اسلامی ریاست کا تصور

اصغر علی انجینئر

ansar-al-sharia

اسلامی ریاست کے تصور کے حامیوں اور مخالفین کے مابین فکر ی مجادلہ نہ صرف ایک طویل ماضی رکھتا ہے بلکہ اس تصور کے گرد دلائل و براہین کا سلسلہ بغیرکسی وقفہ کے ،ہنوز جاری و ساری ہے ۔کیا ایساکو ئی تصور موجود ہے یا یہ محض سراب ہے ؟ کیا ہم کسی ریاست کو اسلامی ریاست کہہ سکتے ہیں ؟ بلاشبہ بہت سے ایسے اہل علم موجود ہیں جو نہ صرف اس تصور کے داعی ہیں بلکہ ایسی ریاست کے قیام کو اسلام کی حقیقی روح قرار دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک اسلام کا ظہور جن مقاصد کے لئے ہوا تھا وہ اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتے جب تک کہ پوری دنیا میں اسلامی ریاست قائم نہ ہو جائے ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کے داعیوں میں فوجی آمر،موروثی بادشاہ اور ایسے حکمران نمایاں ہیں جو اپنے عوام کو ان کے جمہوری حقوق دینے سے انکاری ہیں۔کیا موجودہ دور کی کسی ریاست کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ یہ اسلامی ریاست ہے ؟کیا کوئی ایسا پیمانہ یامعیار موجود ہے جس پر اسلامی ریاست کے دعوے کو ناپا اور پرکھا جاسکتا ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہمار ی بحث کا موضوع ہیں۔

سب سے پہلے تو ہمیں اس بات کا ادراک حاصل کرنا چاہیے کہ کیا قرآن و حدیث میں اسلامی ریاست کا کوئی تصور موجود بھی ہے یا نہیں ؟ کیا قر آن و حدیث کا منشا کسی ریاست کا قیام ہے ؟ اسلامی لٹریچر جس میں سر فہرست قرآن و حدیث ہیں ،کا مفصل مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ اسلامی ریاست نام کی کوئی چیز اس میں موجود نہیں ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت محمدصلعم کی وفات کے بعد مسلمان ان کے جانشین کے مسئلہ پر بھی باہم متفق نہ تھے ۔رسول کا جانشین کون ہو؟

یہ وہ پہلا مسئلہ تھا جس پر مسلمان منقسم ہوگئے تھے ۔ اس ابتدائی تقسیم کے پس پشت کچھ لوگوں کا یہ خیال تھا کہ خود رسول اللہ نے کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کیا تھا لہذا کسی شخص کا یہ دعویٰ کرنا اور مسلمانوں کے کسی ایک دھڑے کی طرف سے اس کی تائید و حمایت درست نہیں ہے جب کہ دوسرے گروہ کا موقف تھا کہ رسول اللہ نے نہ صرف اپنا جانشین مقرر کیا تھا بلکہ انھوں نے بالوضاحت حضرت ابوبکرؓ کو اپنے بعد مسلمانوں کی دنیاوی اور روحانی رہنمائی اور قیادت کا فریضہ بھی تفویض کیا تھا ۔

جہاں تک قرآن کا تعلق ہے تو اس میں زیادہ سے زیادہ ایک سماج کا تصور تو موجود ہے لیکن ریاست اور اس کے اداروں کا کوئی ذکر نہیں ملتا ۔قرآن عدل اور احسان پر زور دیتا ہے ۔ لہذا قرآنی اصولوں کے مطابق تشکیل پانے والے سماج کی بنیادیں انہی اصولوں پر استوار ہونا چاہئیں ۔اسی طرح قرآن ظلم اور ناانصافی کو سختی سے مسترد کرتا ہے ۔چنانچہ ایسا سماج جو ظلم و زیادتی پر قائم ہو وہ کسی طور پر بھی اسلامی سماج نہیں کہلا سکتا ۔ سماجی تشکیل میں قرآنی اقدار بنیادی اہمیت کی حامل ہیں ۔ پس یہ بات بحث طلب ہے کہ ظلم و زیادتی کی بنیادوں پر قائم اور عدل و احسان پر مبنی قرآنی اقدار سے ماورا ریاست کو جائز طور پر اسلامی ریاست کہا جاسکتا ہے ۔

