خان زمان کاکڑ
پاکستانی سرکار نے پشتون قوم کے سب سے بڑے نظم گو شاعر اور سياسی مبارز کو پاگل قرار ديا تها!
پاکستان کے رياستی تاريخی بيانيے کی بات ہم نہیں کرتے وه تو حملہ آوروں اور آمروں کی شان ميں بڑے غيرمعاشرتی ذ ہنوں کے تخليق کيے ہوئے قصائد کا ايک بڑا بدنام مجموعہ ہے پاکستان میں جو کچھ عوام کی تاريخ اور ترقی پسند و ليفٹيسٹ سياست کی تاريخ کے حوالے سے لکها جاتا ہے وه بهی ايک طرح سے اورينٹلسٹ روايت کی پيروی ميں ہے۔
ترقی پسند و مزاحمتی سياست کے موضوع پر لکهی ہوئی تحريروں ميں بهی آپ کو ‘مرکز‘ اور ‘ضمنی علاقوں‘ کے درميان موجود لکير بڑی واضح نظر آئے گی۔ اردو بولنے والے اور پنجاب سے تعلق رکهنے والے ‘ترقی پسندوں‘ کو ايک دن کيلئے جيل بهيج ديا جائے تو وه ہيرو بن جاتاہے ۔جبکہ پشتونوں، بلوچوں اور سندهيوں کے ترقی پسند کارکن جيلوں اور عقوبت خانوں ميں گل سڑ جائيں تو بهی ان کا ذکر کچھ ايسے انداز سے کيا جاتا ہے جيسے کراچی اور لاہور کی نسبت ان کی ‘ترقی پسندی‘ کچھ بہت کم ‘ ترقی یافتہ ہو۔
میں جب اردو بولنے والے اور پنجاب کے ‘ترقی پسند‘ لوگوں کی تحريريں پڑهتا ہوں تو کچھ ايسا محسوس ہوتا ہے جیسا مرکزی ايشياء کے کسی بندے کو ترقی پسند سياست پر کسی جنوبی ايشيائی نقطہ نظر سے واسطہ پڑا ہو۔یہ تفریق اور بیگانگی تاریخی ہے پاکستان کی ترقی پسندی بھی بڑی مرکزیت پسند رہی ہے۔
اجمل خٹک کی چهٹی برسی کے موقع پر یہ تحرير شايد ان لوگوں کے معلومات ميں کچھ اضافے کا باعث بنے جن کو ليفٹيسٹ سياست کے حوالے سے حسن ناصر، سجاد ظہير،حبيب جالب، فيض احمد فيض، مياں افتخارالدين، سی آر اسلم اور ميجر اسحاق وغيره کا تو بہت ہی زیادہ پتہ ہے لیکن ‘ضمنی علاقوں‘ کی ترقی پسند سياست کے بارے ميں ان کو صرف اتنا معلوم ہے جتنا پنجاب کے عام لوگوں کو پختونخوا اور بلوچستان کے اضلاع کے نام معلوم ہیں ۔
میرے ایک پنجابی دوست نے ايک دن دلچسپ طور پر کہا تھا کہ پشاور بھی تو بلوچستان میں ہے۔ وزیرستان تو کب سے پشاور میں ہے۔
آج ہم بات کرتے ہیں پشاور وادی کے ايک سياسی سپوت کی جو پاکستانی سرکار، عقوبت خانوں والی سرکار کی نظر ميں ايک ‘پاگل‘تها۔مغل ايمپائر کے خلاف قومی تحريک چلانے والے عظيم شاعر خوشال خان خٹک کے قبيلے سے تعلق رکهنے والے اجمل خٹک جو تادم مرگ استعمار کے خلاف لڑے. باچاخان کی خدائی خدمتگاری سے عوامی نيشنل پارٹی تک۔
اجمل خٹک پچاس کی دہائی ميں پاکستانی عقوبت خانوں ميں ‘پاگل‘ قرار پائے تهے اس پاگل پن کے وقت کی ياداشتوں پر مشتمل پشتو زبان ميں ان کی ايک چهوٹی سی کتاب “دا زه پاگل وم؟” (کيا ميں پاگل تها؟) اس حوالے سے بڑی اہمیت کی حامل کتاب ہے کہ پاکستان بننے کے ابتدائی سالوں کے رياستی خدوخال، جبر و تشدد کے سٹائل اور پشتونوں کی جدو جہد ميں موجود نظرياتی کمٹمنٹ اور ثابت قدمی کے بارے ميں ايک بڑا جامع خاکہ پيش کرتی ہے۔
