فرحت قاضی
جب برطانوی راج میں شہروں کے ساتھ ساتھ دیہات میں بھی جدید تعلیمی ادارے قائم کئے جانے لگے تو خان خوانین کے ذہنوں میں ان خدشات نے سر اٹھایاکہ کمی کمین کا بچہ تعلیم حاصل کرکے ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گا چنانچہ خطرے کی بو کا احساس ہوتے ہی وہ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے چنانچہ عام دیہی باشندوں کو اس سے دور رکھنے کے لئے جدید تعلیم کو مروجہ سماجی قدروں کے خلاف مشہور کردیا گیا ۔
گو کہ اب پس ماندہ دیہات میں بھی تعلیمی ادارے نظر آتے ہیں خواندگی بڑھ رہی ہے اور صورت حال بھی ساتھ ہی بدل رہی ہے مگر چند برس قبل دیہی آبادی میں خان خوانین کے تصورات ہی اس پر حاوی ہوتے تھے اور ایک عام دیہی باشندہ بلا سوچے سمجھے ان تصورات کو معاشرے میں پھیلاتا رہتا تھا جس سے صدیوں تک ایک علاقہ جوں کا توں رہتا تھا در حقیقت اس زمانے میں ملازم خود کو مالکوں کے نظریات میں ایسے ڈھال لیتے تھے کہ انہیں کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوپاتا تھا کہ وہ انجانے میں بالا دست طبقہ کو تقویت پہنچانے والے تصورات دیہہ میں پھیلانے کے موجب بن رہے ہیں ۔
ان تصورات میں سے ایک
’’لوگ کیا کہیں گے‘‘
بھی ہے
چار الفاظ پر مشتمل یہ فقرہ عموماً اس موقع پر بولا جاتا تھا جب ایک باشندہ مروجہ روایات،رواجات،رسومات اور سماجی قدروں سے ہٹ کر ایک بات یا کام کرتا تھا
علاقہ میں پہلی مرتبہ گرلز سکول کھل گیا ہے گھر میں شوہر اہلیہ سے کہتا ہے:۔
’’ نیک بختے !گاؤں میں سکول کی تعمیر مکمل ہوگئی ہے عمارت اور کمرے بن گئے ہیں سادہ گل اور گلاب خان کی بیٹیاں جانے لگی ہیں کیا خیال ہے ہم بھی اپنی پلوشہ کو داخل کرادیں؟‘‘
’’کیا؟‘‘
بیوی تعجب کا اظہار کرتی ہے:
’’کیا سٹھیا گئے ہو یہ کیا،کیا ہم اتنے بے غیرت ہوگئے ہیں ایک پختون کی بیٹی گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھے گی انگریزی سکول میں پڑھنے جایا کرے گی ہائے اللہ تم رشتے داروں میں میری اور اپنی ناک کٹوانا چاہتے ہو بھلا سوچو تو یہ لوگ کیا کہیں گے‘‘۔
پختونخوا کے بعض پس ماندہ دیہات میں حصول تعلیم کی مخالفت میں یہ الفاظ آج بھی مستعمل ہیں۔
لوگ کیا کہیں گے یا دنیا کیا کہے گی
کے یہ الفاظ عموماً منفی معنوں میں لئے جاتے ہیں یہ اور اس نوعیت کے کئی دیگر تصورات اور منفی رحجانات ہمیں نسل در نسل منتقل ہوتے رہے ہیں ان کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ مالک کسی خیال یا فعل پر اپنے ایک نوکر کی سرزنش کرتا مذاق اڑاتا یا اس کو طنزاً احمق اور گدھا کہتا ہے تو اس سے متاثر حاضرین بھی ساتھ دیتے ہوئے اس ہنسی،مذاق،تنقید یا تضحیک میں شامل ہوجاتے ہیں
