بیرسٹر حمید باشانی
آپ میرے خلاف جھوٹ بولنا چھوڑ دیں۔میں آپ کے خلاف سچ بولنا چھوڑ دوں گا۔یہ الفاظ تھے پاکستان کے ایک ممتاز سیاست دان خان عبدلو لی خان کے جو انہوں نے پاکستان کی قومی اسمبلی میں پاکستان کے ایک اور ممتاز سیاست دان ذولفقار علی بھٹو کی تقریر کے جواب میں کہے تھے۔
آج کسی کو یقین نہیں آتا۔ مگر یہ بھی پاکستان کی ہی ایک قومی اسمبلی تھی۔اس اسمبلی میں قائد حزب اقتدار بھٹو جیسا نابغہ روزگار شخص تھا۔اور قائد حزب اختلاف ولی خان جیسا ایک دیومالائی کردار۔آدمی جتنا بڑا ہوتا ہے، غلطی بھی وہ اتنی ہی بڑی کرتا ہے۔ذولفقار علی بھٹو نے بھی ہمالیہ سے بھی بڑی غلطیاں کیں۔قومی اسمبلی میں اتنے فیصلہ کن عہدوں پر بیٹھے ہوئے یہ دو لوگ اگر اس حقیقت کا دراک کر لیتے کہ تاریخ نے ان دونوں کو ایک نادر و نایاب موقع عطا کر دیا ہے۔اور وہ دونوں ایک ایسے مقام پے بیٹھے ہیں کہ وہ نا صرف پاکستان کے عوام بلکہ پورے جنوبی ایشا کا مقدر بدل سکتے ہیں۔
اگر وہ دیکھ لیتے کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ موقع کسی کو اس سے پہلے نہ مل سکا، حتی ٰ کہ خود بانی پاکستان حضرت محمد علی جناح کو بھی نہیں۔اور اگر وہ اس بات کا ادراک کر لیتے کہ پاکستان کی آنے والی نسلیں کسی معلوم وقت تک پھر کبھی ایسا کوئی موقع نہ پا سکیں گی۔اگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھ لیتے کہ ان کے ارد گرد کتنی بھوکی اور خوفناک گدھیں منڈلا رہی ہیں۔اور اگر یہ دو دانش مند انسان یہ دیکھ سکتے کہ پاکستان اپنی تاریخ کے ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکا ہے۔
پہلے آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں یہاں کے عوام نے اپنی قسمت کی ڈور ان دو آدمیوں کو تھما دی ہے۔یہ ایک حیرت انگیز انتخاب تھا۔ یہ دونوں آدمی مسلمہ حد تک سیکولر تھے۔دونوں سوشلسٹ تھے۔دونوں ترقی پسند تھے۔دونوں تاریخ کا گہرا شعور رکھتے تھے۔اور دونوں سامراج دشمن تھے۔اگر ان کو اس بات کا علم ہوتا کہ وہ اس قبیل کے آخری لوگ ہیں جو اتنا واضح منڈیٹ لے کر یہاں بیٹھے ہیں۔اور شاید تاریخ میں پھر کبھی کسی کو اس طرح کا موقع کبھی نہ مل سکے۔
یہ دونوں اپنے نظریات اور خیالات کے مطابق پاکستان میں ایک منصفانہ سماج قائم کر سکتے تھے۔غربت اور طبقاتی تقسیم کو کم کر سکتے تھے۔بھارت اور افغانستان کے ساتھ تمام تنازعات بشمول مسٗلہ کشمیر حل کر کے پورے خطے کو امن اور ترقی کی راہ پرڈال سکتے تھے۔اگر ان کو اس بات کا ذرہ بھی اندازہ ہو سکتا کہ آنے والا کل اپنے دامن میں ان کے لیے کیا چھپائے بیٹھا ہے تو کیا وہ اپس میں اس طرح لڑتے کہ پوری بساط ہی سمیٹ لیتے۔کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ جن لوگوں سے انہوں نے اقتدار چھینا ہے وہ اس ملک پر حکمرانی اور اس کے وسائل لوٹنے کے عادی ہو چکے ہیں۔
