سوال:۔
خدا پر یقین ایک اچھی زندگی کے لیے بہت مضبوط محرک ہے تم خدا کی نفی کیوں کرتے ہو؟تم انسان کا عقیدہ، خدا پر پھر سے مضبوط کیوں نہیں کرتے؟
کرشنا مورتی:۔
آئیں پہلے اس مسئلے کو پوری وسعت اور ذہانت کے ساتھ دیکھیں میں خدا کی نفی نہیں کر رہا ،ایسا کرنا احمقانہ ہو گا۔صرف وہی انسان جو حقیقت کو نہیں جانتا بے معنی الفاظ سے لطف اندوز ہوتا ہے۔اور جو کہتا ہے کہ وہ جانتا ہے،وہ نہیں جانتا اور جو انسان حقیقت کو لمحہ بہ لمحہ جانتا ہے وہ اس کے اظہار کے لیے کوئی ذریعہ نہیں رکھتا۔
عقیدہ سچائی کی نفی ہے۔عقیدہ سچائی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ خدا پر یقین کا مطلب خدا کو پانا نہیں ہے۔خدا پر یقین رکھنے والا اور نہ رکھنے والا دونوں خدا کو نہیں پائیں گے کیونکہ حقیقت نامعلوم ۔unknown۔ہے ۔اور نامعلوم کے متعلق تمہارا’’یقین‘‘ یا نا یقین‘‘ دونوں تمہاری اپنی خواہشات کے تابع ہیں،اس لیے یہ حقیقت نہیں ہیں۔میں جانتا ہوں تم ’’یقین ‘‘رکھتے ہو اور میں جانتا ہوں تمہاری زندگی میں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔بہت سے لوگ خدا پر یقین نہیں رکھتے ہیں، لاکھوں لوگ خدا پر یقین رکھتے ہیں اور خود کو پرسکون محسوس کرتے ہیں۔
تم یقین کیوں رکھتے ہو؟تم اس لیے یقین رکھتے ہو کیونکہ یہ تمہیں اطمینان سکون امید دیتا ہے اور تم کہتے ہو یہ زندگی کو اہمیت دیتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ تمہارا عقیدہ بہت کم اہمیت رکھتا ہے کیونکہ تم یقین رکھتے ہو اور استحصال کرتے ہو،تم یقین رکھتے ہو اور قتل کرتے ہو،تم ایک کائناتی خدا پر یقین رکھتے ہو اور ایک دوسرے کو قتل کرتے ہو۔امیر آدمی بھی خدا پر یقین رکھتا ہے اور بری طرح استحصال کرتا ہے۔دولت جمع کرتا ہے اور مسجد یں،مندر بناتا ہے۔ انسان جس نے ہیرو شماپر ایٹم بم گرایا تھا اس نے کہا تھا خدا اُس کے ساتھ تھا۔وہ جو انگلینڈ سے جرمنی کو جلا نے کے لیے اُڑے انہوں نے کہا تھا خدا اُن کے ساتھ دوسرا پائلٹ (کو پائلٹ ) تھا۔یہ ڈکٹیٹرز، وزیر، جنرل ،صدر تمام خدا کی باتیں کرتے ہیں۔یہ سب خدا پر گہرا یقین رکھتے ہیں۔کیا یہ کوئی خدمت کر رہے ہیں۔ان کی زندگی کو بہتر بنا رہے ہیں ؟
وہ لوگ جو خدا پر یقین رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔انہوں نے آدھی دنیا تباہ کر دی اور دنیا مکمل طور پر دکھ کی کیفیت میں ہے۔مذہبی عدم برداشت کی وجہ سے لوگ یقین رکھنے والوں اور نا یقین رکھنے والوں میں تقسیم ہیں اور مذہبی جنگیں ہو رہی ہیں۔کیا خدا پر یقین ایک بہتر زندگی کے لیے طاقتور محرک ہے؟تم بہتر زندگی کے لیے ایک ’’محرک ‘‘ چاہتے ہو؟ یقیناًتمہاارا محرک تمہاری اپنی ہی خواہش کا اظہار ہے،ایک صاف اور سادہ زندگی کے لیے۔اگر تم ’’محرک‘‘ کو دیکھو ،تم زندگی کو بہتر بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہو،تم صرف اپنے’’محرک‘‘ میں دلچسپی رکھتے ہو،جو کہ میرے محرک سے مختلف ہے اور ہم اس ’’محرک‘‘ پہ جھگڑا کریں گے۔