مالک ایک نوکر کی کسی برائی کی جانب اشارہ کرتا ہے تو وہاں موجود افراد کو اس شخص میں سو عیوب نظر آنے لگتے ہیں اکثر اوقات مالک کو خوش کرنے کے لئے اس کے خادم ایک دوسرے کی برائیاں بیان کرنے لگتے ہیں جبکہ کبھی کبھار تو اس کا ر خیر میں وہ مالک سے بھی سبقت لے جاتے ہیں بعینہٰ مالک اپنے ملازم کو کسی کام کے خوش اسلوبی سے انجام دینے پر شاباش دیتا اور تعریف کرتا ہے تو حاضرین بھی تقلید اور خوشنودی کی خاطر اسے تعریفی نگاہوں سے دیکھنے اور اس کے نقالی اور پیروی کی کوشش کرنے لگتے ہیں بالفاظ دیگر کسی چیز یا خیال کے بارے میں جو مالک کا نقطہ نظر ہوتا ہے وہ رفتہ رفتہ پہلے اس کے ملازمین اور قریبی افراد کا ہوجاتا ہے اور بعد ازاں پورے علاقے کا نظریہ بن جاتا ہے
اگر ہم کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے کیا چیز یا فعل غیرت اور کیا بے غیرتی ہے کون سی بات قابل تعریف اور کون سی قابل نفرت ہے کا ناقدانہ جائزہ لینا شروع کردیں تو یہ حقیقت روز روشن کی مانند عیاں ہوگی کہ پہلے نوکر اور پھر اہلیان علاقہ مالکان کے نظریات میں ڈھل جاتے ہیں بعد ازاں یہ طرز عمل تمام دیہی باشندوں کے لئے کھسوٹی کا درجہ حاصل کرلیتا ہے القصہ ایک پس ماندہ دیہہ پر مالکان کے تصورات ہی حاوی ہوتے ہیں۔
’’دنیا کیا کہے گی‘‘
اس حقیقت کی ایک ادنیٰ مثال ہے
ایک دیہہ یا گاؤں میں سرکاری سکول تعمیر ہوتا ہے والدین بچوں کو داخل کراتے ہیں تو اس میں امیر اور غریب کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی ہے تمام بچے ٹاٹ پر بیٹھے اور ایک ہی کتاب اور استاد سے سبق پڑھ رہے ہیں جاگیردار کا بچہ جانتا ہے کہ دیہہ میں ان کے کھیت کہاں سے کہاں پھیلے ہوئے ہیں مگر کھیت مزدور کے بچے کو اپنی محنت کا احساس ہوجاتا ہے تو یہاں سے جاگیردار کے مفادات پر ضرب پڑنے لگتی ہے اور وہ اس کو ناکام بنانے کے درپے ہوجاتا ہے
چنانچہ جب ایک کھیت مزدور اپنی اہلیہ سے بچی کو سکول میں داخل کرنے کامشورہ کرتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ بھلا یہ دنیا کیا کہے گی اب ذرا غور کیجئے کہ تعلیم کی مخالفت کہاں ہوئی اور کس نے کی تھی اور یہ سلسلہ کہاں تک پہنچ گیا ہے
جدید تعلیم سے جہاں جاگیردار کو نقصان تو محنت کش کو فائدہ تھا چونکہ عام دیہی باشندہ مالک کے نقطہ نظر سے اشیاء کو دیکھتا اور جانچتا ہے اس لئے وہ خان خوانین کے بنائے ہوئے دائروں میں غلطاں رہتا ہے چنانچہ جب وہ کسی چیز کی حمایت یا مخالفت کرتا ہے تو اس کے ذہن میں غیرت یا لوگ کیا کہیں گے ہوتا ہے فائدہ یا نقصان کا کوئی تصور نہیں ہوتا ہے چنانچہ جب ایک چیز کی حمایت یا مخالفت کی جاتی ہے تو خیال جاگیردار اور مالک کا ہوتا ہے البتہ عوام کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوتے ہیں تو یہ ’’لوگ اور دنیا‘‘ میں بدل کر لوگ کیا کہیں گے بن جاتے ہیں۔