پروفیسر محمد حسین چوہان
آزاد کشمیر جغرافیائی اعتبار سے تو ۱۹۴۷ میں آزاد ہو گیا تھا اور مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی تھی،مگر سیاسی ،سماجی اور معاشی سطح پر کشمیر کے عوم ابھی تک حقیقی آزادی اور جمہوریت کے ثمرات سے مستفید نہیں ہو سکے۔اس کی بنیادی وجہ سماجی اور حکومتی ادارے سیاسی مداخلت سے آزاد نہیں ہو سکے اور ر یاستی حکومت کبھی بھی ااپنے تمام فیصلے اپنی مرضی سے نہیں کر سکی وہ ہمیشہ پاکستان کے وفاق کی حاشیہ بردار بنی رہی۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی بے جا مداخلت نے جمہوری رویوں اور قدروں کو آزاد کشمیر میں پنپنے کا موقع فراہم نہیں کیا۔ریاستی اسمبلی اور کشمیری عوام کو اپنی شناخت اور داخلی خود مختاری کے سلسلے میں وفاق سے شکوہ و شکایات کا سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔مگر اس ساری صورتحال کے با وجود خطہء کشمیر کے عوام کا پاکستان سے جذ باتی لگاؤ اور محبت بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
پیپلز پارٹی پاکستان کی واحد بڑی سیاسی جماعت تھی جس کافکر و فلسفہ عوام کے مسائل کی صحیح معنوں میں ترجمانی کرتا تھااور ایک انقلابی تبدیلی کا دعوے دار تھا وہ بھی آخر کا رنا اہل بدعنوان اور کام چور قیادت کے ہاتھوں اپنی موت آپ مر گیا۔اگر پیپلز پارٹی کی قیادت کے قول و فعل میں تضاد نہ ہوتا تو کسی دوسری سیاسی جماعت کو پاکستان میں کبھی بھی سر اٹھانے کا موقع نہ ملتا۔
جہاں تک مسلم لیگ اور مسلم کانفرنس کا تعلق ہے۔ یہ ہمیشہ استحصالی سیاست اور جمودی نظریات کا پرچار کرتی رہیں،ایک مخصوص استحصالی طبقہ اور رویہ ان کے انداز سیاست میں غالب رہا کہ عوام دبے رہیں اور اشرافیہ حکومت کرتی رہے ۔معاشرتی تحرک جس میں عام شہری ترقی کر کے دوسری منزل معاشرہ پر پہنچ سکتا ہے کا مواقع انہوں نے عوام سے چھین لئے۔
جہاں تک مذہبی سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے ان کے درمیان ہمیشہ سے علم کی ایک وسیع خلیج حائل رہی،وہ معاشرتی ترقی کا کیا خواب دیکھتے اور کیا ڈیلیور کرتے۔فکر و فلسفہ معاشرتی عوامل پر براہ راست انداز ہوتے ہیں اور آزاد کشمیر کی سیاست ان اثرات سے متاثر ہوتی رہی۔معاشرتی ترقی،جمہوری رویے پروان نہیں چڑھ سکے ،محروم طبقات،ہنر مندافراد اور چھوٹی برادریوں کو احساس محرامی کا سامنا کرنا پڑا،آزاد کشمیر کی سیاست بالائی طبقات کے گھر کی لونڈی بنی رہی اور وہ بالائی طبقات اکثریتی برادری کے بطن سے جنم لیتے رہے ۔
اس طرح دقیا نوسی سیاست قبیلوں کی اجا رہ داری،جا ہل کھڑ پینچ ٹھیکیدار حکمرانوںں کے باہمی گٹھ جوڑ نے رشوت ،سفارش اقربا پروری اور برادری ازم کی سیاست کو فروغ دیا۔تھانوں اور پٹواریوں کی سیاست کو فروغ ملا،سماجی اور حکومتی اداروں میں سیاستدانوں کی بے جا مداخلت نے قانون اور جمہوریت کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ آزاد کشمیر کا چاہے وزیر ہو یا وزیر اعظم اس کا کام پٹواری یا تھانیدار کو سفارش کرنا ہوتا ہے۔
وزرا کی اکثریت نے عوامی فنڈز سے اپنے ذاتی کاروبار چلا رکھے ہیں اور پرائیویٹ کمپنیاں عزیز و اقارب کے ناموں پر درج کر رکھی ہیں جو مسلم لیگیوں کا مرغوب مشغلہ ہے،مگر اس سلسلے میں پیپلز پارٹی والے بھی کسی سے پیچھے نہیں،اسی بنا پر اسٹیٹس کو اورنام نہاد جمہوریت کو بچانے کے لئے یہ ہمیشہ اکھٹے ہو جاتے ہیں۔ کام کرنے کے لئے جب سفارش اور رشوت ضروری قرار پائیں تو وہاں نہ ہی ترقی پسند جمہوریت فروغ پا سکتی ہے اور نہ ہی لبرل ڈیمو کریسی کا خواب دیکھا جا سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے اندر کسی حد تک برائے نام محروم طبقات کا آدرش موجود ہے مگر مسلم لیگ خالصتاً ایک استحصالی اور سرمایہ دار جتھے کا دوسرا نام ہے۔جس سے شفافیت،عقلیت، انصاف،آزادی اوربے رحم احتساب کی توقع رکھنا دیوانے کا خو اب دیکھنے کے مترادف ہے۔بنیادی طور پر مسلم لیگ ن روایتی سیاستدانوں،جاگیرداروں اور اشرافیہ کے مفادات اور رجحانات کی علمبردار سیاسی جماعت ہے جو اب اس لبرل ڈیمو کریسی کے عہد میں آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔اور پیپلز پارٹی عہد شکنی اور سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے چوراہے پر آپنا منہ چھپائے کھڑی ہے ۔
