واشنگٹن نے اسلام آباد کو ایف16 طیارے دینے کی منظوری دے دی ۔بھارت کو امریکہ کہ اس فیصلے پر مایوسی ہوئی۔پاکستان کو بھارت کے اس رد عمل پر مایوسی ہوئی۔مجھے ان تینوں کے طرز عمل پر حیرت اور مایوسی ہوئی۔گہری مایوسی۔
یہ طیارے نیوکلئیر ہتھیارلے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ مسلمہ قسم کے جنگی طیارے ہیں۔مگر امریکیوں کے بقول اس سے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف صلاحیت میں اضافہ ہو گا۔یہاں سے صلاحیت سے پہلے جنگی کا لفظ ہٹا دیا گیا ہے۔اس سے ان طیاروں کی ہیبت ناکی کچھ کم ہو جاتی ہے۔جنگ جیسا غلیظ لفظ غائب ہو جاتا ہے۔اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیسا نوبل کاز نمایاں ہو جاتا ہے۔
اس سے امریکی پالیسی ساز میڈیا کی بے جا تنقید سے بچ جاتے ہیں اور اس جمہوری ملک کے آزاد عوام کو بلاوجہ ناک بھوں چڑھانے کا موقع بھی نہیں ملتا۔مانا کہ پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا ہے۔ مگر کیا پاکستان ان دہشت گردوں کے خلاف ایسے جنگی طیارے استعمال کر سکتا ہے۔یہ لوگ تو آبادیوں کے اندر رہتے ہیں۔اور زیادہ تر عورتوں اور بچوں کے درمیان۔ان دہشت گردوں کے خلاف فتح یا ب ہونے کے لیے جنگی طیارے نہیں کچھ اور چیزیں درکار ہیں۔ان میں اہم اور بنیادی چیز عزم ہے۔
اس عزم کی عدم موجود گی میں کوئی دہشت گردوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔یہ عزم ہو گا تو ملک کے طول عرض میں کویت اور سعودی عرب کے پیسے سے چلانے والے ان مدارس کے بارے میں کچھ کیا جا سکے گا جو دہشت گردی کی نرسریاں ہیں۔ان سینکڑوں مساجد کے بارے میں سوچا جا سکے گا جہاں جہاد کے نام پر نفرت اور دہشت کا کل وقتی درس دیا جاتا ہے۔یا ان مذہبی تنظیموں کے بارے میں کچھ کیا جا سکے گا جو کا لعدم قرار دیے جانے کے باوجود نئے نام سے اپنے پرانے دھندے میں مشغول ہیں۔
کیا ملکی قوانین کو بدلنے کے بارے میں سوچا جا سکے گا جو دہشت گردی کو سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں۔نظام تعلیم کے بارے میں غور کیا جائیگا جو فرسودہ ہے۔نصاب تعلیم پر غور ہوگا جو نفرتوں پر قائم ہے۔تاریخ کو کیسے پڑھا اور پڑھایا جانا چاہیے ؟ دہشت گردی، رجعت پسندی، منافقت اور جہالت کے کلچر کو کیسا بدلا جائے ؟ ان اور ان جیسے درجنوں دوسرے سوالات پر غور کرنے کی زحمت کی جائے گی۔اور ظاہر ہے اس کے لیے ایک مصمم ارادے اور عزم کی ضرورت ہے۔یہ عزم نا پید ہے۔
چنانچہ یہ طیارے خریدنے سے پاکستان کو دہشت گردی خلاف کوئی مدد نہیں ملے گی۔یہ پاکستان کے غریب عوام کا پیسہ ہے جو امریکہ میں اسلحہ کے ٹھیکیداروں اور اسلحہ ساز کمپنیوں کے مالکان کی تجوریوں میں چلا جائے گا۔یہ پیسہ پاکستان کے غریب عوام کے بچوں کی تعلیم پر خرچ ہوتا تو شاید دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد گار ثابت ہو سکتا تھا۔یا پھر ان بچوں کی آزادی پر صرف ہوتا جو غربت کی وجہ سے تعلیم کے نام پر مدرسوں کے اندر یرغمالیوں کی طرح رہنے پر مجبور ہیں۔
غریب کے بچوں کی تعلیم، مناسب روزگار اور عزت نفس کا سامان کیے بغیر جتنے طیارے مرضی خرید لو، ان سے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں مدد نہیں ملے گی۔مگر اس سے غربت اور معاشرتی نا ہمواریوں میں اضافہ ضرور ہو گا۔پاکستان بنیادی طور پر ایک غریب ملک ہے۔اس کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔مگر جہاں تک اسلحہ کی خریداری کا تعلق ہے اس دوڑ میں یہ دنیا میں بہت آگے ہے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان پانچ ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے گزشتہ دس پندرہ سالوں کے دوران دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ برآمد کیا۔ایسے ملکوں میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، انڈیا، چین جسے ملک شامل ہیں۔ایک اندازے کے مطابق دنیا میں سالانہ تقریبا ایک اعشاریہ پانچ ٹریلن ڈالر اسلحہ کی مد میں خرچ کیا جاتا ہے۔اگر دنیا میں اسلحہ خریدنے والے پہلے دس ملکوں کی فہرست بنائی جائے تو اس میں سب تیسری دنیا کے ترقی پذیر ملک ہیں۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا نے اسلحہ کی مد میں اخراجات میں پچاس فیصد کمی کی۔ مگر تیسری دنیا میں اس کے برعکس ہوا۔یہ بات تیسری دنیا کے حکمرانوں کے اپنے عوام کے بارے میں رویے کی عکاس ہے۔ایف سولہ طیارے ملنے پر بھارت کا اظہار مایوسی سمجھ میں آ سکتا ہے۔یہ طیارے پاکستان کی فضائی طاقت میں اضافے کا باعث ہوں گے۔ظاہر ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان ناخوشگوار تعلقات بلکہ دشمنی کا ماحول برقرار ہے۔ اس ماحول کی وجہ سے یہ اسلحہ کے خریدداروں میں باقی دنیا سے آگے آگے ہیں۔
ستم طریفی کی بات یہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ غریب لوگ ان ہی دو ممالک میں آباد ہیں۔ان ملکوں کی جنگ باز پالیسیاں اپنے عوام کی طرف بے رحمانہ رویے اور ان کے مسائل سے خوفناک لا تعلقی کا اظہار ہیں۔
♥