قبل از اسلام کا عرب معاشرہ ریاست کے کسی تصور سے آشنا نہ تھا ۔وہ ایساقبائلی سماج تھا جو ریاست اور سول سوسائٹی کے مابین کسی قسم کے فرق سے ہنوز ناواقف تھا ۔وہاں تو ابھی تک تحریری قوانین ہی موجود نہیں تھے چہ جائیکہ کسی قسم کے منضبط اور تحریری آئین کی بات کی جائے ۔اُس عہد کے خطہ عرب میں وراثتی یا منتخب، کوئی حکومتی اتھارٹی موجود نہ تھی، تاہم ایک ایسا ادارہ جس کو آج کی آئینی زبان میں سینٹ کہا جاسکتا ہے، موجود تھا اور اس کے ارکان میں ایک مخصوص علاقے میں بسنے والے قبائل کے سردار شامل ہوتے تھے ۔ہر فیصلہ باہمی مشاورت اور اتفاق رائے سے ہوتا تھا اور جو فیصلہ ایک دفعہ ہوجاتا اس کی پاسداری اور پابندی کرانا قبیلہ کے سردار کی ذمہ داری تھی ۔اگر کوئی قبائلی سردار کسی فیصلہ سے اختلاف کرتا تو ایسے فیصلے پر عمل درآمد کرانا ممکن نہیں ہوتا تھا ۔

ٹیکس کا کوئی نظام تھا نہ کوئی پولیس اور باقاعدہ فوج۔ مخصوص سرحدوں کے اندر واقع علاقے یا علاقوں میں حکومتی نظم و نسق ، دفاع یا پولیس کے کسی باقاعدہ نظام کا کوئی تصور نہ تھا۔ ہر قبیلہ اپنے رسم و رواج اور صدیوں پر محیط روایات پر عمل درآمد کرتا تھا ۔ بلا شبہ متحارب قبائل کے مابین جنگ و جدل جاری رہتی تھی اور قبیلہ کے ہر بالغ مرد کا فرض سمجھا جاتا تھا کہ وہ اس جنگ میں اپنے قبیلے کی عزت و ناموس اور مفادات کے تحفظ کی خاطر حصہ لے اور اگر اس مقصد کے لئے اپنی جان قربان کرنی پڑے تو اس سے بھی گریز نہ کرے ۔

ایک قانون جس کے بارے میں جزیرہ نماعرب کے قبائل کے مابین عمومی اتفاق موجود تھا وہ قصاص کا قانون تھا ۔قبل از اسلام کے عرب میں قانون اور اخلاق کی بنیاد قصاص کے اصول پر استوار تھی ۔ مکہ میں حضور کی قیادت میں قائم ہونے والے معاشرے کو یہ صورت حال ورثہ میں ملی تھی۔ جب آنحضرت اور ان کے صحابہ کرام پر مکہ میں مخالفین اسلام کی طرف سے عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تو وہ مدینہ جو ان دنوں یثرب کہلاتا تھا ہجرت کرگئے ۔اُس دور کا مدینہ بھی بنیادی طور پر قبائلی معاشرت کا حامل شہر تھا اور یہاں بھی قبائلی رسوم و رواج کی حکمرانی تھی ۔

مکہ کی طرح مدینہ میں بھی ریاست نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی اور قبائلی رسوم وروایات کی پاسداری کی جاتی تھی ۔یہاں اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ بعض حوالوں سے مدینہ کی حالت مکہ سے بد تر تھی ۔ مکہ میں قبائل کے مابین جنگوں کا رحجان اتنا شدید نہیں تھا اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ شہر بڑی تیزی سے تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن رہا تھا اور ان سرگرمیوں کا تقاضا تھا کہ قتل و غارت گری کی بجائے شہر میں امن اور ہم آہنگی کی فضا بنی رہی۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی تجارتی اور معاشی سرگرمیاں قبائل کو مجبور کررہی تھیں کہ وہ باہمی لڑائیوں کی بجائے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ تاجر مکہ کا رخ کریں۔

