جمیل خان
شاید 1998ء کی بات ہے، جب امریکی ریاست کیلی فورنیا میں رہائش پذیر ایک میاں بیوی جان برنکا اور لائنے برنکا نے انسانی تاریخ کا منفرد اور عجیب و غریب تجربہ کیا۔ گوکہ اب تک اس سے ملتے جلتے تجربات عام ہوتے جارہے ہیں اور اب ترقی یافتہ دنیا میں انہیں حیرت کی نظروں سے بھی نہیں دیکھا جاتا ہے، لیکن اس وقت اپنی نوعیت کا یہ بالکل انوکھا اور منفرد تجربہ تھا۔
ہوا یوں کہ ان دونوں میاں بیوی نے ’’ٹیسٹ ٹیوب بے بی‘‘ کی پیدائش کے لیے نامعلوم مرد و عورت کے مادّۂ حیات اور بیضہ کو حاصل کیا جو وہاں لیبارٹریوں میں بانجھ میاں بیوی کی مدد کے لیے محفوظ کیے جاتے ہیں۔ پھر ان دونوں نے پامیلا نامی ایک خاتون کی خدمات حاصل کیں، جو پہلے سے دو بچوں کی ماں تھی۔ پامیلا نے نامعلوم مرد و عورت کے مادّۂ حیات و بیضے کے ذریعے پیدا ہونے والے بچے کے لیے اپنا رحم کچھ معاوضے پر پیش کردیا۔
چنانچہ پامیلا کے رحم میں ایک بچی پرورش پانے لگی۔ لیکن اسی دوران جان برنکا نے لائنے پر طلاق کا مقدمہ دائر کردیا اور پامیلا کے رحم میں پرورش پانے والی بچی کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا۔ عدالت نے فوری طور پر یہ فیصلہ بھی سنا دیا کہ جان برنکا کو کسی بھی طرح اس بچی کا باپ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے اور نہ لائنے اس بچی کی قانونی ماں ہے۔ عدالت نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ یہ مسئلہ صرف اُسی وقت حل ہوسکتا ہے کہ جب لائنے قانونی طور پر اس بچی کو گود لے لے۔
عدالت کے اس ریمارکس کے کچھ عرصے بعد بچی کی ولادت ہوگئی، پامیلا جس نے بچی کو اپنے رحم میں پروان چڑھانے کے بعد جنم دیا، اُس کی مامتا بچی پر مہربان ہوگئی اور اسے اپنانے کا فیصلہ کرلیا لیکن اُس کا فیصلہ بھی وقتی ثابت ہوا اور چند ماہ بعد ہی پامیلا نے بھی بچی کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا۔
کیلی فورنیا کی ایک دوسری اعلیٰ عدالت نے بچی کو عارضی طور پر لائنے کی تحویل میں دینے اور جان برنکا کو اُس کے اخراجات ادا کرنے کا حکم دیا۔ لیکن عدالت کا فیصلہ محض اُس وقت تک برقراررہ سکا جب تک کہ اعلیٰ عدالت میں اس فیصلے کے خلاف جان برنکا کی اپیل منظور نہیں ہوئی تھی، چنانچہ اس بچی کی پرورش امریکہ کے ایک ایسے ادارے میں ہوئی جو اس جیسے بن ماں باپ کے بچوں کے لیے قائم ہے۔
واضح رہے کہ کرائے کی ماں یا سروگیٹ مدر سے مراد دراصل ایک ایسی خاتون ہے جو پیسوں کے عوض کسی جوڑے کا ’’فرٹائل‘‘ یا بارآور شدہ بیضہ اپنی کوکھ میں رکھوا لیتی ہے۔ اس طرح نو ماہ کے قدرتی وقفے کے بعد اس کے بطن سے جو بچہ پیدا ہوتا ہے، وہ طبیعاتی طور پر اس جوڑے کا ہوتا ہے جس کا بارآور بیضہ اس کے بطن میں رکھا جاتا ہے۔
آج ہندوستان میں کرائے پر کوکھ پیش کرنا ایک مستقل صنعت کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ دنیا بھر سے ایسے جوڑے جو والدین بننے کی صلاحیت سے محروم ہوں یا پھر ماں بننے کی صورت میں خاتون کی جان کو خطرہ ہو یا پھر کوئی عورت خود ہی ماں بننے کے عمل سے گزرنا نہ چاہے تو وہ ہندوستان میں قائم سروگیسی سینٹرز سے رابطہ کرکے اپنے لیے اولاد پیدا کرواسکتی ہے۔
