محمد شعیب عادل
یہ ڈیرہ غازی خان کی نواحی یونین کونسل کوٹ مبارک کی بستی باجہی کی حالیہ تصویر ہے جہاں پر انسان اور ۔ ۔ جانور ایک ساتھ پانی پی رہے ہیں۔ مندرجہ بالا عنوان کے ساتھ سوشل میڈیا میں گردش کررہی یہ تصویر پاکستانی ریاست کی ترجیحات پر سوالیہ نشان ہے۔ریاست کی ترجیحات عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنا نہیں بلکہ ہتھیاروں کا ڈھیر لگانا ہے ۔
یہ تصویر پنجاب میں گڈ گورننس پر بہت بڑا سوال ہے اور پاکستان کے آزاد میڈیا کے نیم پڑھے لکھے رپورٹروں اور اینکرز کی کارگردگی کو بھی بے نقاب کر رہی ہے جو سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بدانتظامی پر تو چیختے چلاتے ہیں مگر پنجاب کے معاملے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔یہ تصویر ان تمام سرکاری لکھاریوں اور دانشوروں کی ذہنی سطح کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔ آپریشن ضرب عضب کی تعریفیں کرنے کے بعد لاہور میں میٹرو بس اور اورنج ٹرین کے منصوبے کو پاکستان کی ترقی قراردیتے نہیں تھکتے۔
پاکستانی ریاست میں ترقی کا تصور ہی انوکھا ہے۔ترقی کا تصور ہتھیاروں کا ڈھیر لگانا یا میٹرو بس یا بلٹ ٹرین نہیں بلکہ اس ملک کے رہنے والے تمام افراد کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی ہے۔ حکمران عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کی بجائے کئی ارب روپوں کی لاگت سے ایسا منصوبہ شروع کر د یتے ہیں جس سے چند ہزار لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔
جو پنجابی دانشور اور لکھاری لاہور میں ہونے والے ترقیاتی منصوبوں کو دیکھ کر پاکستان ترقی کررہا ہے کا راگ الاپتے ہیں ان کی خد مت میں عرض ہے کہ پنجاب کے گیارہ کروڑ عوام پینے کے صاف پینے سمیت صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔دوسرے شہراور دیہات تو دور کی بات لاہور شہر میں لوگ گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ مناسب خوراک اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں افراد کسمپرسی کی حالت میں مر جاتے ہیں جبکہ پنجاب کے عوام کے چالیس ارب روپے ، جس میں تمام ضلعی حکومتوں کے وسائل شامل ہیں، 16 ہزار افراد کے لیے میٹرو بس پر خرچ کر دیئے گئے۔ اور اب اورنج ٹرین کے لیے صوبے کے تمام وسائل لاہور کی نذر ہو گئے ہیں۔ پنجاب کے وسائل پنجاب کے تمام اضلاع میں خرچ ہونے چاہیں مگر ایسا نہ ہوا اور ترقی چند بڑے شہروں تک محدود ہے۔
پنجابیوں کے ساتھ حقیقی ظلم تو پنجاب کے حکمرانوں نے کیا ہے۔ نظام تعلیم کو درست کرنے کی بجائے اربوں روپے چند دانش سکولوں کی تعمیر پر لگادیئے گئے؟اس وقت پنجاب میں ہزاروں سکول ایسے ہیں جن کی عمارتیں فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ فرنیچر ہے نہیں، کئی سکول تو جانوروں کے باندھنے کے کام آرہے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ دانش سکول بنانے سے پہلے ان موجودہ سکولوں کو درست کیا جاتا ، اساتذہ کی حاضری یقینی بنائی جاتی اور محکمہ تعلیم کی ایسے انداز سے اوورہالنگ کی جاتی کہ بدعنوانی کم سے کم ہوتی مگر حکمرانوں کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی کیونکہ یہ تبدیلی میڈیا پر دکھائی نہیں جا سکتی۔
پنجاب کے حکمرانوں کو پنجابیوں کے بنیادی مسائل کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ ان کی توجہ ان منصوبوں پرہے جہاں زیادہ سے زیادہ ٹھیکے دئیے جا سکیں، پیسہ کمایا جا ئے اور زیادہ سے زیادہ شہرت ملے۔ بے ڈھنگی ڈویلپمنٹ کی بدولت لاہور شہر کا حسن خراب ہو چکا ہے۔لاہور شہر میں مسلسل آبادی کا دباؤ بڑھ رہا ہے اور نت نئے مسائل پیداہورہے ہیں اور ان مسائل سے نبٹنے کے لیے وسائل بھی یہیں خرچ ہوجاتے ہیں۔ جتنی سہولیات لاہور شہر کو مہیا کی جاتی ہے لوگوں کی نقل مکانی کی وجہ سے وہ سہولیات بھی ناکافی ہو جاتی ہیں ۔ پچھلے پندرہ بیس سالوں سے اس نقل مکانی کی وجہ سے لاہور میں نئی کچی آبادیاں وجود میں آچکی ہیں۔پنجاب کے حکمرانوں کو ایسی پالیسی وضع کرنی چاہیے کہ نقل مکانی کم سے کم ہو سکے۔
حکمرانوں کو لیپ ٹاپ ، بلٹ ٹرین اور میٹرو بس سروس جیسے منصوبوں پر عوام کے وسائل ضائع کرنے کی بجائے صوبے کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ بلٹ ٹرین پر قوم کا پیسہ ضائع کرنے کی بجائے ریلوے کے موجودہ انفراسٹرکچر اور نظام کو ہی درست کردیں تو بہت بڑا انقلاب آسکتا ہے۔اس کے لیے کوئی زیادہ رقم بھی نہیں چاہیے صرف گڈ گورننس اور کمٹ منٹ کی ضرورت ہے۔
پنجاب حکومت کو لاہور میں ہاؤسنگ سکیمیں بنانے کی بجائے ذوالفقار آباد کی طرز پر دو تین نئے شہر آباد کرنے چاہییں۔ بھارت یا مغربی ممالک کی طرح ملک کے ہر صوبے میں ایک ایجوکیشن سٹی ہونا چاہیے۔ لاہور میں ہی میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں قائم کرنے کی بجائے ہر ضلع میں ایک میڈیکل کالج، ٹیچنگ ہسپتال اور یونیورسٹی ہونی چاہیے ۔ جس سے نہ صرف لاہور میں نقل مکانی رکے گی بلکہ لوگوں کو اپنے علاقے میں ہی نہ صرف سہولیات دستیاب ہوں گی بلکہ انہیں روزگار بھی ملے گا اور مقامی علاقے ترقی کریں گے۔
2 Comments