تاہم مدینہ نخلستان ہونے کی وجہ سے نیم زرعی معاشرہ تھا اور وہاں مختلف قبائل ہر وقت لڑنے مرے کو تیار رہتے تھے ۔قبائل کی باہمی دشمنی کے خاتمے کے لئے مدینہ کے لوگوں نے حضرت محمد کو بطور منصف مدینہ آنے کی دعوت دی تھی۔

پیغمبر اسلام ایک عظیم روحانی اور مذہبی شخصیت ہونے کے ناطے جزیرہ نما عرب میں بہت زیادہ عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے چنانچہ جب مدینہ کے عوام نے انھیں قیام امن کے لئے مدعو کیا تو آپ وہاں ایک مبنی بر انصاف معاشرہ قائم کرنے لئے تشریف لے گئے۔ اپنے قیام مدینہ کے دوران انھوں نے جو پہلا کام کیا وہ تھا مختلف قبائل اور مذہبی گروہوں کے مابین ایک ایسا معاہد ہ امن ڈرافٹ کیا جسے دنیا میثاق مدینہ کے نام سے جانتی ہے۔اس معاہدے کی شقوں کے تحت مدینہ اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے تمام قبائل اور مذہبی گروہوں کو ان کے عقائد، قبائلی قوانین اور روایات کے مطابق زندگی گذارنے کا حق تسلیم کیا گیا تھا ۔ کسی کو یہ حق نہیں تھا کہ وہ اپنے عقائد اور روایات کسی دوسرے شخص یاگروہ اور قبیلہ پر بزور طاقت مسلط کرے ۔ قرآن میں واضح طور پر یہ بیان کیاگیا ہے کہ ’’ دین کے معاملات میں کوئی جبر نہیں ہے ‘‘۔

میثاق مدینہ کو مدینہ میں قائم ہونے والی’ ریاست‘ کی آئینی دستاویز کہا جاسکتا ہے ۔ میثاق مدینہ کی شقیں قبائلی نظم و ضبط کی نفی اور حکمرانی کے مشترکہ امور میں قبائلی سرحدوں کو نظر انداز کرتی تھیں۔میثاق مدینہ میں یہ طے کیا گیا تھا کہ اگر کوئی بیرونی قوت مدینہ پر حملہ آور ہوگی تو تمام فریقین بلا استثنا مذہب اور قبیلہ مشترکہ طور پر شہر کا دفاع کریں گے ۔چنانچہ یہی وہ مرحلہ تھا جب تاریخ اسلام میں پہلی بار مشترکہ سرزمین جو کسی بھی ریاست کے قیام کے لئے بنیادی شرط خیال کی جاتی ہے، کے تصور نے جنم لیا ۔ قبل ازیں جیسا کہ اوپر بیا ن کیا گیا ہے عرب میں قبیلہ کا تصور تو موجود تھا لیکن مخصوص سرحدوں کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا تھا ۔

میثاق مدینہ کی صورت میں پیغمبر اسلام نے ایک طرح سے انقلابی قدم اٹھایا تھا اگر ایک طرف انھوں نے نظریاتی سرحدوں کا تصور دیا تو دوسری طرف انھوں نے زمینی سرحدوں کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا تھا۔ تاہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ حضرت محمد کا مقصد کسی قسم کی سیاسی کمیونٹی تشکیل دینا تھا کسی صورت بھی درست نہیں ہوگا ۔وہ تو مذہبی عقیدے کی بنیاد پر کمیونٹی تشکیل دینا چاہتے تھے ۔ میثاق مدینہ کے نتیجے میں مسلمانوں کا ایک سیاسی کمیونٹی میں ڈھل جانا محض حادثہ تھا نہ کہ اسلامی تعلیمات کا لازمی نتیجہ ۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کسی سیاسی نظریہ کی بجائے اخلاق اور انصاف کی اقدار پر زیادہ زوردیتا ہے ۔قرآن کے نزدیک زیادہ اہمیت دین کوحاصل ہے نہ کہ حکمرانی کو ۔ اللہ تعالی قرآن میں کہتا ہے کہ ’’ ہم نے آج تمہارے دین کو مکمل کردیا ہے ‘‘ چنانچہ قرآن ہمیں مکمل دین دیتا ہے نہ کہ مکمل سیاسی نظام۔ کسی سیاسی نظام کی ترتیب و تشکیل اور ا س کے ارتقا میں بہت سا وقت درکار ہوتاہے۔ اس کے ساتھ ہی ہر عہد کی سماجی و سیاسی اور معاشی ضروریات اور تقاضے کسی بھی سیاسی نظام کی تشکیل و تعمیر اور تبدیلی و ترمیم میں بہت اہم کر دار ادا کرتے ہیں ۔

مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ’ نیکی کو نافذ کریں اور برائی کا مقابلہ کریں ‘‘۔یہ قرآنی اصول اسلامی معاشرے کو ایک واضح اخلاقی جہت عطا کرتا ہے۔بعد ازاں دین اور سیاست کے اتحاد کے جس نظریہ پر بہت زیادہ زور دیا گیا اور جسے اسلام کی ’ حقیقی روح اور منشا ‘ قرار دیا گیا، میرے علم کے مطابق قرآن میں اس کا بالکل کوئی ذکر موجود نہیں ہے ۔ پیغمبر اسلام نیکی اور انصاف کی اعلیٰ ترین اقدار کے نفاذ کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور انھوں نے اپنی تمام زندگی معاشرے سے برائی کے خاتمے اور انصاف کے قیام کے لئے وقف کئے رکھی لیکن اس کے باوجود انھوں نے کبھی بھی کسی سیاسی عہدے یا منصب کی خواہش کی اور نہ کوشش۔

وہ اس دنیا میں پیدا ہونے والے عظیم ترین روحانی انسانوں میں سے ایک تھے۔ وہ اپنے صحابہ کرام میں روحانی اقدار کو مضبو ط و مستحکم دیکھنا چاہتے تھے۔ قرآن کی اس آیت میں مسلمان امہ کے لئے بہترین سماجی اور معاشرتی فلسفہ بیان کیا گیاہے’’ تم (مسلمان) بہترین امت ہو ۔ نیکی کی راہ پر چلو اور برائی سے دور رہواور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو‘‘۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان امت کا مقصد قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ایک ایسے اخلاقی سماج کی تشکیل و ترتیب ہے جس کی بنیاد نیکی اور اچھائی کے اصولوں سے وابستگی اور بدی وبرائی سے پرہیز اور دوری کے اصولوں پر استوار ہو ۔ مسلمانوں کا اتحاد و اتفاق اسی صورت میں قائم اور مستحکم ہو سکتا ہے جب کہ وہ ایک دینی برادری میں رہتے ہوئے مبنی بر انصاف سماج تشکیل دینے کی سعی کریں ایک ایسا سماج جہاں ظلم و زیادتی اور ناانصافی کوکوئی دخل نہ ہو ۔

گو کہ سچ کی تلاش اور اس کو اپنانے کے ایک سے زائد طریقے اور حوالے ہو سکتے ہیں ۔حضر ت محمد کے حوالے سے یہ کہا جاتا ہے کہ کفر پر قائم معاشرہ تو زندہ رہ سکتا ہے لیکن ظلم اور ناانصافی پر قائم ہونے والا معاشرہ قائم و دائم نہیں رہ سکتا ۔قرآن میں اللہ تعالی کو الحاکم الحاکمین کہا گیا ہے ( بہترین انصاف کرنے والا ) قرآن کی یہ سب آیات اور ہدایات مثبت سماجی اقدار کو فروغ دیتی ہیں۔ مسلمانوں کو ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کا پیغام دیتی ہیں جو انسانوں پر ظلم و زیادتی کی بجائے عدل و انصاف کا نفاذ ممکن بنائے ۔