ويسے تو اجمل خٹک کی شناخت کا بنيادی حوالہ ان کا شعری مجموعہ “د غيرت چغہ ” (غيرت کی پُکار)ہے۔ انقلابی نظموں پر مشتمل یہ مجموعہ ايک راه دکهانے والی کتاب ہے جس ميں محکوم پشتون قوم اور محنت کش طبقے کو جدوجہد اور مزاحمت کا گُر سکهانے کی ايک بڑی زبردست کوشش کی گئی ہے۔
ساٹھ کی دہائی کے چند ترقی پسند طالبعلم سياسی کارکنوں کا خيال ہے کہ يہ اجمل خٹک کی شاعری تهی جس نے پشتون سٹوڈنٹس فيڈريشن کی تشکيل ميں بنيادی کردار ادا کيا۔ اجمل خٹک کی نظموں نے پشتو شاعری کی ہئيت اور ماہيت تبديل کرنے ميں سب سے موثر رول نبهايا ہے اور ان کو بجا طور پر پشتو نظم کے بابا کا لقب ملا ہے۔
پچاس کی دہائی ميں پشتو نظم کے اس بابا اجمل خٹک کو پاکستانی سرکار نے صوبہ پختونخوا کے ضلع نوشہره ميں نظام پور اور پبی کے عقوبت خانوں ميں بدترين تشدد کا نشانہ بنايا تها، ان کے ساتھ پاگلوں جيسا سلوک کيا گيا تها اور حوالات کے عملے نے بدترين تشدد کرکے اتنے بڑے انسان کو ايک ايسے حال تک پہنچايا تها کہ انهيں پاگل قرار ديا تها۔
“کيا ميں پاگل تها؟” عقوبت خانوں کی ياداشتيں ہيں۔ يہ کوئی ديومالائی اور اساطيری داستان نہيں بلکہ ايک بنی آدم کی زندگی کی سچی سرگزشت ہے۔ يہ آدميت کا ايک مقدمہ ہے ابليسيت اور ابليس کے خاندان کے خلاف۔
آدميت کا ساتھ دينے کے جرم کی پاداش ميں اس آدمی کو تشدد کا نشانہ بنايا گيا تها ااور انهيں پا گل قرار ديا گيا تها۔ پاگل ايک سرکاری خطاب تها۔ يہ ايک ايوارڈ تها۔ يہ ہلال امتياز اور کمالِ فن سے بہت بڑے امتياز اور کمال کا ايوارڈ تها۔
اجمل خٹک ايک استاد تهے۔ نظرياتی پرورش کرنے والے استاد۔ انہوں نے ايک درجن سے زائد کتابيں لکهيں۔ ان کی ہر کتاب ميں زندگی کے ساتھ مکالمے اور مقدمے شامل ہيں۔ ان کی ہر کتاب ايک بهرپور مدعا اور التجاء کو بيان کرتی ہے۔
“کياميں پاگل تها؟” ايک ايسا رپورتاژ (Reportage) ہے جو پشتونوں کی قومی جدوجہد کے حوالے سے ايک تاريخی ماخذ کی حیثيت رکهتا ہے۔ عوام کی جدوجہد پر تحقيق کرنے والوں کو اس کتاب سے کافی مواد ملتا ہے۔ ان ياداشتوں کی تائيد اور تصديق کيلئے جيلوں اورہتھکڑيوں ميں گزری ہوئی باچاخان کی زندگی کی سرگزشت پڑهنا ہی کافی وشافی ہے۔
باچاخان انگريزوں کے دور ميں جب جيل کے اندر پشتونوں کے بچوں کی بے عزتی ديکهتے تو انہیں بہت دکھ ہوتا۔ کسی کو کيا پتہ تها کہ انگريزوں کے چلے جانے کے بعد پشتون قوم کے بچوں کا ايک نيو کالونيل سٹيٹ کے ہاتهوں مسلسل بے عزت اور ايک نہ ختم ہونے والا دور شروع ہوجائے گا۔ باچاخان نے انگريز دور کی ايک جيل کے بارے ميں اپنی کتاب (زما ژوند و جدوجہد) ميں لکها ہے:
