ کر ہمیں بھی ارسال کریں کیونکہ ان لپ ٹاپ اور ڈائریوں میں بم بنانے کے فارمولے تو نہیں ہیں سوائے سوشلزم،مارکس ولینن ازم تھیوری کے جو اب پاکستان کے کسی کام کے نہیں رہے کیونکہ پاکستان و چائنا اب سپر پاورکی دوڑ میں پنجابی مزاحمت کاربھگت سنگھ اور ماؤزے تنگ کی نظریات کو بھی روند ھ رہے ہیں۔۔۔۔!!
One Comment