سبط حسن
(سابق یوگوسلاویہ کے افسانہ نگار میلون جیلاس کی کہانی)
کئی مہینوں کی لڑائی کے بعد، دشمن نے دریا کے مغربی کنارے کے پار اپنے مورچے بنالئے۔ اس مغربی علاقے میں وہ لوگ بھی آباد تھے، جو اپنے آپ کو دشمن کی موجودگی میں محفوظ نہ سمجھتے تھے۔ ان کی چھوٹی چھوٹی کھیتیاں اور باغ دریا کے مشرق کی طرف تھے۔ ان کی دیکھ بھال کے لئے وہ ہر روز یہاں چلے آتے۔ کچھ لوگ مشرق کی طرف رہنے والے اپنے عزیزوں کے پاس چلے آئے۔
ایک صبح کا ذکر ہے، بہت سے لوگ دریا کے مشرقی کنارے کی طرف جانے کے لئے دریا کے گھاٹ پر بیٹھے تھے۔ جنگ کی وجہ سے کشتیوں کی کمی تھی۔ زیادہ تر کشتیاں دونوں طرف سے فوجیوں نے لے لی تھیں۔ صرف ایک کشتی مسافروں کو دریا پر آنے جانے کے لئے موجود تھی۔ آج یہ کشتی بھی فوجی سامان کو لے کر مشرقی گھاٹ کی طرف گئی ہوئی تھی۔ اس کی واپسی کے انتظار میں لوگ تھک رہا کے جھاڑیوں اور چھوٹے چھوٹے درختوں کے نیچے بیٹھ گئے تھے۔
لوگوں کے ہجوم سے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایک عورت کے بین کرنے کی آواز سنائی دیتی۔ اس آواز میں کبھی ایک مردانہ آواز بھی شامل ہوجاتی۔ یہ آواز یہاں کے لوگوں او رگھاٹ پر موجود فوجیوں کے لئے کوئی نئی نہ تھی۔ گذشتہ کئی سالوں کی لڑائی کے دوران بے شمار انسانوں کی موت ہوئی۔ ان میں زیادہ تر نوجوان تھے۔ کوئی گھر ایسا نہ بچا تھا، جس کا بیٹا یا باپ مارا نہ گیا ہو۔ کشتی کو واپس آتے او رلوگوں کے سوار ہونے تک، خدشہ تھا کہ سورج کافی بلند ہوجائے گا۔ یہ وقت دشمنوں کے طیاروں کی مقامی آبادی پر بمباری کے لئے بہت موزوں تھا۔ طیارے بہت نیچی پرواز کرتے او رکھیتوں میں کام کرتے کسانوں او رکشتی میں سوار مسافروں کو بھی نہ بخشتے۔
کشتی واپس مغربی گھاٹ پر آگئی۔ اس پر ایک فوجی جیپ او راسلحہ تھا۔ کشتی رکتے ہی فوجی جیب پر اسلحہ رکھا گیا او رجیپ کسی نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگئی۔ کشتی کے ملاح کے برابر ایک فوجی حوالدار بیٹھا تھا۔ گھاٹ پر موجود، کیپٹن نے سو مسافروں کو مشرقی گھاٹ کی طرف لے جانے کا حکم دیا۔ حکم سنتے ہی لوگ کشتی پر سوار ہونے لگے۔ اس وقت اچھی خاصی روشنی ہوچکی تھی مگر پہاڑ کی سمت سے گہرے بادل اٹھے او ردریا کے اوپر چھاگئے۔ بادلوں نے گھاٹ کو پوری طرح چھپالیا۔ اب دشمن کے جہازوں کے حملے کا کوئی خطرہ نہ رہا۔
بین کرنے کی آوازیں، جو کچھ دیر کے لئے رک گئی تھیں، اچانک پھر سے بلند ہونے لگیں۔ کسانوں کا ایک ہجوم کشتی پر سوار ہونے کے لئے کوشش کررہا تھا۔ کشتی بہت بڑی تھی او راس کو چپوؤں کی بجائے موٹر سے چلایا جاتا تھا۔ کسانوں کے ہجوم میں عورتیں، مرد او ران کے ڈھورڈنگر بھی شامل تھے۔ اس ہجوم میں ایک ادھیڑعمر کسان او راس کی بیوی کافی نمایاں تھے۔ یہ دونوں وہی تھے جو صبح سے بین کررہے تھے۔ کسان کا قد لمبا اور جسم دبلا تھا۔ اس کی داڑھی کافی لمبی اور گھنی تھی۔ اس نے صاف ستھرا لباس پہن رکھا تھا۔ اس نے گھوڑے کی لگام تھام رکھی تھی۔ گھوڑا ایک چھوٹے سے چھکڑے کے ساتھ جتا ہوا تھا۔ کسان کی خواہش تھی کہ کشتی پر اس گھوڑا گاڑی کو لادکردریا کے اس پار لگادیا جائے۔