“اس جيل خانے (ڈيره اسماعيل خان جيل) کی اخلاقی حالت بہت گِری ہوئی تهی۔ نہ لڑکے، نہ جوان اور نہ بوڑهے کی کوئی عزت تهی۔ ہر کوئی خوف ميں تها۔ اس لئے کہ ہر کوئی جب گنگارام اور چکی کے جمعہ دار کو راضی کرتا تو جو بهی اس کا جی چاہتا وہی کرتا۔ ميرے سامنے بعض لوگوں نے ان سے دو روپے کے عوض اپنے دشمنوں کو بے عزت کيا ہے۔ دو روپےکے عوض ان سے لڑکے اپنے کمروں ميں رات گزارنے کيلئے لے جاچکے ہيں۔ حالانکہ جيل کے قانون ميں نوجوان لڑکوں کو بڑوں کے ساتھ ايک کمرے ميں بند کرنا منع تها۔ ايک دن ميں نے داروغہ صاحب سے کہا کہ آپ تو مسلمان ہو، آذانيں ديتے ہو اور امامت بهی کرتے ہو، ليکن آپ کے جيل خانے ميں پشتون بچوں کی عزت محفوظ نہيں اور جب ميں پشاور ميں تها وہاں ايک ہندو داروغہ تها ليکن وہاں پہ پشتون بچوں کی عزت محفوظ تهی۔“(زما ژوند و جدوجہد، دانش کتابخانہ پشاور، اشاعت ۲۰۰۸ء، ص ۱۹۰)
اور پهر ہندوستان کی تقسيم ہوجاتی ہے۔ ہندو داروغہ پشاور سے بهی چلا جاتا ہے اور سارا اختيار پشتون قوم کے بچوں کی عزتيں لوٹنے والے ‘مسلمان داروغہ‘ کے ہاتھ ميں آ جاتا ہے۔ باچاخان نے گاندهی سے احتجاج کے طور پر کہا تها ، “آپ نے تو ہمیںبهيڑيوں کے سامنے ڈال ديا۔” یہ بات سچ ثابت ہوئی۔ باچاخان نے پهر خود کہا کہ جيل ميں جو سلوک انگريز حکومت ان کے ساتھ روا رکهتی تهی اس کے مقابلے ميں اس اسلامی حکومت نے ان کے ساتھ دس گناه زياده برا سلوک کيا۔” (آپ بيتی خان عبدالغفار خان، فکشن ہاؤس لاہور، اشاعت ۲۰۰۴، ص ۲۰۴)۔
اجمل خٹک نے اپنی اس کتاب ميں پشتونوں کی عزتيں لوٹنے والے اس مسلمان داروغہ کو دنيا کے سامنے بے نقاب کيا ہے۔انہوں نے اپنی ياداشتوں ميں مسلمان حکومت کے جبر و استبداد کی داستان ايک زبردست انداز ميں لکهی ہے کتاب کا انتساب کچھ يوں کيا ہے:
“اپنے ‘پاگل پن‘ کے دنوں کی یہ ياداشت ميری اس ماں کے نام جب پبی تهانے ميں مجهے پوليس والے وطن اور قوم کی محبت کے الزام ميں ‘پاگل‘ کہتے تهے اور گهر ميں ميرے غم ميں لوگ اسے ‘پگلی‘ کہتے تهے۔ ميں اب ٹهيک ہوچکا ہوںاور یہياداشتيں لکھ رہا ہوں ليکن اسے ‘پاگل پن‘، تنگدستی اور مصائب نے گور تک پہنچا دیا ہے۔ان کی گور پہ نور ہو” (دا زه پاگل وم؟ وزارت اقوام و قبائل اور اداره امور صحافت و ثفافت کابل، اشاعت ۱۹۸۶، دوئم ايڈيشن)
