بات چِیت
ڈاکٹر سنتوش کامرانی
انسان کی معاشرتی تاریخ طاقت اور جبر کے استعمال سے بھری پڑی ہے۔ طاقت کا یہ مظاہرہ کبھی سکندر ،چنگیز اور تیمور کی فتوحات کی صورت میں ہوا تو کبھی قومیت کے نام پر یورپ میں سیاسی اکائیاں وجود میں آنے کے بعد دو بڑی جنگوں کی صورت میں ہوا ۔ ان دو عالمی جنگوں کے بعد اقوام یورپ کو عقل آئی کہ جنگ انسانیت کے لیے ایک تباہ کن چیز ہے جس کےاثرات صدیوں تک انسانی معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔
انسانی حقوق کی بات بھی دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہوئی اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں شامل کی گئی۔ انسانی حقوق کا موضوع اپنی ہیت کے اعتبار سے سیاسی ہے جس کا تعلق جمہوریت، مساوات ، ریاستی، حکومتی اور قا نونی اداروں سے ہے جس کے بنیادی خدوکال درجہ ذیل ہیں۔
٭ ہر فرد آزاد ہے اور کوئی طاقت کسی فرد سے آزادی کا حق نہیں چھین سکتی ۔
٭ حیاتیاتی اعتبار سے تمام انسان برابر ہیں کوئی بھی فرد یا معاشرہ رنگ، نسل، قومیت، زبان اور جنس کی بنیاد پر دوسرے فرد یا معاشرے سے برتر نہیں ہوسکتا۔
٭ ہر فرد کو آزادی رائے کا حق حاصل ہے۔
٭ حکومتوں کو چا ہیے کہ قانون سازی اس طرح کریں کی انسانی حقوق مجروح نہ ہوں۔
٭ ایک ذی عقل اور ذی اختیار مخلوق ہونے کی بناء پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دوسری مخلوقات اور ان کے ماحول کے حقوق کو بھی تسلیم کرے۔
٭ ایک ذی عقل اور ذی اختیار مخلوق ہونے کی بناء پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے تجربات کو رد کرے جن سے انسانی حقوق کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
٭ حقوق انسانی کا مرکزی عنصر انسانوں کو کسی بھی قسم کی غلامی یا ہنگامی صورتحال سے روکنا ہے۔
حقوق انسانی ان حقوق کا مجموعہ ہے جن کو اقوام متحدہ کے بنیادی اصولوں اور بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں مرتب کیا گیا ہے۔ ان حقوق کی تشریح یوں کی جاسکتی ہے کہ تمام انسان قانون کی نظر میں ایک ہیں۔ انسانی حقوق کا تقاضا ہے کہ رنگ، نسل اور قوم کی بنیاد پر برتری ثابت نہیں ہوتی۔ اسی طرح مرد و زن بحیثیت انسان برابر ہیں۔ دونون یکساں سیاسی، اقتصادی، معاشرتی اور نظریاتی حقوق کے حامل ہیں۔ ہر انسان محترم ہے اور انسان کا احترام انسانیت کی پہچان ہے۔ اس احترام کو یقینی بنانا حقوق انسانی کا بنیادی حصہ ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان تنظیموں کا بنیادی مقصد حقوق ِانسانی کی نگرانی، تحفظ اور انسانی حقوق سے غفلت کی صورت میں متعلقہ اداروں کو رپورٹ کرنا اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو روکنا ہے۔ جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1۔ انسان ایک آزاد مخلوق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آزادی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ دوسرے کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ انسانی آزادی کے حق کو ختم کرے۔ یعنی انسان بین الا قومی، ملکی، علاقائی اور تنظیمی قوانین کے خروج میں کوئی بھی فیصلہ کرنے میں آزاد ہے۔ وہ کوئی مذہب اختیار کرنے یا نہ کرنے میں آزاد ہے۔ وہ کوئی پیشہ اپنانے میں آزاد ہے۔ دوسرے انسانوں، اداروں اور ریاستی اداروں کا یہ فرض ہے کہ وہ انسان کی اس بنیادی حق کو تسلیم کریں۔
2۔ حقوق انسانی بلا رنگ، نسل، قومیت، قبیلہ، جنس اور پیشہ کے اعتبار سے یکساں اور برابر ہیں۔ اس سلسلے میں مندرجہ بالا عناصر کی بناء پر کسی انسان کے ساتھ بد سلوکی کرنا حقوق انسانی کی خلاف ورزی ہوگی۔ اگرچہ یہ باتیں کہنے اور لکھنے کے لیے آسان ہیں لیکن عملی زندگی میں ان کو اپنانا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، اس لیے حقوق انسانی کے اُصولوں کو سمجھنے اور زندگی میں ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ تربیتی پروگرامز منعقد کئے جائیں اور حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے تنظیموں کے ساتھ مدد کو یقینی بنایا جائے۔
3۔ حقوق انسانی کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ حقوق ایک دوسرے سے مربوط ہیں ،یعنی انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ 1993ء کے ویانا کانفرنس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ریاستوں اور ریاستی اداروں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ قانون سازی کے عمل میں حقوق ِانسانی کے اصولوں کو مد نظر رکھیں۔
4۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حقوق ِانسانی کا تعلق افراد تک محدود نہیں ہے بلکہ اداروں اور تنظیموں میں بھی اس کے حدود شامل ہیں یعنی ادارے اور تنظیمیں حقوق انسانی کے قوا نین کی پاسداری کریں۔ ان قوانین کا مقصد قوم، مذہب، زبان، جنس یا سیاسی وابستگی کی بنیاد پر کسی فرد یا ادارے کو زیادتیوں سے بچانا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنا اس وقت ممکن ہوگا جب حقوق انسانی کے بین الاقوامی قوانین کو سمجھا جائے تاکہ ریاستی اداروں میں ان پر عملداری کو یقینی بنایا جا سکے۔ (جاری ہے)
♣
Pingback: انسانی حقوق ۔۔۔ دوسری کڑی – Niazamana