کریمہ بلوچ: کوہساروں کی رسم نہیں خاموشی

ذوالفقار علی زلفی

kk

ذاتی ملکیت کے تقدس کے تصور پر قائم سماج میں عورت کی حیثیت کیا ہے ؟؟ ذاتی ملکیت…..بورژوا مغربی معاشروں میں لبرل ازم کے پرفریب اور میک اپ زدہ نظریات کی آڑ میں عورت کی آزادی کے نعرے تلے نسوانیت بیچی اور خریدی جاتی ہے جبکہ مشرق کے جاگیرداری و قبائلی معاشروں میں غیرت اور عفت و عصمت کے کھوکھلے نظریات کے بل پر یہ کاروبار جاری ہے۔

مشرق کا حصہ ہونے کے باعث بلوچ سماج بھی اس لعنت سے پاک نہیں….بلوچی کلاسیکل شاعری کی رو سے قدیم بلوچ سماج آج کی نسبت عورت دشمنی کے معاملے میں تھوڑا بہتر تھا۔

ھانی،ہاں شے مرید کی گم گشتہ محبوبہ تھی وہاں وہ ایک مدبر،مشیر جنگ اور سیاسی رہنما کے روپ میں بھی نظر آتی ہے،سردار چاکر کی بہن، بانڑی ، بھی ایک ایسا ہی نسوانی کردار ہے جسے آج بھی ایک اساطیری کردار سمجھا جاتا ہے….بلوچی کلاسیک شاعری سے مہناز و گراناز کا بھی پتہ ملتا ہے…..مہناز جس نے مردانہ غرور قلعے پر نسوانی حملہ کرکے شہداد کی مردانگیکے بت کو پاش پاش کردیا اور گراناز نے میدان جنگ سے پیٹھ دکھا کر بھاگنے کا قصہ سن کر اپنے شوہر لِلّھ کو ٹھکرادیا۔

کلاسیک دور گوکہ آئیڈیل نہ تھا ، وہ ایک فیوڈل سماج تھا جس میں فیوڈل ازم کی تمام خامیاں اور سفاکیاں موجود تھیں مگر بہر کیف وہ نوری نصیر خان کی سلطنت شاہانہ سے بدرجہا بہتر تھا جس نے عورت دشمنی کی پہلی اینٹ رکھی اور بعد ازاں اس  پر پوری عمارت تعمیر کردی گئی۔

بلوچ سماج میں عورت کی حیثیت عضو معطل کی سی ہے….وہ صرف و محض مرد کا سایہ ہے….سایہ بننے کا شرف بھی فیوڈل خاندان کی ملک زادی کو حاصل ہے نہ کہ عام بلوچ کو ،عام عورت کا سایہ بھی جنس حرام ہے۔

سرداروں نے اسمبلی میں عددی اکثریت قائم رکھنے کیلئے کبھی کسی پروین مگسی کو اسمبلی میں بھیجا تو کبھی کوئی فضیلہ عالیانی بن کر آئی۔پاکستانی حکمرانوں کی ضرورت بن کر کبھی کسی زبیدہ جلالکا بھی نام چمکا۔قوم پرست ، جو خود کو ترقی پسندی اور سوشلزم کا داعی کہتے نہیں تھکتے ان کی صفوں میں بھی عورت شجر ممنوعہ رہی۔

بلوچ عورت کبھی کاریکا نام پاکر مرد کی مونچھوں کو تاؤ دینے کا سبب بنی کبھی کوئی سردار ان کو زندہ درگور کرنے کو بلوچ روایت منوانے پر مصر رہا….بلوچ سماج میں عورت کی عزت اور توقیر کی بیہودہ کہانیوں میں ہمیشہ یہ دکھایا جاتا ہے کہ عورت ، کم عقل ، سازشی ، حاسد اور عشق باز ہوتی ہے سو حاصل کلام یہ مرد اس کو باندھکر رکھے۔