عبدالغفار خان (باچاخان) کی تحريک کے اکثر سياسی کارکنوں کی مائيں اپنے ان بيٹوں کی ياد ميں پاکستانی رياست نے پگلی بنائی ہوئی تهيں جو جيلوں اور عقوبت خانوں ميں پڑے، غيرانسانی سلوک اور بدترين رياستی تشدد کا شکار بنے ہوئے تهے۔ايک دفعہ اجمل خٹک کو جب پوليس والے گهر سے گرفتار کرنے جاتے ہیں تو ان کی ماں مزاحمت کرتی ہے، بددعائيں ديتی اور روتی ہے۔پوليس والے اس کو بالوں سے پکڑ کر چارپائی سے نيچے گراديتے ہے۔ اجمل صاحب جب بهی اس واقعے کا ذکر کرتے تو رو پڑتے تهے۔ خود عبدالغفار خان کی مثال لے ليں وه پابندِ سلاسل تهے۔ بڑا عرصہ گزرا تها کہماں سے ملاقات نہیں ہوئی تهی۔ ماں ملاقات کيلئے ترستی رہتی تهی ليکن ملاقات نصيب نہیں ہوئی اور آخر اس نے ان الفاظ کے ساتھ آخری سانس دے دی کہ“غفار آيا کے نہیں؟” (زما ژوند و جدوجہد، صفحات ۲۷۲–۷۳–۷۴)
غفار خان گهر کب آسکتے تهے. وه يا تو جيلوں ميں ہوتے تهے اور يا اپنی قوم کے گلی کوچوں، حجروں اور مسجدوں ميں ہوتے تهے۔ یہی حال غفار خان کی تحريک کے اکثر ممبران، اجمل خٹک جيسے سياسی کارکنوں کا تها۔ ميں نے عبدالغفار خان (باچاخان) کا حوالہسوچ سمجھ کرکے ذرا تفصيل کے ساتھ ديا ہے۔ اس غرض سے کہ جو صعوبتيں اجمل خٹک نے برداشت کی ہیں وه ان کی ذات تک محدود نہیں بلکہ یہ مصائب اس تحريک سے وابستہ اکثر لوگوں کو اٹهانے پڑے ہیں۔ باچاخان کی تحريک کو بحیثیت مجموعی سمجھے بغير ہم اجمل صاحب کی تاريخی حیثیت متعين نہیں کرسکتے۔ اجمل صاحب اپنی ياداشتوں کا آغاز ان سطور سے کرتے ہیں:۔
“۲ اپريل ۱۹۵۳ء کو مجهے اچانک اور بے خبر …… کے الزام ميں گرفتار کرليا گيا۔ تقريباً پانچ مہينوں تک قيوم خان کی وزارت کی خفيہ پوليس نے انتہائی سفاک طريقے سے کئی حوالات اور تهانوں ميں مجھ پر بڑے غير انسانی عذاب مسلط کيے رکهے اور پهر جيل بهيج ديا……… ان سزاؤں اور عذابوں ميں مجھ پہ ايک ايسا وقت بهی آيا کہ پوليس والے اور تهانے کا ديگرعملہ مجهے پاگل کہہ کر پکارتا تها۔ يہ ايک ايسا وقت اور ايسی حالت تهی کہ ميں ابهی تک يہ نہيں سمجھ پايا ہوں کہ کياميں واقعی پاگل تها؟ يا پهر کوئی اور معاملہ تها؟ ……. اس دوران مجھ پر ڈهائے ہوئے مظالم، مصائب اور آزمايشوں کی تفصيل اور کيفيت کا تو يا مجھ پر مسلط و مقرر لوگوں کو پتہ ہے يا ان تهانوں کےدر و ديوار کو پتہ ہے جن ميں ميں قيد تها اور يا پهر خدا تعالی کو اس سب کچھ کا پتہ ہے …… اس وقت مجهے ‘پاگل‘ کہا جاتا تها ليکن اب ‘تندرست و ہوشيار‘ لوگوں کی قطار ميں مجهے رکها جاتا ہے۔ بيچ ميں کافی دن بهی گذرے ہيں اس لئے ميں يہ نہيں کہہ سکتا کہ مجھ پہ اسلام اور تہذيب کے اجاره داروں نے پاگل پن کے نام پر صرف يہی کچھ کيا البتہ يہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ جو کچھ ميں نے لکها ہے يہ (مشتِ نمونہ خروار) ہے۔” (دا زه پاگل وم؟، پيش لفظ)
جرم کيا تها؟ پاگل کےاس خطاب کی نوازش کيا تهی؟ اجمل خٹک ‘ہوشياروں‘ کے ماحول ميں کيا کچھ اس طرح کررہے تهے کہ ان لوگوں کے مذاق کا باعث بنے؟