ایک کپتان لوگوں کو قطار میں کشتی پر سوار کررہا تھا۔ کسان نے اس کے سامنے بڑے اداس لہجے میں گھوڑا گاڑی کو دریا کے اس پارلے جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اداسی کی وجہ گھوڑا گاڑی پر رکھاتابوت تھا۔ یہ تابوت بالکل نیا تھا۔ تابوت کے ساتھ کسان کی ادھیڑ عمر بیوی، سراور منہ لپیٹے بیٹھی تھی۔ اس نے اپنا بازوتابوت کے اوپر رکھا ہوا تھا جیسے کہ اسے خوف ہوکہ کوئی اس سے تابوت نہ چھین لے۔ عورت کچھ دیر کے بعد بین کرنا شروع کردیتی او ربین کرتے ہوئے اپنا ہاتھ آہستہ آہستہ تابوت پر پھیرنے لگتی:’’بیٹے، میرے دکھ کے اس بوجھ کو کم کرنے میں میری مدد کرو۔‘‘ کسان نے کیپٹن سے کہا۔ عورت نے جب اپنے خاوند کو کیپٹن سے بات کرتے دیکھا تو اس نے پھرسے بین شروع کردیے۔ چادر کے پلوکے ساتھ اپنی آنکھوں کے کونوں کو خشک کیا۔
کیپٹن نے ہمدردی میں سرہلایا۔ وہ اونچی آواز میں سب لوگوں کو قطار بنانے کے لئے کہہ رہا تھا۔ کسان آہستہ آہستہ گھوڑا گاڑی کو کشتی کے قریب لانے کی کوشش کررہا تھا۔ کیپٹن نے نرمی سے کہا:
’’چچا، یہ کام آپ مجھ پر چھوڑ دو۔ مجھے گھوڑوں کو سنبھالنے کا طریقہ آتا ہے۔۔۔ میں انہی گھوڑوں کے درمیان ہی پلا بڑھا ہوں۔۔۔!‘‘
کیپٹن نے گھوڑے کی باگیں کسان کے ہاتھ سے پکڑیں، اونچی آواز میں لوگوں کو گھوڑا گاڑی کے لئے جگہ بنانے کہا اور نہایت تیزی کے ساتھ گھوڑا گاڑی کشتی کے اوپر لے آیا۔ کسان نے کیپٹن کا شکریہ ادا کیا۔ کیپٹن نے باگیں کسان کے سپرد کیں اور ساتھ ہی پوچھا:
’’چچا، اس تابوت میں تمہارا کون ہے۔۔۔؟‘‘
’’کیا بتاؤں ، بیٹا،‘‘ کسان نے دکھ بھرے لہجے میں کہا’’پہلے اس جنگ نے میرے دو بیٹے کھالئے۔ یہی ایک رہ گیا تھا، بڑھاپے کا سہارا، سووہ بھی چلتا بنا۔۔۔ موت او ریہ جنگ کس قدر ظالم ہیں۔۔۔‘‘
’’جنگ زیادہ تر جوانوں کا خون ہی پسند کرتی ہے۔۔۔ ابھی نجانے کتنی ماؤں کی گود اجڑنی باقی ہیں۔۔۔‘‘ کیپٹن نے کہا اور اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
کسان کے سامنے ایک شخص بڑے غور سے گھوڑا گاڑی پر رکھے تابوت کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے کسان سے مخاطب ہوکر کہا:
’’کیا تم اپنے بیٹے کی لاش محاذ سے لائے ہو؟‘‘
کسان نے سوال پوچھنے والی آدمی کی طرف غور سے دیکھا اور گہری سانس لے کر کہا:
’’ہاں، دو روز پہلے میں محاذ پر اپنے بیٹے سے ملنے گیا تھا۔ میں اس کے لئے صاف کپڑے، کھانا او رسگریٹ وغیرہ ساتھ لے گیا تھا۔‘‘
اسی دوران وہ کچھ دیر کے لئے رکا۔ اس کی بیوی اچانک پھوٹ پھوٹ کررونے لگی۔ کسان نے نظریں اپنی بیوی پر جمارکھی تھیں۔ اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
’’جب میں محاذ پر پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرا اکلوتا بیٹا۔۔۔ جس کی عمر صرف بیس برس تھی، سر میں گولی لگنے سے مارا گیا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے کسان کی آواز ڈوب گئی او راس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔’’ہمارا آخری سہارا بھی چلا گیا۔‘‘