بلوچ تحریک کے حالیہ ابھار نے جدلیاتی انداز میں سماج کے فرسودہ اقدار و روایات کو بھی دعوت مبارزت دی ہے۔صدیوں سے قائم سماج کو سالوں میں بدلنا ممکن نہیں تاوقتیکہ معروضی حالات ایک انقلابی جست کی دہلیز پر نہ پہنچ جائیں اور بلاشبہ اس فیصلہ کن انقلابی جست سے ہم ہنوز دور ہیں۔ البتہ توڑپھوڑ کا جو عمل شروع ہوچکا ہے اس کے مثبت و منفی پہلوؤں سے قطع نظر وہ خوش آئند ہے۔

طرز کہن پر اڑنے والی قوتوں کا راج تاحال برقرار ہے اور آئین نو کے حامی ہنوز گم کردہ راہ ، اس لیے سفر طویل ہے۔

اس تحریک نے بلوچ عورت کیلئے بے پناہ مواقع پیدا کئے ہیں ، باز یافت ، خودشناسی اور اپنی نسوانیت کو منوانے کا راستہ فراہم کردیا ہے۔دور حاضر کی گراناز و مہناز نے اس موقع کو استعمال کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا ، یہی دیکھ کر امید کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا نہیں ہے۔

عندلیب گچکی ،شکر بی بی ، فرزانہ مجید ،کریمہ بلوچ سمیت متعدد خواتین نے۔۔۔ عام اور گھریلو خواتین نے میدان عمل میں آکر خود کو ثابت کیا اور منوایا۔عندلیب گچکی آج بلوچی افسانہ نگاری کے میدان میں سرگرم ہیں ،فرزانہ مجید نے کوئٹہ اسلام آباد براستہ کراچی لانگ مارچ کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی۔

kk2

کریمہ بلوچ ،بلوچ سیاست کی اولین خاتون رہنما ، ایک روایت شکن اور نئے عہد کی بازگشت بن کر سامنے آئیں۔

خلیج کا بازار دبئی ، ایک شہرِ مزدور کش ،کریمہ بلوچ کی جائے پیدائش ہے ، جہاں وہ 1986 کو پیدا ہوئیں…..یہ وہ دور تھا جب بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں ضیاالحق کا اسلام نافذ تھا ۔ عورت کی بے توقیری کو آئین کا حصہ بناکر ملاؤں کے ذریعے سماج کی رگ رگ میں پھیلایا جارہا تھا۔آدھی گواہی ، وراثت سے محرومی , نامحرم و محرم کا ٹنٹنہ , حدود آرڈیننس کے قصے۔۔۔ضیاالحق نام کی یہ بیماری آج تک پاکستان کو لاحق ہے۔

وہ پیدا تو دبئی میں ہوئیں مگر شاید وطن کی مٹی کی کشش کا مقابلہ نہ کرسکیں۔ اس لیے جب ہوش سنبھالا تو خود کو بلوچستان میں پایا۔تمپ , پنّو کے کیچ مکران کا حصہ ، ان کا آبائی گھر ہے۔بے آب و گیاہ پتھریلی سرزمین اور سنگلاخ چٹانوں میں گھری یہ چھوٹی سی بستی جہاں بقول ہمارے لافانی شاعر عطا شاد کے رات خاموش ہو تو بہتا ہوا پانی بولےکریمہ بلوچ کیلئے پوری کائنات بن گئی ۔

یہ کائنات کنویں کے مینڈک جیسی کائنات نہ تھی ، یہاں فدا بلوچ جیسے سوشلسٹ طالب علم لیڈر کا اثر تھا ، یہ ضیاالحق کے دربار میں جرم بغاوت پر پھانسی کا پھندہ چومنے والے حمید بلوچ کے نظریاتی جانشینوں کا مسکن تھا….غلام محمد بلوچ جنہیں بلوچ قوم کا غریب ہیرو تسلیم کیا جاتا ہے ,،وہ بھی تمپ کے ہی ہمسائے تھے۔سو, کریمہ نے انقلاب و نظریات کی گود میں پرورش پائی۔