اسلام اپنے پیروکاروں سے ہرگز یہ تقاضا نہیں کرتا کہ وہ کسی ایک سیاسی جماعت یا گروہ میں منظم ہو جائیں ۔سیاست بنیادی طور پر لوگوں میں اقتدار کے حصول کی خواہشات ابھارتی ہے ۔ اقتداور سیاسی قوت کی خواہش انسانوں کی تقسیم در تقسیم کا باعث بنتی ہے نہ کہ اتحاد و یگانگت کا۔قرآن مسلمانوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ باہم متحد رہیں اور کمزور کردینے والے اختلافات اور باہمی تضادات کی پذیرائی نہ کریں۔’’اور اللہ اور اس کے پیغمبر کی اطاعت کرو ‘‘ قرآن کہتا ہے ’’ اور ایک دوسرے کے ساتھ تنازعہ پیدا نہ کرو تاکہ تم کمزور نہ ہوجاؤ اور تمہاری قوت ختم ہوجائے ۔ یقیناًاللہ مومنوں کے ساتھ ہے ‘‘۔

سیاسی اقتدار کے حصول کی جد و جہد کرنے والوں کے مابین تنازعہ اور مناقشت پیدا ہونالازم ہے ۔ باہمی تنازعات افراد اور کمیونٹی کو کمزور کرتے اور سماجی ترقی کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے مسلمانوں کو باہمی تنازعات سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے ۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ مسلمانوں کے مابین پیدا ہونے والے باہمی تنازعات اور اختلافات کے پس پشت سیاسی اقتدار کے حصول کی خواہش تھی ۔حضور کی وفات کے بعد سب بڑا سوال ہی یہی تھا کہ سیاسی اقتدار کس کے پاس ہو اور حق حکمرانی کس کو حاصل ہے ۔چنانچہ سیاسی اقتدار کے سوال پر مسلمانوں کی تقسیم کے عمل کا آغاز ہوگیا ۔

تیس سالوں پر محیط خلافت راشدہ کے دوران مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے مابین سیاسی اقتدار کے حصول کے لئے بہت سے تنازعات اور اختلافات ابھرے اور بعض صورتوں میں تو یہ اختلافات قتل و غارت گری پر منتج ہوئے۔ تیس سالوں کا یہ عرصہ مسلمانوں کے مابین باہمی اختلافات اور خون خرابے سے بھرپورہے۔ چار میں سے تین خلفا کو قتل کیا گیا ۔قرآن نے مسلمانوں کو اتحاد و یگانگت جو سبق دیاتھا وہ پس پشت کیوں چلا گیا ؟مسلمانوں کے مختلف گروہوں اور پارٹیوں کے مابین جنگ و جدل کیوں ہوئی ؟اس ساری جنگ و جدل اور خون خرابے کے پیچھے مختلف افراد کی اقتدار پر قبضہ کرنے کی خواہش تھی ۔حضور کی وفات کے فوری بعد ہی ایسے اشارے ملنے لگے تھے جن سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ کچھ افراد اقتدار پر قبضہ کی خواہش رکھتے تھے۔

مکہ کے لوگوں کی اکثریت کا تعلق قبیلہ قریش سے تھا ۔ وہ سمجھتے تھے کہ خلیفہ کے چناؤ میں انھیں قو قیت ملنی چاہیے کیونکہ یہ وہی تھے جو سب سے پہلے اسلام لے کے آئے تھے اور ویسے بھی دوسرے قبائل کی نسبت وہ زیادہ مہذب ، پڑھے لکھے اور تجربہ کار ہیں اس لئے خلافت انہی کا حق ہے ۔ انصار جو چاہتے تھے کہ خلیفہ کا تعلق مدینہ سے ہو دعویٰ رکھتے تھے کہ یہ وہی تھے جنھوں نے نبی کی اس وقت مدد کی جب مکہ کے اہل قریش نے ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا ۔اس لئے خلافت پر ان کا حق فائق ہے ۔وہ خلیفہ انصار میں سے منتخب کرنا چاہتے تھے ۔حضور کے اہل خاندان سمجھتے تھے کہ حضرت علی جو ان کے داماد اور چیجرے بھائی ہیں اس منصب کے زیادہ اہل ہیں ۔

قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں جو ابتدائی اختلافات پیدا ہوئے ان کی نوعیت مذہبی نہیں بلکہ سیاسی تھی ۔ مختلف گروہوں اور افراد کی طرف سے ’نوزائیدہ ‘ اسلامی ریاست کا اقتدار حاصل کرنے اور قیادت کی خواہش نے ان اختلافات کو ہوا دی۔یہاں یہ حقیقت واضح کرنا ضروری ہے کہ ابتدائی ریاست کا قیام مذہبی سے زیادہ سیاسی تقاضا تھا۔اس نقطہ پر ہم تفصیل سے روشنی ڈالیں گے ۔

جیسا کہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ نماز ، روزہ اور زکوۃ ہر مسلمان پر فرض ہے اور حج کی ادائیگی اور توحید پر پختہ ایمان مسلمان ہونے کی بنیادی شرائط ہیں ۔ روحانی بالیدگی کے لئے یہ چیزیں ضروری ہیں ۔مسلمان جہاں کہیں بھی ہو اسلام کے بتائے ہوئے یہ فرائض ادا کرسکتا ہے ۔ان فرائض کی ادائیگی کے لئے کسی ریاست کی ضرورت نہیں ہے ۔ایک غیر مسلمان معاشرے میں رہتے ہوئے بھی کوئی مسلمان یہ فرائض بغیر کسی رکاوٹ اور مشکل کے ادا کرسکتا ہے ۔اور اگر کہیں کوئی مسلمان حکمران ہے تو وہ ان فرائض کو مسلمانوں پر زبردستی نافذ بھی نہیں کرسکتا ۔ عبادات کو ریاستی احکامات کے زور پر مسلط نہیں کیا جاسکتا۔یہ تو بندے اور اللہ کے مابین معاملہ ہے۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔

تاہم جہاں تک معاملات کا تعلق ہے تو وہ دوسرا مسئلہ ہے ۔معاملات کو چلانے اور کسی سماج میں رہنے والے انسانوں کے باہمی تعلقات کو منضبط کرنے کے لئے ریاست کا وجود ضروری ہے۔تاریخ کے مختلف ادوار اور مختلف خطوں میں ریاست کی شکل و صورت مختلف رہی ہے ۔کسی جاگیردارانہ سماج میں جمہوری ریاست کا قیام ممکن نہیں ہے۔قبائلی معاشرت میں کسی ایسی ریاست کا قیام جو جدید جمہوری اصولوں کی پیروی کرے ممکن نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن ریاست کی ساخت کی بجائے اس کی نوعیت پر ضرور دیتا ہے ۔ ریاست وحدانی ہو یا وفاقیت پر مبنی قرآن کو اس سے غرض نہیں ہے قرآن کی منشا ہے کہ ریاست عدل و انصاف ، برابری اور انسانی وقار کے اصولوں پر استوار ہو۔اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آج کے عہد میں صرف ایک جمہوری ریاست ہی قرآنی اصولوں کے مطابق سماج کی تشکیل ممکن بناسکتی ہے ۔

ایک جمہوری ریاست ہی میں انسان نہ صرف دنیاوی معاملات میں ترقی و خوشحالی کی منزل پاسکتے ہیں بلکہ روحانی بلندیوں کو چھو سکتے ہیں ۔قرآنی تعلیمات کے مطابق ایک اسلامی ریاست میں بسنے والے تمام نسلی ، لسانی ،مذہبی گروہوں کو مکمل اور مساوی حقوق صاصل ہونے چاہئیں۔ قرآن کے نزدیک نسلی ،قومیتی ،قبائلی اور لسانی فرق اللہ کی نشانیاں ہیں اور انسانوں کی شاخت کے لیے ہیں۔قرآن دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں اپنے عقائد کے مطابق اپنی زندگی گذارنے کی مکمل آزادی دیتا ہے ۔قرآن سماجی رنگا رنگی کو تسلیم کرتا ہے کیونکہ اللہ کی رضا یہی ہے ۔ آج کے عہد میں ایک جمہوری ریاست ہی اسلامی ریاست ہے ۔♦۔

ترجمہ : لیاقت علی ایڈووکیٹ

One Comment