۲۴ فروری کو کوٹلی کے مقام پر تحریک انصاف کے جلسے میں عوام کی شرکت نے نہ صرف کشمیر بلکہ یہاں بر طانیہ میں بھی دس لاکھ کشمیریوں کی آ نکھیں کھول دیں،لوگوں کو یقین نہیں تھا کہ کل کی الہڑ مٹیار چھوکری تحریک انصاف،، کشمیر کا میدان مار لے گی ۔لوگوںں کی تحریک انصاف میں دلچسپی کی ایک بڑی وجہ روایتی سیا ست دانوں سے نفرت کا ایک اظہار تھا کیونکہ کوٹلی میں روایتی جماعتیں اپنا زیادہ اثر و ر سوخ رکھتی ہیں اور ایک نئی سیاسی جماعت کا پہلی بار کامیاب جلسہ سیاسی تبدیلی کا پتہ دیتا ہے۔
سوشل میڈیا کی ترقی اور کشمیریوں کا برطانوی آ زاد جمہوریت و کلچر سے براہ راست تعامل نے انہیں تحریک انصاف کی طرف متوجہ کیا ہے۔ورنہ صوفیوں،جوگیوں اور فرسودہ روایتی سیاستدانوں کی سر زمین میں کسی نئی لبرل سیاسی جماعت کا پنپنا ایک دشوار گزار کام ہے کیونکہ لبرل ڈیمو کریسی کے لئے صنعتی ترقی کا ہونا ضروری ہے،ورنہ ایسے توہم پرست معاشروں میں فرسودہ نظریات کی حامل سیاسی جماعتیں ہی اپنا کام چلاتی رہتی ہیں۔
سوشل میڈیا کی ترقی نے عوام کو ایک دوسرے کے زیادہ قریب کر دیا ہے،نوجوان نسل کا روایتی سیاستدانوں سے اعتبار ا ٹھ چکا ہے، نئی تعلیم یا فتہ نسل اداروں کی آزادی کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔معاشرتی ترقی کے لئے تمام اختیارات عوام اور بلدیاتی نمائندوں کو دینا چاہتی ہے۔رشوت سفارش کے کلچر کو ختم کرنا چاہتی ہے ۔بالخصوص برطانیہ میں آباد کشمیری جن کے مال و جائیداد پر پیچھے ان کے نوکروں چاکروں اور چرواہوں نے قبضے جما رکھے ہیں اور وہاں کی حکومتیں ان کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہیں کی وجہ سے لوگ تحریک انصاف کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور، بہترین گورننس کا نمونہ اب انہیں خیبر پختون خواہ میں نظر آتا ہے۔
اور سب سے بڑی بات کی پاکستان اور کشمیر کی نئی پیڑی کے لوگ تحریک انصاف کے ر ہنما اور قیادت کی دیانتداری پر انداھا اعتماد کرتے ہیں،جو لبرل ڈیمو کریسی کا خا صہ ہے۔انفرادی آزادی اور شناخت کا سماجی ماحول جو لبرل ڈیمو کریسی میں عوام کو میسر ہوتا ہے اور گھٹن سے آزادی نصیب ہوتی ہے وہ اشرافیہ کے طرز حکومت میں نہیں ہوتی کیونکہ وہ آزادی صرف و صرف اپنے لئے رکھنا چاہتے ہیں۔
چئیر مین تحریک انصاف کی قیادت کشمیری عوام کے لئے ایک نعمت مترقبہ سے کم نہیں،نوجوان نسل اور بالخصوص خواتین جن کو سماجی بند ھنوں نے ترقی کے لئے ساز گار مواقع فراہم نہیں کئے ان کے لئے تحریک انصاف مساویانہ مواقع فراہم کرنے کو یقینی بناتی ہے۔انصاف ،آزادی،انفرادی نشونما،وڈیروں کے فرمانوں سے انحراف،بے رحم احتساب،روایتی سیاست کا خاتمہ،اداروں کی آزادی،پروٹوکول کلچر کا خاتمہ، باشعور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی شرکت سے طبقات کے درمیان حائل خلیج کا خاتمہ کر کے ایک منصفانہ نظام کا احیا چاہتی ہے جس سے طبقاتی شعور اور ترقی کی داغ بیل پڑے گی۔
موجودہ کشمیر کا سیاسی اور سماجی پس منظر اس سے بڑے کسی سیاسی فلسفے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اب لبرل ڈیمو کریسی سے ہی معاشرتی ترقی کا خواب پورا ہو سکتا ہے اور روایتی سیاست اور سیاستدانوں سے انقلابی سطح پر نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔کشمیریوں کے لئے اپنا مقدر اور مستقبل سنوارنے کے لئے تحریک انصاف سے بہتر اب کوئی سیاسی پلیٹ فارم نہیں۔
مگر کشمیر کی تحریک انصاف کی قیادت کو اپنے پرانے خول سے باہر نکلنا ہوگا،انتہائی ذمہ داری سے نوجوان نسل ،خواتین اور چھوٹی برادریوں کی سیاسی تربیت اورحوصلہ افزائی کے ذریعے ایک نئے ترقی یافتہ سیاسی کلچر کی داغ بیل ڈالنا ہو گی۔کیونکہ کشمیر میں ان مذ کورہ تین طبقوں کو ہمیشہ سے احساس بیگانگی کا شکار رکھا گیا اور ہنر مندوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا گیا۔
♣