ان کا گھر ،جہاں ایک دادی کہانیاں سناتی تھی ، جدوجہد کی کہانیاں ، ظلم و تشدد مخالف کہانیاں ، وہ گھر جہاں صبح و شام سیاست اور سیاسی نظریات پر بحث ہوتی تھی ،ننھی سی کریمہ کی سمجھ میں وہ بحثیں تو نہ آتیں مگر دادی کی داستانوں کو ملا کر وہ سمجھ چکی تھیں کہ وہ شب گزیدہ سحر کا نوحہ ہیں اور انقلاب اس سحر کا راستہ جس کا حمید و فدا نے خواب دیکھا…..ایک آزاد اور جمہوری وطن کا خواب۔

اسکول کی زندگی میں ہی انہوں نے اپنا راستہ چن لیا ۔ کانٹوں بھرا راستہ ،وہ راستہ جو دادی کی کہانیوں میں شہزادی ظالم بادشاہ کے خلاف اختیار کرتی تھی۔یہ ایک لاشعوری فیصلہ تھا ، معروض سے متاثر فیصلہ ، مگر وقت نے جب شعور کے دروازے پر دستک دی تو انہوں نے شعور کو ذاتی خوشحالی و ذاتی مفاد پر قربان کرنے کی بجائے اسلاف کا راستہ ہی منتخب کیا۔

یہ واقعہ 2006کو ہوا۔

بارہ اکتوبر 1999،, پاکستان میں جمہوریت نام کے ڈرامے میں انٹرویل کا اعلان ہوا ۔ خاکی وردی کے نمائندے پرویز مشرف تبدیلی کا اشتہار بن کر سامنے آئے….مشرق کی بیٹی اور آج کی شہیدِ جمہوریت بینظیر بھٹو نے انگریزی زدہ اردو میں اس انٹرویل کا خیرمقدم کیا ۔ لندن نشین نقیب انقلابالطاف حسین نے بغلیں بجائیں ، تبدیلی کے پرستار عمران خان اور دیگر نے دیدہ و دل فرش راہ کئے۔مگر کاہان کا بوڑھا فلسفی بلوچ سردار اور سنگسیلہ کا انا پرست بگٹی سردار اپنی اپنی جگہوں پر کچھ مختلف سوچ رہے تھے۔

یہ سوچ عمل بن کر 2004 کو سامنے آئی اور پوری شدت کے ساتھ سامنے آئی۔۔۔ بہت کچھ بدل گیا , بہت کچھ بدل رہا ہے اور بہت کچھ بدلنا باقی ہے….کراچی ,،لاہور، اسلام آباد اور کوئٹہ جیسے طاقت کے مراکز سے کوسوں دور تمپ کی کریمہ بھی بدل گئی۔

وہ اب اسکول کی بچی نہیں رہی ، نوجوان طالبہ تھی ، سوچنے والی طالبہ….جب وطن کی فضاؤں میں اس انقلاب کے بادل گرجے جس کے سپنے انہوں نے بچپن میں دیکھے تھے تو انہوں نے ان بادلوں کے دوش پر سفر کرنے کیلئے رخت سفر باندھا۔انہوں نے طلبا تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کرلی۔

kk1

لڑکی اور سیاست !…….پانی ، بجلی ،ہسپتال ، سڑک سمیت انسان ہونے کے ہر حق سے محروم دیہاتی بلوچ کی سمجھ میں کریمہ کا یہ فیصلہ بالکل نہ آیا۔سمجھنا تو دور اس سے ہضم تک نہ ہوا۔مذہبی تاویلات گھڑی گئیں ، ملاؤں کی تان میں تان ملاکر ایک کورس شروع ہوگیا…..مگر بے سود….ترکش کے تیر ختم کہاں ہوئے تھے….بلوچ اقدار و روایات کی زنجیریں تیار کی گئیں ، غیرت ، عزت ،آبرو ,،نسوانیت کے مضامین باندھے گئے….توبہ توبہ کا وردان لیاری جا پہنچا۔