اگر ہم اس لیے اکٹھے خوشی سے نہیں رہتے کہ ہم خدا پہ یقین رکھتے ہیں بلکہ اس لیے کہ ہم انسان ہیں تب ہم تمام ذرائع پیداوار کو سب کے لیے اشیاء پیدا کرنے کے لیے وقف کر دیں گے۔کم ذہانت ہونے کی وجہ سے ہم ایک’’سپر ذہانت‘‘ کا نظریہ قبول کر لیتے ہیں اور اُسے خدا کہتے ہیں۔لیکن یہ خدا ،یہ ’’سپر ذہانت‘‘ ہمیں بہتر زندگی نہیں دے گی۔ایک اچھی زندگی کی طرف ذہانت راہنمائی کرتی ہے اور اگر عقیدہ ہو گاتو ذہانت نہیں ہو گی۔
اگر معاشرے میں طبقے ہوں گے اگر ذرائع پیداوار صرف چند ہاتھوں میں ہوں گے۔اگر انسان قوموں اور حکومتوں میں تقسیم ہو گا۔واضح طور پر یہ صورت حال ذہانت کی کمی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور ذہانت کی کمی بہتر زندگی سے دور رکھتی ہے،نہ کہ خدا پہ یقین نہ ہونا۔
تم مختلف طریقوں سے یقین رکھ سکتے ہو،لیکن تمہارا عقیدہ خواہ کچھ بھی ہو،اُس کی کوئی حقیقت نہیں ہے،حقیقت وہی ہے جو تم ہو،جو تم کرتے ہو،جو تم سوچتے ہو اور تمہارا خدا پر یقین صرف اس سخت ظالمانہ،احمقانہ زندگی سے ضرور ہے۔ مزید برآں،عقیدہ انسانوں کو کئی طرح سے تقسیم کرتا ہے۔ یہاں پہ ہندو ہیں، بدھسٹ ہیں،کرسچین ہیں،مسلم ہیں، کمیونسٹ ہیں، سوشلسٹ ہیں، سرمایہ دار ہیں وغیرہ وغیرہ۔
عقیدہ،نظریہ تقسیم کرتا ہے یہ انسانوں کو اکٹھا نہیں کرتا ۔تم ممکن ہے چند انسانوں کو ایک گروپ میں اکٹھا کر لو لیکن اس گروپ کی دوسرا گروپ مخالفت کرے گا۔عقیدے اور نظریے وحدت پیدا نہیں کر سکتے ۔بلکہ یہ علیحدہ کرتے ہیں،تباہ کرتے ہیں اس لیے تمہارا خدا پر یقین دنیا میں دُکھ کو بڑھا رہا ہے،ممکن ہے اس سے وقتی طور پر تمہیں سکون ملتا ہو۔حقیقتاً یہ جنگوں طبقاتی تقسیم اور کچھ افراد کے افعال کے ذریعے زیادہ دُکھ اور تباہی لایا ہے۔ اس لیے تمہارے عقیدے کی کوئی اہمیت نہیں۔اگر تم حقیقتاً خدا پر یقین رکھتے ہو،اگر تم حقیقتاً اس کا تجربہ رکھتے ہوتے تمہارے چہرے پہ مسکراہٹ ہوتی،تم انسانوں کو تباہ نہ کر رہے ہوتے۔
اب حقیقت یعنی ریلیٹی کیا ہے ،خدا کیا ہے؟خدا لفظ نہیں ہے لفظ کوئی چیز نہیں ہوتا ،اُس کو جاننا جو لامحدود،جو وقت سے ماوراء ہے۔ذہن کو وقت سے آزاد ہونا چاہیے۔جس کا مطلب ہے ذہن کو تمام قسم کے خیالات خد ا سے متعلق تمام قسم کے نظریات سے آزاد ہونا چاہیے۔تم خدایا ٹرتھ کے متعلق کیا جانتے ہو؟تم حقیقتاً حقیقت کے متعلق کچھ نہیں جانتے تم جو کچھ جانتے ہو،وہ الفاظ ہیں،دوسروں کے تجربات اور کچھ تمہارے اپنے مبہم تجربات ہیں یقیناًیہ خدا نہیں ہیں،یہ حقیقت نہیں ہیں،یہ وقت سے ماوراء نہیں ہیں۔وقت سے ماوراء کو جاننے کے لیے وقت کے پروسس کو وقت کو بطور خیالات ،جمع شدہ علم کو سمجھنا ہو گا۔یہی ذہن کا بیک گراؤنڈ ہے ،ذہن شعور لاشعور،اجتماعی اور انفرادی خود ہی پس منظر ہے۔اس لیے ذہن کو معلوم سے آزاد ہونا چاہیے۔جس کا مطلب ہے ذہن کو مکمل طور پر خود خاموش ہونا چاہیے،نہ کہ خاموش کرنا چاہیے۔