جمود ، جبر اور استبداد کے ماحول ميں خاموش اکثريت کو مزاحمت اور جدوجہد کيلئے تيار کرنے والی سب سے موثر اور منظم جو ايک آواز تهی وه باچاخان کی تحريک کی تهی۔ اجمل خٹک اس تحريک کے ساتھ وابستہ تهے۔ يہ ان کی زندگی کی بنيادی سرگرمی تهی۔ اس کمٹمنٹ اور وابستگی کی وجہ سے وه پاگل قرار پائے۔ انہوں نے ساری عمر صرف ہی ايک جرم کيا۔ ان کا پاگل پن ايک زبردست مزاحمت ، احتجاج اور جدوجہد کا تها۔
يہ ۱۹۵۳ء ہے۔ پختونخوا ميں جناح صاحب کے مسلط کيے ہوئے قيوم خان کا تاريک دورِ حکمرانی ابهی تک ختم نہیں ہوا ہے ۔ پبی کی حوالات ميں ہمارے اس مبارز کو شديد پياس لگی ہوئی ہے۔ پانی کيلئے جب آواز ديتے ہیں تو فوراً خود پہ برا مناتے ہيں، “مجهے اس دل نے کہا کہ بندے تو نے پانی مانگ کر بڑی غلطی کی اور خود اپنے لئے گند بنا ليا۔ اب پانی کی بجائے حقے کا پانی، پيشاب يا کوئی فُضلہ لے آئینگے اور کہيں گے کہ يہ ہے لے لو پانی۔ جب آپ نہيں ليں گے تو زبردستی منہ پر چڑهائیں گے، آپ جتنا بهی بہانے، يہ اور وه کرينگے ليکن وه یہی سلوک کرينگے. تجهے کس نے کہا کہ پانی مانگ؟” (ص ۲)
يہ ايک بادار کے اخلاق ہيں اور يہ ايک قيدی کی توقع ہے۔ يہ ايک پاک سرزمين کا گنده اعتبار اور اعتماد ہے۔ہمارے قيدی پياس سے مرتے ہيں ليکن باداروں کے اخلاقيات پر ان کا اعتبار يہ ہے کہ اگر پانی مانگا تو پيشاب منہ ميں انڈيل دينگے۔
جوؤں اور کيڑے مکوڑوں سے بهر ی ہوئی گندی رضائياں اور کمبليں ہيں جن ميں ايک قوم کا بڑا دانشور اور شاعر پڑا ہوا ہے۔
يہ وه وقت تها جب مشرقی پاکستان بهی صاحبِ حيات تها يعنی دو قومی نظريہ بحیرہ عرب کی نذرنہیں ہوا تها۔ پاکستان مسلمانو ں کی روايات اور تہذيب کے محافظ ملک کے طور پر دنيا کے نقشے پر موجود تها۔ ہمارے بڑے شاعر جس عقوبت خانے ميں مقيد تهے اس کے روايات اور تہذيب يہ تهی:۔
“ميں جس حوالات ميں قيد تها. وه تهانے کے مرکزی دروازے ميں تھا يہاں دو حوالات تھیں۔ايک مردانہ اور ايک زنانہ۔ مردانہ بہت وسيع اور کشاده تهی آٹھ دس بندے اس ميں آرام سے آسکتے تهے جبکہ زنانہ حوالات بہت تنگ تھی۔ صرف دو افراد کيلئے اس ميں جگہ تهی۔ميں زنانہ حوالات ميں قيد تها۔ ليکن ظلم انہوں نے يہ کيا تها کہ مردانہ حوالات کی جتنی بهی گندی رضائياں، کمبليں اور گند تها وه انہوں نے سار ا اس حوالات ميں ميرے ساتھ پهينکا تها۔ اب نيم حوالات ميں تو ٹٹی تهی اور ٹٹی بهی کچھ ايسی کہ آپ جب پيشاب کرتے تو وه سارا حوالات کی فرش کی طرف بہہجاتا اور آدها فرش قبضہکرجاتا تو اس حساب سے ميں جس حوالات ميں پڑا تها اس کو يا تو جوؤں، کٹملوں اور ديگر حشرات الارض سے بهری ہوئی رضائيوں و کمبلوں نے گهير رکها تها يا پهرٹٹی کے پيشاب وفُضلے نے اس کو قبضہ کيا تها۔ ميرے لئے اس ميں جگہ نہیں تهی۔” (صفحات ۱۵–۱۶)