یہ جب اپنے زخم چاٹنے سے فارغ ہوں گے تو پھر پلٹ کر حملہ کریں گے۔پھر جب وہ زخم چاٹ چکے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔پاکستان کی پہلی بڑی منتخب پارٹی، اور دوسری بڑی پارٹی، دونوں انٹی اسٹبلشمنٹ، دونوں سیکولر اور دونوں سوشلسٹ۔یہ مولوی ااور ملٹری اور اسٹبلشمنٹ کا ڈروانہ خواب تھا۔ان لوگوں ن کے لیے توقائد اعظم کے نظریات نا قابل قبول تھے۔حالانکہ وہ محض ایک لبرل آدمی تھے۔تو وہ ذولفقار علی بھٹو اور ولی خان کو کیسے برداشت کر لیتے۔
چنانچہ انہوں نے وہ کھیل شروع کیا جس کے وہ پرانے کھلاڑی اور عادی تھے۔ابتدا اکبر بگٹی سے کروائی گئی۔انہوں نے موچی دروازے میں جلسہ عام میں کہا کہ مینگل اور ولی خان نے آزاد بلوچستان کی سازش تیار کی ہے۔بھٹو اس ٹریپ میں آگئے۔انہوں نے میگل حکومت کو برطرف کر کہ ایسے اقدامات کیے جو بعد ازاں بلوچستان میں فوج کشی اور حیدرآباد سازش کیس پر منتج ہوئے۔یہ بھٹو کی سیاسی زندگی کی شاید سب سے بڑی غلطی تھی۔انہوں نے اپنے پیشرو روایتی آمروں کی طرح ملک کی ایک ایسی منتخب شدہ قوت کے خلاف ریاستی طاقت استعمال کی جو ان کی اصل اور بڑی لڑائی میں ان کی طاقت وراتحادی اور قیمتی اثاثہ ثابت ہو سکتی تھی۔
حیدرآباد سازش کیس میں پچاس سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ یہ سب سکہ بند قسم کے ترقی پسند اور روشن خیال لوگ تھے۔ان میں نیپ کے علاوہ پیپلز پارٹی کے وہ لوگ بھی شامل تھے جن سے بھٹو صاحب ناراض تھے۔اس سارے قضیے کا بنیادی کردار اس وقت کا وزیر داخلہ خان عبدلقیوم خان تھا۔اس شخص کے شروع سے ہی پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ گہرے تعلقات تھے۔اکتوبر انیس سو سنتالیس میں کشمیر کے اندر قبائلی مداخلت میں ان کا صاحب کا کلیدی کردار تھا۔یہ اس وقت صوبہ سرحد کے گورنر تھے اور انہوں نے کرنل اکبر اور شیر وغیرہ سے مل کر قبائلی جتھے کشمیر میں داخل کیے تھے۔
حیدرآباد سازش کیس اور بلوچستان میں فوج کشی کے تمام اقدامات میں ان کو فوج کا مکمل تعاون حاصل تھا جس میں اس نے بھٹو صاحب کو استعمال کیا۔بھٹو صاحب نے جب تلافی کی کوشش کی تو جنرل ضیا نے اس کی مخالفت کی۔حالانکہ بعد میں یہی کام اس نے خود کیا اور حیدرآباد جیل میں جا کر ولی خان سے ملاقات کی۔اگر بھٹو اور ولی خان کو اس بات کا ذرہ سا بھی اندازہ ہوتا کہ مستقبل میں ان کے ساتھ کیا ہونے ولا ہے تو شاید آج پاکستان ایک ترقی پسند اور روشن خیال ملک ہوتا۔تاریخ کے یہ دونوں لیجنڈری کردار رجعت پسند اور بنیاد پرست قوتوں کے ہاتھوں بڑے دردناک انجام کا شکار ہوئے۔
ذولفقار علی بھٹو جسمانی طور پر سولی چڑھائے گئے۔اور ولی خان سیاسی طور پر جب وہ حسن جان جیسے طالبان مولوی کے ہاتھوں اپنے حلقے سے اپنی زندگی کا اخری انتخابی معرکہ ہار گئے۔ان دونوں کی موت ایک طرح سے بائیں بازو کی موت تھی۔ان کے بعد آج تک بائیں بازو کو اس قد کاٹھ کا لیڈر نہیں مل سکا۔