ذہن جو کسی ایکشن ڈسپلن کے ذریعے خاموش ہوتا ہے وہ خاموش نہیں ہوتا، ذہن جو طاقت کے ذریعے کنٹرول کے ذریعے خاموش ہوتا ہے وہ خاموش نہیں ہوتا۔ممکن ہے تم کچھ عرصے کے لیے طاقت کے ذریعے ذہن کو خاموش کر لو،مگر ایسا ذہن خاموش نہیں ہوتا ۔خاموشی اُس وقت ہوتی ہے جب تم خیالات کے تمام عمل کو سمجھ جاتے ہو کیونکہ عمل کو سمجھ جانا ہی اس کا خاتمہ ہے اور خیالات کے عمل کا ختم ہونا ہی خاموشی کا آغاز ہے۔
جب ذہن مکمل طور پر خاموش ہو سطحی طور پر نہیں بلکہ بنیادی طور پر سطح پر بھی لاشعور کی گہرائیوں میں بھی صرف تب نامعلوم کا تجربہ ہوتا ہے ،نامعلوم‘‘ کچھ ایسا نہیں جس کا ذہن تجربہ کرتا ہے،خاموشی کا تجربہ ہوتا ہے کچھ نہیں صرف خاموشی اگر ذہن خاموشی کے علاوہ کچھ تجربہ کرتا ہے ،وہ محض اپنی خواہشات کے تابع ہے اور ایسا ذہن خاموش نہیں ہوتا۔جب تک ذہن خاموش نہ ہو،جب تک کسی بھی شکل میں خیالات شعوری طور پر یا لا شعوری طور پر حرکت میں ہوں تب تک خاموشی نہیں ہو سکتی۔
خاموشی، ماضی،علم، شعوری اور لاشعوری یاداشت سے آزادی ہے۔جب ذہن مکمل طور پر پرسکون ہو ، استعمال میں نہ ہو جب خاموشی کسی کوشش کا نتیجہ نہ ہو تب صرف وقت سے ماوراء ابدی لافانی ہونے کا احساس یا تجربہ ہوتا ہے۔یہ کیفیت یاد کرنے والی نہیں ہوتی ہمارے اندر کچھ ایسا نہیں ہوتا ہے جو ان تجربات کو یاد رکھ سکے۔
اس لیے گاڈ یاٹرتھ وہ چیز ہے جو لمحہ بہ لمحہ محسوس ہوتی ہے اور یہ صرف آزادی اور بیساختگی کی کیفیت میں ہوتا ہے ،نہ کہ جب ذہن کو خاص ڈسپلن سکھایا گیا ہو۔خدا ذہن کی پراڈکٹ نہیں ہے،یہ تمہاری خواہشات کا اظہار نہیں ہے یہ صرف اُس وقت ہوتا ہے جب نیکی ہو جو کہ آزادی ہے۔نیکی کیا ہے کا سامنا کرنا اور حقائق کا سامنا کرنا جب ذہن سکون کی کیفیت میں ہو،خاموش ہو اپنے اندر کسی حرکت کے بغیر خیالات کے تابع نہ ہو،شعوری یا لاشوری طور پر تب لافانی اور ابدی ہونا کا تجربہ ہوتا ہے۔
♦
جے کرشنا مورتی 1895-1986 ایک معروف لکھاری تھے۔ بنیاد ی فلسفہ، روحانیات ،عبادت، انسانی تعلقات اور معاشرے میں کیسے تبدیلی لائی جائے ان کے اہم موضوعات تھے۔ انھوں نے جنوبی ایشیاء سمیت یورپ اور امریکی یونیورسٹیوں اور اداروں میں لیکچرز دیئے۔1984 میں انھوں نے اقوام متحدہ میں لیکچر دیا اور انھیں اقوام متحدہ کی طرف سے امن کا انعام دیا گیا۔
کرشنا مورتی ضلع چتوڑ ، اندھرا پردیش کے ایک قصبے مدنا پالے میں پیدا ہوئے ان کا تعلق تیلگو بولنے والے برہمن خاندان سے تھا ۔ 1909میں مدراس کی تھیوسوفیکل سوسائٹی میں چلے گئے جہاں سی ڈبلیولیڈ بیٹر اور اینی بیسنت ان کے اساتذہ میں شامل تھے۔وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے ان کی اہم کتابوں میں
The First and Last Freedom ، The Only Revolution ، Krishnamurit’s Note Book
شامل ہیں۔
One Comment