ايسا لگتا ہے کہ اجمل خٹک اپنی ان ياداشتوں ميں اپنی حوالات کا احوال بيان نہيں کرتے بلکہ پاکستان ميں رياست کی نوعيت اور اس کے مستقبل کا منظرنامہ پيش کرتے ہيں کہ ملک ميں ہر طرف گندگی ہوگی۔ زندگی گزارنے کی گنجائش کم ہوگی۔ بدمعاشوں اور غنڈوں کے ہاتھوں انسانی شرف اور وقار کو مسلسل پامال کيا جائيگا۔ انسانيت ايک الميے سے دوچار ہوگی۔ايسا لگتا ہے کہ ہمارے قيدی ان جنگلی عناصر کی نشاندہی اور پيش گوہی کرتے ہيں جو بعد ميں انسانی تہذيب اور عالمی امن کيلئے سب سے بڑا خطره قرار پائے گا۔
ايسا لگتا ہے کہ ہمارے قيدی نے نصف صدی پہلے دنيا کو انسانی حقوق سے خالی خطے کی نشاندہی کرارہے تھے۔
يہ انسانيت سے ايک خالی خطہ ثابت ہوگيا۔ يہاں پہ زندگی کا کوئی اسباب نہيں۔ يہاں موت کا سامان وافر مقدار ميں دستياب ہے۔ يہاں پہ خودکشی کا انصاف بحال ہے۔
خودکشی زندگی ميں شکست سہی، زندگی سے انکار سہی ليکن ايک سطح پہ يہ بهی ايک مزاحمتی عمل کی شکل اختيار کرجاتی ہے۔ زندگی سے انکار زندگی کی نوعيت اور معيار کے بارے ميں بہت کچھ بتاتا ہے۔ اشرف المخلوقات کواپنے شرف کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ اس شرف کو حيوانی نظاموں کے ضابطوں سے آزاد کرانا ہوتا ہے۔
پاکستانی عقوبت خانوں ميں ہمارے قيدی پر ايک ايسا وقت بهی آتا ہے کہ وه خودکشی کی کوشش کرتے ہیں کسی طرح ان مصائب سے چهٹکارا پائے ليکن پہرہ دينے والے سپاہی خودکشی کی اس کوشش کو ناکام بنا ديتے ہيں۔ بالفاظ ديگر وه ہمارے قيدی کی پاگل مزاحمت کو عارضی طور پر خاموش کراتے ہيں۔
زندگی کا نعم البدل ايک انسان خودکشی کی کوشش کرتے ہيں۔ کيا ہم اندازه کرسکتے ہیں کہ کس درجے کی بربريت اس حوالات ميں رائج ہوگی؟ اپنے وطن کے چناروں اور پہاڑوں جيسے بلند قامت يہ انسان يہ سارے مظالم برداشت کرتے ہيں ليکن ثابت قدم رہتے ہيں۔ ايک تهانيدار اپنے افسر کو يوں مخاطب کرتا ہے:
“اس بے غيرت کو اپنی حيا اور غيرت سے بهی کوئی سروکار نہيں۔ ورنہ اس زندگی سے تو موت بہتر ہے۔ ساری بے عزتياں، مار پيٹ، گالياں اور کتوں جيسی زندگی کو پسند کرتا ہے ليکن مردوں کی طرح سارا حال نہيں بتا تا۔” (ص ۲۰)
غيرت، عزت، حيا اور مردانگی ….. ظلم اور استبداد روا رکهنے والے لوگ ان الفاظ کو مخصوص معنوں ميں مخصوص ايموشنل بليک ميلنگ کيلئے استعمال کرتے آرہے ہيں۔
“سارا حال نہيں بتاتا“، اس کا کيا مطلب؟ يعنی يہ قيدی ‘مرد‘ نہيں بنتا ، اپنی تحريک کی مہار سرکار کے ہاتھ ميں نہيں تهماتا اور ہر اس غار و مکان کا پتہ نہيں بتاتا جہاں پہ کوئی سياسی سرگرمی ہوتی ہے۔ سرکار کی اجمل خٹک سے يہ احمقانہ توقع تهی کہ وه تشدد سے تنگ آکر اپنی قوم اور محنت کش طبقے کے ساتھ بے وفائی کرجائينگے۔ سرکار کے ذہن ميں مرد وه ہے جو چغل خوری کرتا ہے۔سرکار کا نظام بڑا چغلخور ہوتا ہے۔