دوسری جانب چین کے دولت مند افراد میں یہ رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ اپنی اولاد پیدا کرنے کے لیے اب 120,000 ڈالرز میں امریکی خواتین کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ اس طرح پیدا ہونے والے بچوں میں امریکی ماؤں کے رحم میں نو مہینے پروان چڑھنے کی وجہ سے ان کی کچھ جینیاتی خصوصیات بھی شامل ہوجاتی ہیں۔ان بچوں کو ’’ڈیزائنر‘‘ بچوں کا نام دیا جارہا ہے۔
امید کی جارہی ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرے گا، ٹیکنالوجی کی ترقی اور اختراعات و ایجادات ہماری زندگیوں میں ایسی انقلابی تبدیلیاں پیدا کردے گی کہ انسانوں کو نئے اخلاقی ضابطوں اور قوانین کی ضرورت پڑے گی۔
محض کسی تیکنیک کو ماضی کی روایتوں اور اخلاقی قدروں سے میل نہ کھانے کی وجہ سے اس کو روکنے کی کوشش نہ تو پہلے کبھی کامیاب ہوئی ہے، نہ آئندہ کبھی ہوگی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اختراعات و ایجادات کے اس سیلاب کے سامنے بندھ باندھنے کے بجائے اس سے انسانی فلاح کے لیے راستے نکالے جائیں، تو یہ پوری نوعِ انسانی پر احسانِ عظیم ہوگا۔
جب بھی کوئی نئی اختراع یا ایجاد سامنے آتی ہے، یا پھر مروجہ طرزِ معاشرت کے برخلاف کوئی نئی طرز اختیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس پر سب سے پہلا ردّعمل یہ سامنے آتا ہے کہ ’’یہ انسانی فطرت کے برخلاف ہے!‘‘۔
آئیے پہلے ہم انسانی فطرت پر غور کرتے ہیں۔ بہت سے دانشمندوں کا خیال ہے کہ فطرت کی بنیاد پر نوعِ انسانی کا اتحاد ممکن ہے۔ اس فطرت کو وہ بعض اخلاقی اصولوں پر مشتمل سخت اور کٹھور قسم کے نظامِ معاشرت کے ذریعے انسانوں میں اُجاگر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نظامِ معاشرت کھانے پینے، بول و بزار اور ازدواجی تعلقات سمیت بہت سے انسانی تقاضوں پر ہزاروں قسم کی قدغنیں عائد کرتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے بچپن میں ہم جس ماحول کے عادی رہے ہوں، وہی ماحول ہماری فطرت بن جاتا ہے۔ اس نکتے کو اس مثال سے سمجھیے کہ ایک ایسا شخص جس نے بچپن سے لے کر بڑھاپے تک جانوروں کو بطور سواری استعمال کیا ہو، اس کے سامنے سائیکل پیش کی جائے تو وہ اسے خلافِ فطرت قرار دے گا۔ جبکہ ایسے افراد جو بچپن سے پیرانہ سالی تک سائیکل چلاتے رہے ہوں، بوڑھاپے میں آٹومیٹک کاروں کو دیکھ کر یہی کہتے ہیں کہ یہ ہمیں فطرت سے دور لے جارہی ہے۔
بعض ایسے قدیم قبائل آج بھی دنیا میں موجود ہیں، جن کے افراد بے لباس زندگی گزارتے ہیں۔ افریقہ کے ایک قدیم قبیلے زولو کا شمار بھی ایسے ہی قبائل میں ہوتا ہے، علاوہ ازیں بعض خطوں میں آج بھی قدیم روایات پر عمل پیرا ایسے قبائل موجود ہیں، جن کا جدید دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ ان قبائل کے افراد کو اگر لباس پہنانے کی کوشش کی جائے گی تو وہ یقیناً لباس کو غیرفطری قرار دیں گے۔ جبکہ ہم جیسے اربوں انسان جو بچپن سے ستر پوشی کے عادی رہے ہیں، بے لباسی کو خلافِ فطرت کہتے ہیں۔