کشتی پر سب لوگ چپ چاپ اپنے اپنے خیالوں میں گم بیٹھے تھے۔ ماحول میں اداسی سی تھی۔ صرف کشتی کو چلانے والی موٹر کی پھٹ پھٹ اور پانی کی آواز آرہی تھی۔’’ہم بوڑھے، کسی کو کیا بتائیں کی ہم لٹ گئے ہیں۔۔۔ یہ جنگ۔۔۔‘‘ کسان نے آنکھوں کو اپنی ہتھیلی کی پشت سے ملتے ہوئے کہا۔
’’میرا بیٹا بھی ایک ماہ پہلے مارا گیا تھا۔ میں اسے واپس نہیں لایا تھا۔ میں نے اسے اس کے ساتھیوں کے پہلو میں ہی دفن کردیا تھا۔ فوجیوں کا یہی طریقہ ہے۔۔۔ محاذ پرتابوت بھی تو نہیں ملتا۔ تم کو نجانے کہاں سے تابوت مل گیا۔۔۔؟‘‘ سوال کرنے والے شخص نے کہا۔ کسان نے یہ بات نہ سنی کیونکہ وہ اپنے پہلو میں بیٹھے ایک دوسرے شخص سے گفتگو کررہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا:
’’مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ میں تابوت لے کر کہاں جاؤں گا۔ اُدھر ہمارے دوست ہیں، سوچا ہے، انہی کے قبرستان میں اسے دفن کردیں گے۔‘‘
اسی دوران کشتی دریا کے مشرقی کنارے پر آپہنچی۔ لوگ اترنے کے لئے بے تاب ہورہے تھے۔ کیپٹن، سب سے پہلے گھوڑا گاڑی کے پاس آیا اور گھوڑے کی باگیں پکڑ کر اسے زمین پر لے آیا۔ کشتی سے اترنے والے سب لوگ ایک قطار میں کھڑے ہوگئے۔ گھاٹ پر ایک میجر، ایک میز کے سامنے بیٹھا تھا۔ کشتی سے اترنے والے ہر مسافر کو اپنے اجازت نامے اور ضروری شناختی کاغذات میجر کو دکھانے تھے۔ کیپٹن تابوت کے احترام کے لئے، گھوڑا گاڑی کو میجر کی میز کے برابر کچے راستے پر لے آیا۔
’’اس میں کیا ہے؟‘‘ میجر نے پوچھا۔
’’میرا جوان بیٹا، جوجنگ میں مرگیا، اس کی لاش ہے۔‘‘ کسان نے کہا۔
’’اوہ، کتنی عمر تھی، اس کی؟‘‘ میجرنے پوچھا۔
’’بس ابھی جوان ہوا تھا۔‘‘ کسان نے کہا۔
’’مجھے سخت افسوس ہے کہ آپ کا بیٹا۔۔۔(سپاہیوں سے مخاطب ہوکر) تابوت کو کھولو۔۔۔ جنگ کے زمانے میں۔۔۔ پڑتال تو کرنا ہوگی۔ کہیں اسلحہ وغیرہ نہ ہو۔۔۔‘‘ میجر نے کہا۔
’’میجر صاحب، دیکھئے، ہم غمزدہ لوگ ہیں، ہم نے پہلے بھی دو بیٹے جنگ میں قربان کردیے۔۔۔ آپ کو ہم پر شبہ نہیں کرنا چاہئے۔۔۔‘‘
’’یہ بات نہیں، ہم تابوت کی صرف ایک تختی کھول کرتسلی کرلیں۔۔۔ یہ ہماری ڈیوٹی ہے۔۔۔ اس میں آخر آپ کا ہی بھلا ہے۔۔۔ آپ کو پتہ ہے کہ دشمن کس طرح کے حربے اختیار کرکے ہمارا نقصان کرتا ہے۔۔۔‘‘ میجر نے نرمی سے کہا۔
سپاہیوں نے تیزی سے تابوت کو نیچے اتارا۔ کسان کی بیوی یہ دیکھ کر بہت برُے طریقے سے رونے لگی۔ کسان نے پھر میجر کی منت سماجت شروع کردی او راسے تابوت کھولنے سے باز رکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ میجر نے کسان کی باتوں پر کوئی توجہ نہ دی اور لوگوں کے کاغذات کی پڑتال میں مصروف رہا۔
سپاہیوں نے سر کی طرف سے تابوت کی ایک تختی اکھیڑدی۔ اسے تابوت سے ہٹایا گیا۔۔۔ سب سپاہی، کیپٹن او رمیجر یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ تابوت کے اندر کوئی لاش نہیں بلکہ ایک جیتا جاگتا، زندہ نوجوان لیٹا ہوا تھا۔