ہمارے قيدی کو سرکار کے چغل خور نظام کی حوالات کا کپتان کچھ اس طرح کی دهمکی ديتا ہے:۔
“اجمل خان! سن ليں، دل دماغ، کان کهول کر سن ليں، ميں اپنی انسانيت اپنے دفتر ميں چهوڑ کر آيا ہوں، آتے ہوئے ميں نے اپنی پشتونولی اٹک کے اُس پار چهوڑی اور اپنی مسلمانی اس ڈاک بنگلے کے باہر۔ تمهارے ليے نہ تو ميں انسان ہوں، نہ مسلمان اور نہ پشتون۔ ايک قصاب ہوں، قصاب جانتے ہو؟” (ص ۱۱)
تهانے کے اس کپتان کے مندرجہ بالا الفاظ پاکستانی رياست کے قصاب نظام جوکہ ابهی تک مختلف طريقوں اور سٹائلوں سے چلا آرہا ہے کے بارے ميں بہت کچھ بتاتا ہے۔
مسلمان افسر ہمارے قيدی کو ايک نصيحت آموز دهمکی ديتا ہے:۔
“ميں نے تمہارا وه بڑا پنڈت بهی سدهارا ہے۔ وه تمہارا باپ، وه بيس گزی، وه گاندهی کا بيٹا۔” (ص ۲۱)
يہ سن کر ہمارے قيدی کی پاگل مزاحمت کے صبر کا پيمانہ لبريز ہوجاتا ہے اور افسر کو پاگل کی طرف سے کچھ يوں جواب مل جاتا ہے “پنڈت تو تمہار ا غدار باپ ہوگا۔ گاندهی کا بيٹا تو تمہارا ٹوڈی اور چمچہ دادا ہوگا۔ بيس گزی تو تمہارا وه انگريزوں کا کاسہ ليس بابا ہوگا۔ بے غيرت! کيا ميں تمہیں نہيں جانتا؟ کيا مجهے تمہارے پورے خاندان کا حال معلوم نہيں؟ تم ميرے ساتھ بات کررہے ہو؟ انگريزوں کے اولاد! تمہارے باپ دادا نے ساری عمر انگريزوں کی کاسہ ليسی کی ہے۔ تمہاری ماں اوردادی نے انگريزوں کی خدمتيں کی ہيں۔ آج تم بهی افسر بن گئے.” (ص ۲۲)
اپنے ليڈر کی بے عزتی کو برداشت نہ کرتے ہوئے اس مبارز پاگل کا غصہ تب ٹهنڈا ہوجاتا ہے جب کپتان کی انگليوں کو دانتوں ميں پکڑ کر کاٹ ديتے ہیں اور اس کو بے عزت کرکے اپنے کمرے سے باہر نکال ديتے ہيں۔ اس کے بعد اپنے آپ کو اس طرح دلاسہ اور حوصلہ ديتے ہيں:
“يہ ميرے پاگل پن کی برکت ہے۔ اس کووه پاگل پن کہتے ہیں اپنے ليڈر کی عزت پہ آنچ نہ آنے دينا ، اپنے نظريے کی پاسداری کرنا…” (صفحات ۲۵–۲۶)
ہمارے پاگل کو جس ليڈر کی عزت پہ ننگ آيا وه باچاخان تهے جس کی زندگی کے تقريباً ۳۶ سال جيلوں اور ٹارچرسيلوں کی خوراک بنے۔
اجمل خٹک کی اس داستان کا مرکزی خيال ايک جہدِ مسلسل ہے۔ سکوت نہ ماننے والی جہدِ مسلسل اور پستی و پسماندگی کے خلاف ہونے والی جہدِ مسلسل۔
ان ياداشتوں کو پڑھ کر ايک سياسی کارکن کو معلوم ہوجاتا ہے کہ جدوجہد کيا ہوتی ہے اور جدوجہد ميں ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کيا ہوتی ہے؟
ان ياداشتوں ميں الميے سے دوچار انسانيت کا ايک مختصر خاکہ پيش کيا گيا ہے۔
اس مختصر داستان ميں ايک اميد اور عزم ہے وه د ن ديکهنے کا “جب راج کريگی خلقِ خدا، جو ميں بهی ہوں اور تم بهی ہو.”