اہلخانہ نے ہمت بندھائی ،بہن بھائیوں نے رکاوٹ نہ بننے کی یقین دہانی کرائی ، سو تھوڑی راحت ملی۔

مکران کا قبائلی و ذات پات میں بٹا سماج , ملائیت زدہ سماج , کافی تلملایا….رہی سہی کسر ارب پتی متوسط طبقے نے پوری کردی یعنی ایک نہتی عورت سے پورا معاشرہ خائف تھا.۔

انہوں نے نہ صرف اندرونی لڑائی جاری رکھی بلکہ اسلام آباد و پنڈی میں بیٹھے فرعون صفت حکمرانوں کو بھی چیلنج کردیا…..بلوچ سیاست میں کریمہ بلوچ کا ظہور ایک خوشگوار اضافہ ثابت ہوا مگر چونکہ پاکستانی معاشرہ غلاظت اور بدبودار قے میں پلتا ہوا ایک گلا سڑا سماج ہے اس لیے کریمہ بلوچ کو روکنے میں کامیابی نہ پاکر ان کی نسوانیت کو نشانہ بنانے کی قابل نفرت کوشش کی گئی۔افسوس، اس میں دوست و دشمن سب شامل رہے۔

ایک بلوچ اخبار کی خاتون ایڈیٹر نے کریمہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی آنکھوں پر سیاسیقصیدہ لکھا گویا کریمہ کی سوچ اور ان کا نظریہ نقاب سے جھانکتی آنکھوں کے سوا کچھ نہیں ۔پھر تو تانتا بندھ گیا ، ایک اور دانشور نے ان کو شربتی آنکھوں کا خطاب دیا ، آنکھیں سمبل بن گئیں۔ان آنکھوں میں چھپے دکھ ، تازیانے، حکمرانوں و خاکی وردی کیخلاف نفرت ، شرارے ,،صرف افتادگان خاک دیکھ پائے ۔ اسی لیے تو افتادگان خاک ان کے نام سے پہلے بانک” , “گودییا گھارکا لاحقہ ضرور لگاتے….بلکہ ایک بزرگ بلوچ شاعر تو ان کو امّاکہہ کر یاد کرتے ہیں۔

جس دوران وہ پاکستانی میڈیا کے سامنے بلوچ مقدمہ لڑ رہیں تھی اسی دوران ان کی بے توقیری کے قصے گردش کرنے لگے۔

انہوں نے ان تمام فضولیات کا ڈٹ کر سامنا کیا بلکہ شاید وہ سرخرو ہوکر نکلیں….ان کے بقول جس سماج سے میرا تعلق ہے وہ ایک پسماندہ اور سیاسی شعور سے عاری معاشرہ ہے اور سماج کی رہنمائی اور تربیت کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں کی ہے چونکہ میرا تعلق ایک سیاسی جماعت سے ہے اس لیے میرا گلہ کرنا فضول ہوگا کیونکہ پھر یہ شکایت تو مجھے خود سے کرنی ہوگی ،آخر سماج کو بدلنا تو میری ذمہ داری ہے۔

وہ سمجھتی ہیں کہ معاشرے میں موجود تاریکی کی قوتوں سے لڑنا میرا مقصد ہے ان کی موجودگی پر رونا دھونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

اس نظریے کے تحت وہ تاحال سیاست میں سرگرم ہیں۔وہ بلوچ عورت کی غلامی اور اس کی پسماندگی کو قبائلی نظام اور پاکستانی نوآبادیاتی سسٹم سے جوڑتی ہیں ، ان کے مطابق موجودہ قبائلی نظام انگریز کے نوآبادیاتی عہد کے سانچے سے ڈھل کر نکلا ہے۔ اس لیے اس نظام کی شکست و ریخت لازمی ہے اور دوسری جانب چونکہ اس نظام کو آکسیجن پاکستان مہیا کررہا ہے سو من حیث القوم پاکستان سے نجات بھی لازمی ہے۔گویا وہ دو محازوں پر لڑرہی ہیں ، سردار اور سرکار دونوں کیخلاف۔

