ارشد نذیر
پی آئی اے کے ملازمین کے ساتھ جس وحشت اور بربریت کا ہماری جمہوری حکومت نے سلوک کیا ہے وہ کسی بھی مارکسسٹ کے لئے قطعاً کوئی انہونی بات یا واقعہ نہیں ہے ۔ مزدوروں اور محنت کشوں کے ساتھ اس کے بھی بھیانک حالات یہاں روزانہ کا معمول ہیں۔ یہاں کی اشرافیہ غریبوں اور مزدوروں کاکس کس طرح سے استحصال نہیں کرتی رہی ہے ۔سرمایہ داری نظام میں ریاست اور غریبوں کے درمیان تعلق ہی خوف کی بنیاد پر استوار کیا جاتا ہے ۔ پی آئی اے کے ملازمین کے اس احتجاج میں مندرجہ ذیل نئے پہلو ہیں جو ہم سب کے سوچنے کے لئے ہیں۔
۔1 ۔ پی آئی اے کی ملازمین کے پورے پاکستان کی سطح پر اتنی کامیاب ہڑتال پوری ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہو ئی ہے۔ اس کی حمایت پاکستان ریلوے اور ینگ ڈاکٹرز ایسویشنز اور دیگر چند ایک یونینز بھی کرنے لگی ہیں۔
۔2۔ پی آئی اے کے ملازمین پاکستان کی وائٹ کال جابز اور پروفیشنلز کی کلاس سمجھے جاتے ہیں۔ یہ درمیانہ طبقے کی اوپروی پرت کے لوگ خیال کئے جاتے ہیں ۔ کافی حد تک یہ بات درست بھی ہے۔ پوری دنیا میں سرمایہ داری نظام میں پروفیشنلز اور اسی طرح کی وائٹ کالر جابز والوں کے بارے میں لبرلز اور کچھ مابعدجدیدیت کے خیالات میں الجھے ہوئے مارکسی بھی ہمیشہ انہیں دور جدید کی ایک نئی کلاس خیال کرکے مارکس کے نظریات کو متروک کہتے رہے ہیں۔
یہاں سوچنے کا نکتہ یہ ہے کہ آخر ان لوگوں کو اپنی ملازمتوں کے چلے جانے کا اتنا خوف کیوں تھا کہ انہوں نے اتنی کامیاب ہڑتال کر دی اور وزیرِ اعظم کی سخت ترین دھمکی کے باوجود آج تک یہ ہڑتال کامیاب ہے۔
یہ درست ہے کہ پی آئی اے کے ملازمین کی زیادہ تر تعداد اچھے پروفیشنلز کی ہے ۔ پٹرپٹر انگریزی بھی بول لیتے ہیں ۔ ان کی اکثریت دنیا بھی گھوم چکی ہے۔ انہیں اپنے شعبے کی دنیا کی جاب کی منڈی کے بارے میں بھی معلومات ہوتی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ اتنے بپھر گئے اور اپنے احتجاج میں اتنی شدت لے آئے۔
کچھ نام نہاد لبرل اور جمہوریت کے مامے اس پر یہ دلیل دے رہے ہیں کہ اِ ن کے اس احتجاج کے پیچھے کچھ سیاسی جماعتیں ہیں۔ بات یہ نہیں ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ انہیں یہ بات پتا چل گئی ہے کہ پرائیویٹائزیشن ان کی جابز کی ضامن نہیں ہے ۔ ان کی جابز چلی جائیں گی اور پوری دنیا میں جس طرح سے مندی کا رحجان ہے انہیں کہیں دوسری جگہ جابز نہیں ملیں گی۔ اُن کے بچے بھوکے رہ جائیں گے۔
میرے خیال میں وائٹ کالر کلاس میں یہ احساس پہلی دفعہ کروٹ لے رہا ہے کہ وہ بھی مزدور ہی ہیں ۔ بس مزدوری صرف ذہنی اور دماغی کرتے ہیں۔ مارکسسٹ ایک عرصہ سے کہہ رہے ہیں کہ یہ ڈاکٹر ، انجینئر ، ٹیکنیشن ، استاد اور اس جیسے دیگر شعبوں کے لوگ بھی دراصل مزدور ہی ہیں ۔ یہ صرف مزدوری ذہنی نوعیت کی کرتے ہیں۔ سرمایہ دار کے لئے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
میرے خیال میں پاکستا ن میں اس حوالے سے ابھارنے والا یہ نیا شعور ہے جو اس طرح کی دیگر کلاسز جیسا کہ ینگ ڈاکٹرز ، نرسز اور اساتذہ ہیں کے احتجاجوں میں بھی دیکھا جاتا رہا ہے ۔ اس احتجاج کی کامیابی کے بعد درمیانے طبقے کے ان وائٹ کالز جابز والے پیشہ وروں میں بھی احتجاج کی نوعیت شدید ہو گی۔
پاکستان میں پہلی دفعہ درمیانے طبقے کے والدین کا پرائیویٹ سکولز کی فیسوں پر احتجاج بھی دیکھنے میں آیا ۔اگرچہ یہ کوئی پرولتاریہ کلاس نہیں ہے ۔ درمیانے طبقے کے یہ لوگ اپنے بچوں کو محض کیئریرسٹ بنانے کے لئے اپنی مرضی سے ان سکولز میں بھیجتے ہیں لیکن یہ احتجاج بھی ان کے اس خوف کا عکاس ضرور ہے کہ اب معیشت سکڑ رہی ہے اور ان کو بچوں کی تعلیم پر اٹھنے والے خرچ کے بارے میں فکر کرنی ہو گی۔ اگر ان احتجاجوں کا تجزیہ کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں طبقاتی تقسیم بڑی تیزی سے شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی ہے ۔
ایسے حالات میں ریاست اور ان کی حکومتی مشینری میں بیٹھی ہوئی ایک اشرافیہ کلاس کی کیفیت ایک باولے کتے جیسی ہو گی۔ وہ ہر احتجاج کو زیادہ شدت سے دبانے کی کوشش کرے گی۔ کارپوریٹ میڈیا اور کچھ نام نہاد کرائے کے جمہوریت نواز دانشور انسانی حقوق ، جمہوری عمل کی بقا اور گڈ گورنینس کی باتیں بھی کریں گے۔ لیکن آخری تجزئیے میں یہ تمام ہربے محض دکھاوا ثابت ہوں گے ۔
ایسے حالات میں حکومت کچھ پسپائی اختیار کرے گی اور پھر کسی دوسرے حیلے بہانے سے پرائیویٹائزیشن کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے گی۔ ہماری حکومت کے پاس معیشت کو چلانے کے لئے اور اشرافیہ کو نوازنے کے لئے پرائیویٹائزیشن کے علاوہ دوسرا کوئی علاج نہیں ہے۔ لہٰذا یہ احتجاج دیگر اداروں میں ہوتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ مزدروں اور محنت کشوں کے درمیان یہ کشمکش دھیمی اور تیز ہوتی ہوئے اگر بڑھے گی۔
♣