آگ کی دریافت سے پہلے جب انسانوں نے کھانا پکانے کا ہنر نہیں سیکھا تھا، اس وقت تک وہ کچا گوشت یا نباتات بطور غذا کے استعمال کرتے تھے، مخصوص اعضاء کی ستر پوشی ایک ضرورت تھی، جس کی بناء پر یہ اختراع سامنے آئی، تاکہ بیٹھتے وقت کھردری زمین اور خاردار جھاڑیوں وغیرہ سے زخمی ہونے سے بچا جاسکے۔ زرعی دور کے بعد کپڑے کی ایجاد ہوئی اور پھر ایک عرصے تک بغیر سلے ہوئے لباس کا رواج رہا۔ آج جبکہ انسانی شعور معلوم تاریخ کے اعتبار سے انتہائی بلندی پر جاپہنچا ہے، آج بھی بہت سی اقوام میں بغیر سلا ہوا لباس پہننا فطری بلکہ مقدس سمجھا جاتا ہے، اور بعض مخصوص عبادات کے موقع پر یا مذہبی شخصیات کے لیے سلا ہو الباس زیب تن کرنا حرام سمجھا جاتا ہے۔
فطرت کے حمایتیوں نے غذا کے متعلق بھی قواعد و ضوابط متعین کر رکھے ہیں، ظاہر ہے ان قواعد و ضوابط کی ابتداء اسی دور میں ہوئی ہوگی، جبکہ انسان نے غذا کا استعمال کرنا اچھی طرح سیکھ لیا ہوگا۔ ہر دور میں اور ہر خطے میں ان قواعد و ضوابط کے اندر مختلف قسم کے ردّو بدل کیے جاتے رہے۔ بعد میں جب ان قدیم روایات کو مذہب کا مقدس سائبان میسر آگیا، تو پھر ان میں تغیر و تبدل قابلِ گردن زنی ٹھہرا۔
ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ فطرت کے پرستار یا اس فطرت کو ایک قادر مطلق ہستی کی رضا و منشاء کے تابع قرار دینے والوں کی اپنی آراء بیشتر معاملات میں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ حالانکہ توحید کے پرستاروں میں ایسا نہیں ہونا چاہیے، لیکن ان کی جداگانہ فطرت انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
غیرجانبدار طرزفکر ہمیں ایک ایسے زاویہ نظر سے متعارف کرواتی ہے، جس کے ذریعے ہم طبعی فطرت کو بے رنگ پاتے ہیں، یعنی وہ اپنی کنہہ میں نہ تو اچھی ہے، اور نہ ہی بُری…. مثال کے طور پر ہمالہ پربت پر آباد تبتی قبائل میں خواتین ایک سے زیادہ شوہر رکھتی ہیں۔ دنیا کے دیگر خطوں میں آباد بعض قدیم قبائل میں یہ روایت آج بھی زندہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ روایت مادرانہ نظام کی یادگار ہے، جو سامی مذاہب کی ابتداء بلکہ سچ کہیے تو مذاہب کے آغاز سے قبل دنیا میں رائج تھا۔ غیرسامی مذاہب جادو پر یقین رکھتے تھے، جسے بعض ماہرین نے سائنس کی ابتداء قرار دیا ہے۔
بہرکیف ایک سے زیادہ شوہر کی روایت دنیا کی دیگر اقوام کے لیے سخت غیرفطری ہے، جہاں یا تو سامی مذاہب کی پیروکار اقوام آباد ہیں، یا پھر ایسی اقوام جو سامی مذاہب کی روایات سے متاثر ہیں۔ ان اقوام کے ایسے افراد جو غیرجانبدار طرزفکر کے دعوے دار ہیں، وہ بھی ایک سے زیادہ شوہر کی اس قدیم روایت کے خلاف دلائل کے انبار لگادیں گے، اور اسے خوشگوار ازدواجی زندگی کے خلاف قرار دیں گے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان قدیم قبائل میں ایسی کوئی صورتحال درپیش نہیں ہے، اور ایک سے زیادہ شوہر رکھنے والی خواتین، اُن خواتین سے زیادہ خوشگوار زندگیاں گزار رہی ہیں، جن کے ایک شوہر ہیں یا جن کے شوہر کی ایک سے زیادہ بیویاں ہیں۔ اور ان قدیم قبائل کے مرد بھی ہمارے معاشرے کے بہت سے مردوں سے زیادہ مطمئن ہیں۔