اس کہانی کا پيغام بڑا واضح ہےبالکل اس طرح کا پيغام جو مارکس نے ديا تها، “ہمارے پاس کهونے کيلئے صرف زنجيريں ہيں اور جینے کيلئے سارا جہان پڑا ہے۔“
اجمل خٹک کا يہ پاگل پن بڑا حساس اور نرم دل ہے۔ وه ان پر تشدد کرنے والے پوليس والوں اور سپاہيوں کی طبقاتی حیثیت کا جائزه ليتے ہيں، اس حیثیت کيلئے وه “ظالم مظلوميت” کی اصطلاح استعمال کرتے ہيں اور ان ظالم مظلوموں کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کرتے ہيں۔
اس پاگل کی ايک پرانی چادر ان کا سب کچھ ہے۔ اس پهٹی ہوئی چادر ميں جوئيں اور لمبے ناخون پڑے ہیں۔ہمارے اجمل خٹک اس کو اوڑھ کر ايک رنگين دنيا کا خواب ديکهتے ہيں۔ ايک ايسی دنيا جس ميں انسان کے ہاتهوں انسان کا استحصال نہ ہو اور جس ميں انسان کی محنت برائے فروخت نہ ہو۔
اجمل خٹک کا پاگل پن ايک دانشمندانہ پاگل پن تها۔ روشن فکرانہ دانشواری کا پاگل پن۔ ايک مبارز اور مزاحمتی پاگل پن۔ يہ پاگل پن کب جامد اور مستبد رياستی ڈهانچوں ميں ايڈجسٹ ہوسکتا تها۔
“ان کا ہر ايک تفتيشی آفسر دعوے سے کہتاتها کہ مجهے ايک فولاد کا بنا ہواانسان دے دو ميں اس کو تين دن ميں موم بنا کر دونگا اور جو ميں چاہوں گا وہی کرے گا۔ ليکن ميں جب اپنے آپ کو ديکهتا گوشت سے بنا ہوا ايک کمزور سا پتلا انسان تها۔ ليکن ان چھ مہینوں نے مجهے فولاد جيسا مضبو ط بنايا تها۔ ميں اپنے ايمان اور نظريے کا پابند تها۔ موت سے مجهے ڈر نہ تھا اور اس زندگی سے تو ميں نے ہاتھ دهو ليا تها۔جهوٹ کی زندگی سے مجهے سچ کی موت پسند تهی اور ميرا ايمان تها کہميرےعظيم گهرکا چُولہا قائم اور روشن ہوجائے تو خير ميری قبر کی کوئی نشانی بهی باقی نہ رہے۔” (ص ۹۷)
فولادی عزم کے مالک اس مبارز نے اپنے کردار کے نہ ختم ہونے والے دوام اور دائرے ميں ہميں مزاحمت کی ايک بڑی ميراث بخشی ہے۔ “کيا ميں پاگل تها؟” پشتو ادب ميں ايک بہترين احتجاجی شہکار ہے۔ اس داستان ميں مزاحمت اور ہنگامہ ايک اوج ميں کارفرما ہے۔یہ انحراف اور انکار کی جرات بخشنے والی کتاب ہے۔ يہ انسان کے روشن مستقبل کيلئے بغاوت کو لازم قرار دينے والی کتاب ہے۔
ہم اپنے آپ کو اس پاگل پن، ملنگ و انقلابی پاگل پن کا مقروض سمجهتے ہيں۔ ہم پشتو نظم کے بابا، خدائی خدمتگا ر اور عوامی نيشنل پارٹی کے اس ليڈر اجمل خٹک کو ان کی چهٹی برسی کے موقع پر ان کے اس شعر سے ياد کرتے ہیں:
يہ پشتنو هير نہ کڑئ داستاسو ملنگے خٹک
وخت بہ درنہ داسی ليونےگورئ بيا هم غواڑی
(اے پشتونو! اپنے اس ملنگ خٹک کو بهول نہ جانا ـ وقت تم سے ايسے ديوانے کا تقاضا کرتا رہے گا)
Twitter: @khanzamankakar
18 Comments