ڈاکٹر منان بلوچ کی شہادت اور حقائق

لطیف بلوچ

7881eb7832ee7e5b27d81c3b3738d384

ویسے تو ہر دن بلوچ قوم کے لئے سیاہ دن کی حیثیت رکھتا ہے لیکن 30 جنوری بلوچ سیاسی تاریخ میں ہمیشہ سیاہ دن کی حیثت سے یاد رکھا جائے گا کیونکہ اس دن ایک سیاسی اُستاد، معالج، قلمکار ڈاکٹر منان بلوچ اوراُس کے ساتھ دیگر چار بلوچ سیاسی کارکنوں اشرف بلوچ، نوروز بلوچ،ساجد بلوچ اور حنیف بلوچ کو آرمی نے مستونگ کے علاقہ کلی دتو میں ایک آپریشن کے دوران شہید کردیا۔

منان بلوچ سیاسی و تنظیمی دورے پر وہاں موجود تھے۔ جب علی الصبح پاکستانی فورسز نے کلی دتو میں اُس گھر کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن کا آغاز کیا اور مہمان خانے میں موجود بی این ایم کے سیکرٹری جنرل منان بلوچ و اُس کے ساتھیوں کو پہلے حراست میں لے لیا گیا ۔مقامی مخبر جو اُن کے ساتھ تھا مکمل شناخت کروانے کے بعد منان بلوچ سمیت وہاں موجود دیگر افراد کو سروں میں گولیاں مار کر شہید کردیا گیا۔

لیکن کٹھ پتلی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی ایف سی و پولیس آفیسرز کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے منان بلوچ کو مسلح تنظیم بی ایل ایف کا کمانڈر اور دہشت گرد ظاہر کرنے اور اُنکی شہادت کو مقابلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایف سی کانوائے پر حملے کے دوران کراس فائرنگ میں منان بلوچ و اُس کے ساتھی مارے گئے ۔لیکن وہاں موجود کوئی بھی صحافی نے اُن سے یہ پوچھنے کی  جرات نہ کرسکا کہ یہ کیسا مقابلہ ہے۔ گھات میں بیٹھے تمام حملہ آوار مارے گئے لیکن ایف سی اہلکاروں میں سے کسی کو خراش تک بھی نہیں پہنچا۔ 

جبکہ سوشل میڈیا پر جاری تصاویر میں یہ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ تمام افراد کی لاشیں ایک کمرے میں پڑی ہوئی ہیں وہاں گھریلو سامان بکھرے پڑے ہوئے ہیں اور سب سے اہم بات کہ پانچوں افراد میں سے کسی کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار وغیرہ نہیں تھا۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ نہتے افراد نے کس طرح ایف سی پر حملہ کئے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ منان بلوچ مسلح تنظیم کا کمان دار اور دہشت گرد تھا اس میں کوئی صداقت نہیں ہے ۔منان بلوچ مسلح تنظیم کے کمان دار نہیں بلکہ سیاسی و جمہوری پارٹی بی این ایم کے سیکرٹری جنرل تھے اور بی این ایم سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے اور وہ بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے خلاف برسرپیکار ہے۔  بلوچستان کی آزادی کے لئے جدوجہد کررہی ہے۔

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل بی این ایم کے بانی سربراہ غلام محمد بلوچ، لالہ منیر بلوچ، شیر محمد بلوچ جن کا تعلق بی آر پی سے تھا ۔اپریل 2009 میں سیکورٹی فورسز اور آئی ایس آئی نے تربت میں اُن کے وکیل سابق ایم پی اے کچکول ایڈووکیٹ کے چیمبر سے اغواء کرکے اُنکی مسخ شدہ لاشیں مرگاپ کے مقام پر پھینک دی گئی تھی اور اس واقعہ کے چشم دید گواہ کچکول ایڈوکیٹ آج اپنے جان کو بچانے کے لئے جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔

بی این ایم کے جوائنٹ سیکرٹری رسول بخش مینگل کو اگست 2009 میں اُنکے فارم سے اغواء کیا گیا بعد میں اُن کی تشدد زدہ لاش بیلہ کے مقام پر کسی درخت سے لٹکی ہوئی ملی ۔ اُن کے جسم پر سگریٹ کے داغ سے پاکستان زندہ باد تحریر کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بی این ایم کے رہنماحاجی رزاق بلوچ کی بھی اس طرح تشددزدہ لاش برآمد ہوا تھا جبکہ کئی کارکن ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے اور کئی رہنماء و کارکن لاپتہ ہیں۔

بی این ایم کے خلاف یہ کاروائیاں تسلسل سے جاری ہیںبلکہ تمام آزادی پسند پارٹی و تنظیمیں ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں۔ اگر کوئی شخص ریاستی بربریت، قبضہ گیری، لوٹ مار اور بلوچ قوم کی غلامی کے خلاف تحریر، تقریر کرے گا یا  بلوچ کے حق میں آواز اُٹھائے گا تو وہ سب سے بڑا دہشت گرد و گنہگار ٹھہرایا جائے گا ۔کراچی سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن سبین محمود اور حامد میر کو بھی اس کی سزا بھگتنا پڑی ہے۔

جہاں تک منان بلوچ پر دہشت گردی کا الزام ہے تو وہ ایک سیاسی کارکن تھا میں سمجھتا ہوں۔ بلوچ مسلح جہد کار بھی دہشت گرد نہیں ہے وہ اپنی سرزمین کامحافظ ہے اور دفاعی جنگ لڑ رہا ہے ۔ دہشت گردی تو پاکستانی فورسز کررہی ہیں جو طاقت کے بل بوتے پر بلوچ سرزمین اور ساحل پر قابض ہوکر بلوچ قوم کی وسائل کو لوٹ رہے ہیں۔ بلوچ ننگ و ناموس کو تار تار کررہے ہیں، گھروں کو جلا رہے ہیں، بلوچ خواتین اور نوجوانوں کو اغواء کرکے عقوبت خانوں میں انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بناکر شہید کرنے کے بعد اُنکی مسخ شدہ لاشوں کو ویرانوں میں پھینکتے ہیں یا پھر اجتماعی قبروں میں دفن کرتے ہیں ۔

اگر ان تمام مظالم کے بعد کوئی بلوچ نوجوان بندوق اُٹھا کر اپنی مادر وطن کی دفاع اور آزادی کے لئے جدوجہد نہیں کرے تو اور کیا کرے کیونکہ اور کوئی راستہ اُن کے پاس نہیں بچتا آج پاکستانی فوج بلوچستان میں تمام عالمی قوانیں کو روند کر بلوچ قوم کی نسل کشی کررہی ہیں۔ ان حالات میں عالمی قوتوں کو بلوچ قوم کے ساتھ دینا چائیے اور اُنکی تحریک آزادی کا اخلاقی اور سیاسی حمایت کرنا چائیے۔

ڈاکٹر منان کو دشمن نے شہید کرکے جسمانی طور پر ہم سے اور تحریک سے جدا ضرور کیا ہے لیکن وہ ڈاکٹر منان بلوچ کے سوچ، فکر اور فلسفہ کو قتل کرنے، ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ بلوچ جہد کار آج بھی ڈاکٹر منان بلوچ کے تعلیمات اور فکر و فلسفہ پر کاربند رہتے ہوئے 

        بلوچستان کی آزادی کے لئے جدوجہد کررہے ہیں ۔

 دشمن ڈاکٹر منان کو شکست نہیں دے سکا دشمن ہار گیا اور ڈاکٹر منان جیت گیا ہے۔

جالب نے کیا خوب کہا ہے

محبت گولیوں سے بو رہے ہو

وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو

گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے

یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

Comments are closed.