پاکستان میں کسی عورت کا سیاست میں حصہ لینا یوں بھی طوفان کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔اگر عورت بلوچ ہو تو یہ طوفان محض طوفان نہیں بلکہ سونامی بن جاتی ہے….کریمہ بلوچ کا سامنا بھی سونامی سے ہے….مسخ لاشوں ، جلتے گھروں ، مسمار مکانوں ، جنسی غلام بنائی گئیں عورتوں کی نمائندہ بن کر ریاستی قوت سے ٹھکرانا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔

اس راستے پر انہوں نے سینکڑوں رفیقوں کے مسکراتے چہروں کو مسخ ہوتے دیکھا ، کچھ کو ہمیشہ کیلئے لاپتہ افراد میں پایا ، ان گنت خواتین کو بے توقیری کے مراحل سے گزرتا دیکھا ،درجنوں سیاسی دوستوں کی طوطا چشمی کا ملاحظہ کیا ، خود بھی بہادرفورسز کے ڈنڈوں کا سامنا کیا…..حوصلہ نہ ٹوٹا تو ایف آئی آر درج کی گئی ، ظلمت کدے میں یہ اعلان بھی سنا گیا اب کریمہ بلوچ کو گرفتار کرکے واحد کمبر کے سامنے بے لباس نچایا جائے گا…..پاکستانی ریاست کے ایوانوں سے تہذیب کی امید کوئی بدتہذیب ہی رکھے۔

واحد کمبر کا جواب بھی ظلمت کدے کے بدقماش و بدمعاش ظلمت پرستوں کو موصول ہوازرینہ مری بھی تو بلوچ تھی“….

اور تم بلوچ کو کس کس شے سے ڈراؤگے۔

شاید یہ ان پر سب سے زیادہ بھاری لمحہ تھا…..پر شاید۔۔

کیونکہ وہ کہتی ہیں غلامی کی زندگی سے زیادہ بھاری بھلا کیا ہوسکتا ہے ، متعدد سیاسی دوست ،کامریڈ چھین لیے گئے ، جنگ و جدل میں سانس لیتا وجود ، بھاری لمحہ تو ہر لمحہ ہے ، ہر آنے والا لمحہ گزرتے لمحے سے زیادہ بھاری ہے۔

اس ایف آئی آر نے تاہم ان کو محتاط بنادیا ۔ جوش پر ہوش نے پہرے ڈال دیے ، تعلیمی زندگی درہم برہم ہوگئی جس کا دکھ غالباً انہیں عمر بھر رہے گا۔

جہاں جوش پر ہوش غالب آیا وہاں گرفتاری کا خطرہ بھی آسیب بن کر چمٹ گیا….وہ جانتی تھی پاکستانی خفیہ اداروں کے ہاتھوں گرفتاری کا مطلب کیا ہے ، وہ گرفتاری کے نتائج و عواقب سے مکمل آگاہ تھی ۔امریکی پولیس نے ایما گولڈ مان کو بارہا گرفتار کیا اور یقیناً جیل میں ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک بھی کیا گیا مگر پاکستانی خفیہ ادارے امریکی پولیس سے زیادہ گرے ہوئے اور ان کے عقوبت خانے امریکی جیلوں سے زیادہ خوفناک ہیں ، اس بھیانک حقیقت کا انہیں بخوبی علم تھا ، اس کے باوجود ان کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔

