مہرجان
“میں پہلے سوچتا ہوں پھر مذہبی بن جا تا ہوں یا پہلے میں مذہبی بن جاتا ہوں پھر سوچتا ہوں۔
” علی عباس جلال پوری کی کتاب “اقبال کا علم الکلام” سے اقتباس
یہی اک سوال انسان کی سوچ کے محور کو یا تو تبدیل کرتا ہے یا تو پھر اک ایسی سرنگ میں پہنچا دیتا ہے جہاں سے نکلنا محال بن جاتا ہے۔ہم میں سے اکثر پہلے مذہب اختیار کرلیتے ہیں پھر سوچتے ہیں۔
اس لیے لامحالہ ہمیں جب جمہوریت یا لبرل ازم کی چکا چوند متا ثر کرتی ہے یا بلکہ میں یوں کہوں گا کہ جب ہم جمہوریت یا لبرل ازم کے متاثرین میں جگہ پالیتے ہیں تو پھر مذہب کو کھینچ تان کے “اسلامی جمہوریت” یا پھر” اسلامی سوشل ازم” کے دلفریب نعرے میں پرونے لگتے ہیں۔
اب یہ جملہ کہ “تمہارا حاکم قریش سے ہوگا” کیا فقط یہی اک جملہ جمہوریت کی روح کے منافی نہیں ہے۔ قریش مہاجرین میں اک قبیلہ تھا جس کی حکمرانی طے کی گئی لیکن کمال دانشوری دیکھیے کہ اس جملے میں سے خواہ مخواہ جمہوریت تراشی جارہی ہے اور تو اور خلافت کو بھی جمہوریت کا رنگ دیا جارہا ہے۔
“حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگرکو میں۔” اب میں آتا ہوں سیکولر حضرات کی طرف، وجاہت مسعود صاحب نے پوری پانچ اقساط پہ سیکولرازم کی تعریف اور بیانیہ بتانے کی کوشش کی جو کہ قابل تعریف ہے لیکن سوال نفاذ اور تطبیق کا ہے جو موصوف نے نہیں بتائی۔
بقول ریاستی تاریخ کے مسٹر جناح(وجاہت مسعود صاحب کے بقول سیکولر تھے) نے مذہب کے نام پہ اک ریاست حاصل کی پھر مذہب ہی کے نام پہ الحاقات کیے ۔اب سیکولرازم کا نفاذ کیونکر ممکن ہے؟کیونکہ اگر مسٹر جناح سیکولر تھے تو مذہب کے نام پہ تقسیم کو کیسے جواز دیا جائے گر وہ مذہبی تھے تو مذہب اور سیکولرازم میں تطبیق کیسے کی جائے؟
فقط یہی وہ سوال ہے جس کا جواب ملے بغیر ہمارے رویے تبدیل نہیں ہوسکتے کیونکہ مذہب اسٹیٹ کو “گیریژن اسٹیٹ” تو بنا سکتا ہے لیکن سیکولر اسٹیٹ نہیں اور تاریخی جوابات دیے بغیر سیکولرازم کی طرف قدم بڑھانا لاحاصل ہے ۔اور یہ کہنا کہ “تاریخی مردے” نہیں اکھاڑنے چاہییں بس آگے بڑھنا چاہیے( یہ بھی ویسے عجیب مردے ہیں جنہیں مسخ شدہ لاشیں بھی دفنا نہ سکیں) ۔
اصل میں یہاں پہ ہم ماضی پرستی اور ما ضی شناسی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کررہے ہیں ۔تب ہی تو پرویز ہود بھائی جیسے اہل علم یہاں پاکستان میں نیشنلزم کو ہدف تنقید بناکر گلوبلائزیشن کی بات کرتے ہیں جبکہ انڈیا میں ایک نیشنلسٹ نظر آتے ہیں۔
یہ تضادات بالکل اسی طرح ہے جس طرح مذہبی دانشور پہلے مذہبی بنتے ہیں پھر سوچتے ہیں (یہاں سوچنا مشکوک ہے) اسی طرح سیکولر حضرات ریاست کی ساخت میں رہ کر “ریاست سب کے لیے” اک محمل نعرہ لگاتے ہیں۔
کیا اب وقت نہیں آیا کہ مذہب اور ریاست پہ سوچنے کو فوقیت حاصل ہو انسانیت کے لیے ،محبت کے لیے، امن کے لیے سارتر کی طرح جو ڈیگال کے سامنے کھڑا رہا۔ دریدہ کی طرح جو پہلے پہ دوسرے کو ( لا مرکزیت) کو ترجیح دی۔ رسل کی طرح جو حکمت و امن کو ٹیکنالوجی پہ تر جیح دی ۔
ان سب دانشوروں نے سوچ کو فوقیت دی نہ کہ کسی ساخت کوتب ہی تو تاریخ انہیں انسانیت کے حوالے سے یاد کرتی ہے۔ یہ یقیناً ریاست اور مذہب سے بالاتر تھے۔
♦