بیرسٹر حمید باشانی
میں نے گزشتہ کالم میں ایک ہندوستانی کے خط کا حوالہ دیا تھا۔ اس خط میں موصوف نے کئی سوالات اٹھائے ہیں۔گزشتہ کالم میں اس کا سوال کشمیر میں اسلامی نظام کے بارے میں تھا۔موصوف کا کہنا تھا کہ اگر وادی کشمیر کے لوگ چاہیں تو وادی میں نظام شریعت نافذ کر سکتے ہیں۔اگر وہ ایسا عوامی تائید اور جمہوریت کے مسلمہ اصولوں کے تحت کریں تو بھارت میں کوئی ایسا قانون نہیں ہے جس کے تحت ان کو ایسا کرنے سے روکا جا سکے۔بھارت میں پہلے سے مسلمان اسلامی شریعہ لاء اور عائلی قوانین کے تحت اپنے معاملات چلاتے ہیں۔لہذا سلامی نظام کے تحت زندگی گزارنے کے لیے کشمیری مسلمانوں کو کوئی علیحدہ ریاست قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
آج میں اس کالم میں موصوف کا جو دوسرا سوال پیش کر رہا ہوں وہ معاشی نظام کے بارے میں ہے۔ اور یہ بہت ہی بنیادی اور اہم سوال ہے۔اس سوال پر آج بھی دنیا کے سنجیدہ دانشور کارل مارکس کے اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہماری اس دنیا میں اصل مألہ تو بہرحال معاشی ہی ہے۔ اور ہمارے دیگر مسائل معاشی مسئلے سے جڑے ہوتے ہیں۔تو کیا کشمیری مسلمان وادی کے اندر اپنی پسند کا معاشی نظام قائم کر سکتے ہیں۔موصوف خود ہی اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ خارجہ، دفاع، مواصلات اور کرنسی کے علاہ کشمیری ہر موضوع اور مسئلے پر قانون سازی کا اختیار رکھتے ہیں۔بھارت ایک ایسی جمہوریت ہے جس میں کئی معاشی نظام پہلو بہ پہلو چل سکتے ہیں۔تاریخی طور پر یہ تسلیم شدہ بات ہے۔بھارتی جمہوریت کے اندر مغربی بنگال میں تیس سال تک کمیونسٹوں نے حکومت کی۔مرکزی حکومت نے یہاں کمیونسٹوں سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ان کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کی۔باسو کی قیادت میں یہاں کمیونسٹ پارٹی بار بار جمہوری عمل کے زریعے منتخب ہو کر اتی رہی، یہ الگ بات ہے کہ کمیونسٹ ڈلیور کرنے میں ناکام رہے۔
اس طرح اگر کشمیر سمیت کسی ریاست میں مسلمان عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ایوانوں میں آئیں تو ان کو اپنی مرضی کی قانون سازی سے کوئی نہیں روک سکتا۔بھارتی آئین میں یہ بات ضرور موجود ہے کہ جہاں مرکز اور ریاستوں میں کسی قانون پر تنازعہ ہو وہاں مرکزی قانون کو فوقیت حاصل ہو گی۔ مگر معاشی نظام کے کسی طرزپر اس طرح کے کسی ٹکراؤ کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔جہاں تک سیاسی آزادی کاتعلق ہے تو اس کا فریم ورک پہلے ہی بھارتی آئین میں طے شدہ ہے۔دفعہ تین سو ستر اور ریاست کی مخصوص حیثیت کے پیش نظر کشمیر کو باقی ہندوستانی ریاستوں کی نسبت کئی زیادہ خود مختاری حاصل ہے۔
اگر یہ خود مختاری کبھی متاثر ہوئی یا اس پر کئی زد پڑتی ہے تو اس کے ذمہ دار بڑی حد تک خود کشمیری رہنما ہوتے ہیں۔ موصوف کے اس خط پر اگر کوئی صاحب جواب دینا چاہیں تو یہ کالم حاضر ہے ۔مگر ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی ہو گی کہ 1947 سے لیکر آج تک بھارت نے کشمیر میں جو کچھ بھی کیا وہ بظاہر کشمیری لیڈروں کی حمایت اور تعان سے کیا۔کشمیر کی شروع کی غیرمعمولی خود مختار اورخصوصی حیثیت کشمیری لیڈروں کے مطالبے اور جہدو جہد پر قائم ہوئی۔1953 میں اس حیثیت کا خاتمہ کشمیری لیڈروں کی شمولیت اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ کشمیر کے انتخابات میں جو دھاندلی ہوتی رہی یہ کشمیری لیڈروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن ہی نہ تھی۔
بھارت ان کو اقتدار کا لالچ دے کر ایک دوسرے کے خلاف لڑاتا رہا۔وہ مرکز کی گڈ بکس میں آنے اور رہنے کے لیے ایک دوسرے سے کتے بلیوں کی طرح لڑتے رہے۔ ایک دوسرے پر غداری اور ملک دشمنی کے الزامات لگاتے رہے۔ ایجنسیوں اور انتطامیہ کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کے خلاف سازشوں کا حصہ بنتے رہے۔ الیکشن چرانے اور دھاندلی میں شامل رہے۔کشمیری لیڈر اگر اس طرح کی کٹھ پتلیوں کا رول ادا نہ کرتے تو بھارت نہ تو 1953والی پوزیشن ختم کر سکتا تھا، اور نہ ہی کسی الیکشن کے اندر اس طرح کی کھلی دھاندلی کر سکتا تھا۔یہ روش برقرار ہے۔
یہ دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں عوام کے مختلف گروہ ایک دوسرے کو غدار اور ملک دشمن کہتے ہیں۔الحاق پاکستان والا الحاق ہندوستان والوں کی نظر میں غدار اور غیر ملکی ایجنٹ ہے۔الحاق ہندوستان والا الحاق پاکستان والوں کی نظر میں غدار اور بھارت کا ایجنٹ ہے۔خود مختار کشمیر والوں کی نظر میں یہ دونوں غدار ہیں۔اور ان دونوں کے نزدیک خود مختار کشمیر والے ازاد کشمیر میں را کے اور وادی میں آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہیں۔
تقسیم در تقسیم کا اتنا گہرا سلسلہ پورے برصغیر میں کئی اور نہیں ہے۔یہاں دوسروں کے خیالات کو ان کی اپنی رائے سمجھا ہی نہیں جاتا۔بلکہ اس سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ یہ بات کہنے کہ ٓاپ نے کتنے پیسے لیے ہیں۔ایجنسیوں نے چند لوگوں کو خرید کر یہ تاثر قائم کر لیا کہ ہر کشمیری بکاو مال ہے، اور ہر سیاست کار سستے داموں بکنے کے لیے تیار کھڑا ہے۔ کوئی خرید ار تو ہو۔
جو قوم اخلاقی گراوٹ کی اس پستی تک پہنچ جائے تو اس پر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑسکتا کہ وہ آزاد ہے، خود مختار ہے یا کسی دوسری ریاست کا حصہ ہے۔یہ نفسیاتی ساخت کسی جغرافیائی یا قانونی تبدیلی سے نہیں بدل سکتی۔اس کے لیے لوگوں کو اپنے اندر سے بدلنا ہو گا۔جمہوری آدرشوں کو قبول کرنا ہو گا۔اختلاف رائے کی آزادی کو تسلیم کرنا ہو گا۔عزت نفس بحال کرنی ہو گی۔ اور سوئے ہوئے ضمیر کو جگانا ہو گا۔
♣