یہاں پہنچ کر ہمیں لامحالہ یہ تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ انسان کی طبعی فطرت بےرنگ ہے، اس میں خطے، موسم، اور روایات نے مختلف رنگ بھردیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ ہر خطے میں مختلف اقوام میں ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دیتی ہے۔
یہ اختلاف اس قدر گہرے ہیں کہ ایک مذہب کی حامل اقوام میں بھی نمایاں طور پر محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ مختلف خطوں اور ملکوں میں آباد مسلم اقوام کی معاشرتی روایات ہی نہیں بلکہ مذہبی رسوم میں بھی اختلاف نمایاں طور دیکھا جاسکتا ہے۔
ہم بات کررہے تھے طبعی فطرت کی…. بھوک ہر انسان کو محسوس ہوتی ہے، کوئی روٹی سے بھوک مٹاتا ہے، کوئی برگر تو کوئی گائے کا گوشت اور کوئی سؤر کا گوشت کھاتا ہے۔ بعض جگہ گھوڑے، گدھے، کتے اور حشرات الارض تک کھائے جاتے ہیں۔
روٹی کھانے والا برگر کو غیرفطری گردانتا ہے، گائے کا گوشت کھانے والے افراد سؤر کے گوشت کے استعمال کو غیرفطری کہتے ہیں، جبکہ سبزی خوروں کے نزدیک گوشت کا استعمال ہی غیرفطری ہے، چاہے وہ کسی بھی جانور یا پرندے کا ہو۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان مختلف غذاؤں کے استعمال سے انسانوں کی صحت یا مزاج پر ایسا کوئی نمایاں اثر ظاہر نہیں ہوتا، جو ان مختلف غذاؤں کو غیرفطری قرار دینے والوں کے ذہنوں میں راسخ ہوچکا ہے۔
مثلاً سبزی خور افراد جو گوشت کا استعمال غیرفطری قرار دیتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ گوشت خوری سے انسان کے اندر نیکی کا عنصر کم ہوجاتا ہے، اور انسان میں وحشیانہ جذبات عود کرآتے ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ گوشت خوروں میں نیک، انسان دوست اور اپنی اپنی استطاعت و استعداد کے مطابق انسانی فلاح کے لیے جدوجہد کرنے والے افراد کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔
غیرجانبدار ہوکر مشاہدہ کیا جائے تو سؤر کا گوشت استعمال کرنے والی اقوام میں پایا جانے والا نظم و ضبط، اخلاقی قدروں کا اعلیٰ معیار، علم و ہنر کے حصول میں ان کی بے مثال جستجو اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ان کی قابلِ رشک ترقی، سؤر کو غیرفطری قرار دینے والی اقوام سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے۔
یہاں ہم خدانخواستہ سؤر کے گوشت کے حق میں دلائل نہیں دے رہے ہیں، بلکہ مقصودِ بیان سائنسی اندازِ فکر کی جانب متوجہ کرنا ہے، جو روایات پرستی، اسلاف پرستی، شخصیات پرستی، نظریات پرستی، عقائد پرستی، لفظ پرستی اور قدامت پرستی کے برعکس انسانی صحت کے لیے مضر یا مفید کا تعین تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر کرتی ہے۔
♣