عوام سمیت ان کے نظریاتی ساتھیوں پر اس وقت حیرت کے پہاڑ ٹوٹے جب کریمہ بلوچ نے بی ایس او کے چیئرمین زاہد بلوچ کی اغوا نما گرفتاری کی خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ میں سر اٹھا کر اس درندگی کی تفصیلات بیان کیں۔

انقلابی سرداروںکے بے روح ڈھنڈورچیوں نے دانشوری کا لبادہ اوڑھ کر ان کو پاگل ، بے وقوف اور ناپختہ لڑکی کے القابات سے نوازا ۔ مگر انقلاب تو دیوانوں کا کھیل ہے ، کون سمجھائے !!!۔

ناپختہ اور پاگل لڑکی سے ڈرتے ہو…..سردار ،سرکار آپ بھی کمال کرتے ہو۔۔۔

کریمہ بلوچ سیاسی لحاظ سے ڈاکٹر اللہ نذر سے متاثر ہیں غالباً اسی لیے بلوچ تحریک کا سردار دھڑا ان پر صحت مند تنقیدکی بندوق سے نشانہ بازی کی مشق لاحاصل میں جتا رہتا ہے۔

بی ایس او کے حالیہ کونسل سیشن میں وہ تنظیم کی چیئر پرسن کے عہدے کیلئے منتخب کی گئیں ۔ معلوم بلوچ تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے کہ ایک خاتون جہد مسلسل اور محنت کے بعد ایک تنظیم کی سربراہ منتخب ہوئیں……یہ نہ صرف کریمہ بلوچ بلکہ بلوچ قوم کیلئے بھی کسی اعزاز اور فخر سے کم نہیں اور آزادی نسواں کے میک اپ زدہ علمبرداروں کے منہ پر طمانچہ جو عورت کی آزادی کو سماج کی آزادی سے الگ تصور کرتے ہیں جو عورت کیخلاف , عورت کی زبان میں سازش کرتے ہیں۔

کریمہ بلوچ کی سربراہی ہر چند کوئی بڑی کامیابی نہیں ۔ ابھی جنگ جاری ہے ، مگر طاغوتی طاقتوں کیخلاف خاک نشینوں کی یہ ایک اہم کامیابی ہے ، ایک امید کا ستارہ۔

kk5

بلوچستان کی بگڑتی صورتحال اور سخت حالات کے باعث چند دنوں پیشتر کریمہ بلوچ نے جلاوطنی اختیار کرنے کا فیصلہ کرکے کینیڈا کو مستقر بنایا….یہ ایک درست فیصلہ ہے کیونکہ بقول کامریڈ بھگت سنگھ انقلاب کو شہیدوں کی نہیں سخت اور پر مصائب حالات میں جدوجہد کرنے والوں کی ضرورت ہے سو زندہ رہو اور کام کرو۔

طالب علم لیڈر ہونے کے باعث ان پر قومی سیاست سے متعلقہ معاملات پر رائے طلب کرنا یا کسی پالیسی کی امید رکھنا شاید زیادتی ہو مگر چونکہ بی ایس او کی حیثیت بلوچ سیاست میں ہراول دستے کی سی ہے اور عوام نے ہمیشہ بی ایس او کو ٹوٹتے ، بکھرتے ،بکتے اور جھکتے دیکھا ہے اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی ان کو مان لینا چاہیے کہ وہ بشیر زیب یا ڈاکٹر امداد کی طرح سر جھٹک کر گمنام زندگی سے لطف اندوز ہونے کا حق نہیں رکھتیں۔

وہ جس مقام پر کھڑی ہیں وہ مقام ان کی محنت کا ماحصل ہے ، اپنی محنت کو لٹتا دیکھنا شاید انہیں بھی گوارا نہ ہو اس لیے انہیں اب زیادہ میچور اور زیادہ پختہ سیاست کی جانب آنا ہوگا۔

کینیڈا کی سرد اور پرسکون فضاؤں میں چند لمحے وہ ماضی کی غلطیوں اور مستقبل کے امکانات پر ضرور صرف کریں۔۔۔

3 Comments