اسلام کے اُصولوں سے پُر خلوص انحراف

riaz hussainریاض حسین

جی ہاں! عنوان آپ کو عجیب معلوم ہو رہا ہوگا مگر پاکستان میں ایسا ہی معاملہ چل رہاہے۔ معلوم نہیں یہ کب سے چل رہا ہے مگر میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم پچھلے پانج سالوں سے ہم پاکستان کے مسلمان اسلام کے زرین اُصولوں سے انحراف اس خلوص کے ساتھ کر رہے ہیں کہ جیسے ہم ان اُصولوں کے منافی اُصولوں سے انحراف کر رہے ہوں۔

میں پچھلے پانچ سالوں سے سوچ رہا ہوں کہ مسلمانوں کی خدمت میں عرض کردوں کہ جناب ’’کاین رہ کہ تو می روی بہ ترکستان است‘‘۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ خلوص اور عقیدت کے ساتھ ہونے والی اس انحراف کی شکایت مجھ سے نہیں ہو سکتی تھی۔ بقول شاعر :۔

اُن کی آنکھوں میں میری تباہی کے واسطے 
اتنا خلوص تھا کہ شکایت نہ ہوسکی

اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ میرے پیش نظر حضرت موسیٰ علیہ لسلام اور چرواہے کا واقعہ تھا۔ آپ کو تو معلوم ہی ہے نا کہ حضرت موسیٰ علیہ لسلام نے چرواہے کی باتیں سن کر جب اُسے ٹوکا تھا تو خدا کو یہ بات پسند نہیں آئی تھی۔ مولا نا روم ؒ نے اپنی مثنوی میں اس واقعے کے حوالے سے خدا ئے عز وجل کی ناراضگی کا ذکر کچھ یوں کیا ہے:۔

وحی آمد سوئے موسیٰ از خدا 
بندۂ مارا ا ز ما کردی جدا 
تو برائے وصل کردن آمدی 
نے برائے فصل کردن آمدی

یعنی اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت موسیٰ ؑ پر وحی آئی کہ تو نے ہمارے بندے کو ہم سے جدا کر دیا۔ تو ملانے کے لئے آیا ہے، جدا کرنے کے لئے نہیں آیا ہے۔ سو میں ہرگز نہیں چاہتا تھا کہ میں خدا اور خدا کے دوست چرواہوں کے درمیاں کوئی موسیٰ بن کر فصل قائم کرنے کا سبب بن جاؤں ۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ میں کوئی مفتی ، شیخ، یا مسجد کا امام نہیں ہوں جن کے ذمے ،جیسا کہ وہ سمجھتے ہیں ، معاشرے کی اصلاح کا بار گراں ہو۔ مگر پانج سالوں کی سوچ نے شاید مجھ پر واضح کر دیا ہے کہ میرا مفتی، شیخ ، یا مسجد کا امام نہ ہونا ہی مجھے اس بار گراں کا ذمہ دار بنا دیتا ہے۔

تو قصہ یوں ہے کہ 2010ء کو مملکت خدا داد میں تا ریخ کا بد ترین سیلاب آیااور اُس کے ایک سال بعد اُسی نوعیت کا سیلاب دوبارہ آیا۔ ہزاروں ایکڑاراضی پر محیط فصل زیر آب آگئے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوگئے۔ جیسا کہ واضح ہے اس تحریر کا مقصد اس بات پر بحث کرنا نہیں ہے کہ حکومتِ وقت کی کن نا اہلیوں کے باعث سیلاب آیا اور آکر غیر معمولی نقصانات پہنچا گیا،لہٰذا اس بحث کو کسی اور وقت کے لئے اُٹھا رکھ کر آگے چلتے ہیں۔

سیلاب آنے کے ڈھائی سال بعد ایک دستاویزی فلم دیکھنے کا موقع ملا تھا جس سے پتہ چلتا تھا کہ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی سیلاب کے متا ثرین بے گھر تھے۔ بارش کا پانی پینے اور باسی روٹی پانی کے اندر بھگو کر کھانے پر مجبور تھے حالانکہ اُس وقت تکُ اس وقت کے وزیر اعظم کی مراد انجلینا جولی کے ساتھ تصویر بنا کر پوری بھی ہوچکی تھی مگر حکمرانوں کو اس تصویر سے کھیلنے یااس سے نظر ہٹانے کی فرصت ہوتی تو متاثرین کی فکر کرتے نا۔

حکمرانوں کی غلط فکریوں سے مجھے یقیں ہے کہ آج پانچ سال گزرنے کے بعد بھی متا ثرین اسی طرح بے سرو سامانی کی حالت میں ہونگے ۔ اُن کے سروں کے اُپر چھت نہیں ہوگی۔وہ اور اُن کے بچے بیمار ہونگے مگر اُن کے پاس دوا دارو کا کوئی انتظام نہیں ہوگا ۔ اُن کو پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوگا جیسے لاکھوں اور پاکستا نیوں کو دو وقت کا کھانا نصیب نہیں ہے لیکن پاکستان کے مخیر مسلمانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت پیٹ بھر کھا نا کھاکے آرام سے سو بھی جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ الحمدللہ مومنِ کا مل ہیں۔ حالانکہ اسلام کا زریں اُصول یہ ہے کہ جو شخص پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا ہمسا یہ بھوکا رہے وہ مومن نہیں ہو سکتا۔

اچھا اب ہمسائیگی میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے سرو سامان ہوں اور اُن کی جا ئز ضروریات پوری کئے بغیر اور اُن کو اپنے پا ؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنائے بغیر حج ، عمرہ، اور قربانی کی عبادتیں انجام دے کر یہ سمجھنا کہ تقویٰ کی منازل سرعت سے طے ہو رہی ہیں کچھ ایسا ہی ہے جیسے لڈو کھیلتے ہوئے سیڑھی کی جست سے جیت کی منزل پر پہنچتے پہنچتے سانپ کے منہ میں چلے جانا اور دھڑام سے گر کر وہیں پر پہنچ جانا جہان سے سفر کا آغاز کیا تھا۔زیا دہ حیرانگی اس بات پر ہے کہ یہ مفتی و شیخ و امام لوگوں کو اس قسم کے گڑھوں سے آگا ہ کیوں نہیں کرتے ہیں۔ 

ممکن ہے میری باتیں اس طبقے کے لوگوں کو اچھی نہ لگیں لیکن میں مبلغوں کے اُس قبیلے سے تعلق نہیں رکھتا جو ایک ایک عبادت کے بدلے بندوں کے حق میں سرزد ہوئی گناہوں کی بھی معا فی کی باتیں کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک کا تاجر، طبیب، انجینئر ،استاد غرض ہر کوئی جس کا تعلق کسی بھی پیشے یا ہنر سے ہویا نہ بھی ہو، خوب بے ایمانی کرکے بوقت نماز وقفہ برائے نماز کی تختی لٹکاکر بھاگم بھاگ مسجد کی طرف چلا جاتا ہے۔ 

ہمارے ہاں اسلام کے زریں اُصولوں سے پر خلوص انحراف کرنے کی بہت سی مثالوں میں سے یہ ایک مثال ہے ۔ یا یوں کہہ لیں کہ زرین اُصولوں کے آئینے میں یہ محض ایک عمل کا عکس ہے ۔ آپ چاہیں تومیری طرح اس آیئنے میں اپنے اعمال کا عکس دیکھ لیں ورنہ اس آیئنہ نمائی پرکسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں معافی کا خواستگا ر ہوں۔

3 Comments