سب لوگ کچھ لمحوں کے لئے اپنی اپنی جگہ حیرت سے کھڑے رہے۔ تابوت کے اندر نوجوان کا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ اس کے سنہری بال بھیگ کر اس کے ماتھے سے چپک گئے تھے۔ وہ انیس بیس برس کا سرخ وسفید اور خوبصورت نوجوان تھا۔ تابوت میں روشنی کے داخل ہوتے ہی اس نے اپنی سبز آنکھیں بند کرلیں۔ میجر او رکیپٹن کو دیکھ کر اس نے اٹھنے کی کوشش کی او رشرمساری سے مسکرایا۔
میجر نے بڑے غصے میں کسان او راس کی بیوی کی طرف دیکھا او رکہنے لگا:
’’یہی ہے وہ تمہارا سپاہی بیٹا؟‘‘
’’ہاں۔۔۔!‘‘ کسان نے سرہلایا۔
’’یہ میرا واحد بیٹا ہے، جو جنگ کی ہلاکتوں سے بچ گیا ہے۔ میرے دونوجوان بیٹے پہلے ہی جنگ میں مارے جاچکے ہیں۔۔۔‘‘
’’بھگوڑا۔۔۔!‘‘ میجر نے اپنے جبڑے کستے ہوئے کہا۔
’’نہیں ، میں اسے مرنے نہیں دوں گا۔۔۔ یہی ہمارے بڑھاپے کا سہارا ہے۔۔۔ اسی سے ہماری نسل آگے بڑھنی ہے۔۔۔!‘‘ کسان نے بڑی اونچی آواز میں بڑے یقین سے کہا۔
اسی دوران بہت سے مسافر تابوت کے اردگرد اکٹھے ہوگئے۔ میجر نے سپاہیوں کو کہا کہ وہ انہیں پیچھے ہٹادیں۔ ماں تابوت کے پاس کھسک آئی اور جھک کر اپنے نوجوان بیٹے کی پیشانی سے پسینہ پونچھنے لگی۔ وہ اس کا حوصلہ بڑھا رہی تھی۔
’’میرے بچے، تو مت ڈر، میجر بہت مہربان ہے، وہ ہم میں سے ہے۔۔۔ ہمارا دشمن تو نہیں۔۔۔ وہ ہمیں جانے دے گا۔۔۔!‘‘
حوصلہ پاکر نوجوان تابوت میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ میجر نے اسے دوبارہ لیٹنے کا اشارہ کیا تو وہ گھبرا کر لیٹ گیا۔ میجر نے دائیں طرف کھڑے کیپٹن کی طرف دیکھ کر کہا:
’’اپنا فرض ادا کرو۔۔۔!‘‘
کیپٹن نے پھرتی سے اپنا پستول نکالا۔ اسی دوران دو سپاہی آگے آئے او رانہوں نے نوجوان کے باپ اور ماں کو تابوت سے الگ کرکے، دورلے جاکر کھڑا کردیا۔
کیپٹن نے جھک کر پستول کی نالی نوجوان کے دل پر رکھی او رگولی چلادی۔
سب کچھ اتنی جلدی میں ہوگیا کہ ماں باپ کو کچھ سمجھ ہی نہ آئی۔ تابوت میں لیٹے نوجوان کو اس وقت معلوم ہوا جب گولی اس کے دل سے گزرچکی تھی۔ اس کے حلق سے ایک بھیانک سی چیخ نکلی ۔ اس کا جسم کمان کی طرح اوپر اٹھا، بازواو رٹانگیں تڑپ تڑپ کر تابوت سے ٹکرائے او رپھر خاموش ہوگیا۔ اس کی سبز آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
ادھیڑ عمر کسان او راس کی بیوی اپنے بچے کی چیخ سن کر تابوت کی طرف بھاگے، پھٹی پھٹی آنکھوں سے بیٹے کی لاش کو دیکھا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔
میجر ،کیپٹن او ردوسرے سپاہی، تابوت سے پیچھے ہٹ گئے۔ اسی طرح چند منٹ گزرے۔ میجر نے سر ہلاکر سپاہیوں کو اشارہ کیا۔ دوسپاہیوں نے کسان او راس کی بیوی کو تابوت سے الگ کیا۔ تابوت کا ڈھکنا رکھ کر، پھر سے کیل ڈھونک دیے گئے۔ تابوت کو دوبارہ گھوڑا گاڑی پر رکھ دیا گیا۔
’’اب لے جاؤ اسے۔۔۔ یہ تب بھی ایک لاش تھی او راب بھی ایک لاش۔۔۔‘‘
ایک سپاہی نے گھوڑے کی باگیں، کسان کے ہاتھ میں دے دیں۔ وہ اور اس کی بیوی گھوڑا گاڑی کے ساتھ گھسٹتے چلے جارہے تھے۔ دونوں بین کررہے تھے۔ ان کو دیکھ کر کیپٹن نے کہا:۔
’’اب بھی اسی طرح رورہے ہیں، جیسا کہ پہلے رورہے تھے۔۔۔!‘‘
♥