نئیر خان
ہم آپ کو مملکتِ خدا داد پاکستان میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ پہلے اسے دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ لیکن دشمنوں نے سازش کر کے اِسے تھوڑا چھوٹا کر دیا۔ دراصل کافر قوتوں نے عجیب و غریب قِسم کے نظریات پیدا کر کے ہمارے ملک کے ایک خطے کے عوام کوبدظن کر دیا۔ ہماری فوج نے اُس خطے کی عوام کو پیار محبت سے سمجھانے کی کوشش بھی کی لیکن وہ نہ مانے۔ در حقیقت مغربی قوتیں شہری آزادی ، جمہوریت، شہری حقوق، اظہارِ رائے کی آزادی وغیرہ جیسے نظریات مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے ہیں۔ ہمیں اِن سازشوں سے با خبر رہنا چاہئے اور اِن سے بچنا چاہئے، جیسے کہ پاکستان ہمیشہ اِن سے بچتا آیا ہے۔
اِس کھوئے ہوئے اعزاز کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے ہم ازسرِ نو کوشاں ہیں، جس میں انشاء اللہ ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ چونکہ آبادی کے لحاظ سے ہمیں دوبارہ سب سے بڑا اسلامی ملک بننا ہے، اِس لئے آبادی کو ہم دن دوگنی اور رات چوگنی بڑھانے میں مصروف ہیں۔اِس سلسلے میں ہمارے علماءِ کرام کا کردار قابل ستائش ہے۔ وہ عوام کو اس سائنسی معلومات سے آگاہ کرتے چلے آ رہے ہیں ہر انسان اپنا رزق لکھوا کر لاتا ہے اِس لئے رزق کو بڑھانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ آبادی بڑھائی جائے۔ رہا سوال اِس بات کا کہ آخر ہمارے ملک میں تھوڑی سی غذائی قلت اور قحط جیسی صورتحال کیوں ہے؟ تو اُس کا جواب سیدھا سا ہے کہ بھائی اللہ کی مرضی یہی ہے۔ اِس میں ہم انسانوں کا کیا دخل؟ یا پھر اِس میں بھی صیہونی سازش کا ہی دخل ہو گا۔ جہاں تک اپنے رقبے کو پھیلانے اور بڑھانے کا تعلق ہے، ہمیں یقین ہے کہ پاکستان بڑا ہو کر نیل کے ساحل سے لیکر تابہ خاکِ کا شغر پھیل جائیگا۔ انشاء اللہ
پاکستان کا محلِ وقوع
پاکستان کو اللہ نے زبردست محلِ وقوع عطا کیا ہے تاکہ اِس کی مدد سے ہم مغربی ممالک کو اپنی اہمیت بتا کر ہمیشہ اُن سے کچھ ہتھیا سکیں۔ پاکستان کے شمال اورجنوب مشرق میں ہندوستان واقع ہے جس نے اپنا نام بھارت بھی رکھا ہوا ہے۔ لیکن یہ ہندو ملک ہے اور اِس لئے ہمارا دشمن ہے۔ یہ ملک ہمارا سب سے اہم ہمسایہ ہے کیونکہ اِس کے وجود سے ہی ہمارا وجود ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو ہم کِسے اپنا اول دشمن کہتے؟ اگر یہ دشمن نہ ہوتا ہمارے پاس کیونکر دنیا کی سب سے جیالی فوج ہوتی؟ ہم کسے تمغے دیتے؟ کس کی بہادری کی کہانیاں ہم اپنے بچوں کو سناتے؟ کسے پلاٹوں اور زمینوں کا حقیر نذرانہ پیش کرتے؟ اتنی ساری ڈیفنس سوسائٹیاں کیسے بن جاتیں؟ اِن ڈیفنس سوسائٹیوں کے بغیر شہر کتنے ویران ہوتے۔ ہم اپنی نصابی کتابوں میں کس کے کارنامے لکھتے؟ آخر پاکستانی فوج کے بانی محمد بن قاسم اور محمود غزنوی سے لیکر جنرل اختر عبدالرحمٰن اور حمید گل تک ہماری تاریخ فوجی کارناموں سے بھری پڑی ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی جیسے بے کار کاموں کے لئے مغربی ممالک کے نامرد اور بزدل لوگ ہی کافی ہیں اِس لئے ہم نے اپنی تمام توجہ بہادری کی طرف ہی مبذول رکھی۔
اب آئیے دوسرے ہمسائیوں کی طرف۔ پاکستان کے شمال مغرب میں افغانستان واقع ہے۔ پاکستان اِس ملک سے گہری مسلم برادرانہ محبت رکھتا ہے۔ اِس لئے ہمیشہ اِس کو اپنا ہی علاقہ سمجھتا رہا ہے۔ بابائے جہاد جنرل ضیاء الحق تو اِسے پاکستان کا پانچواں صوبہ بھی کہتے تھے۔ ہماری خواہش یہی ہے کہ اِس ملک کے خوشحال مستقبل کے سارے فیصلے اسلام آباد میں ہی ہوا کریں۔ آج کل بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں ہندوستان نے سڑکیں اور پُل بنانے جیسی گھناؤنی سازشیں شروع کی ہوئی ہیں۔ جبکہ ہم افغانی مردانہ روایت کے مطابق افغانستان کو ایک مجاہد قوم دیکھنا چاہتے ہیں۔ اِس کے لئے ہم فراخ دلی سے اپنے افغان بھائیوں کو بارود اور آگ وغیرہ فراہم کرتے رہے ہیں بلکہ اِس مقصد کے لئے تربیت یافتہ افرادی قوت کی خدمات بھی بہم پہنچائی گئی ہیں۔ ہندوستان نے وہاں سازشیں کرنے کے لئے چوبیس قونصل خانے بھی کھول لئے ہیں۔ اِن میں تین قونصل خانوں کا تین شہروں میں وجود کو تو ساری دنیا جانتی ہے۔ البتہ باقی 21 قونصل خانوں کا اتا پتا کسی کو معلوم نہیں ہے۔ لیکن وہ کہیں نہ کہیں ہیں ضرور۔ اِس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا مسلسل یہ بات بتا رہا ہے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔
پاکستان کے جنوب مغرب میں ایک اور اسلامی ملک ایران موجود ہے جسے پاکستان ہمیشہ یک طرفہ طور پہ برادر ملک تسلیم کرتا آیا ہے۔ ویسے تو پاکستان نے 1979ء میں امریکی سفارتی عملے کے یرغمال بنائے جانے سے لے کے احمدی نژاد کی بڑھکوں تک ایران کے تمام اچھے اقدامات کی حمایت کی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں پاکستان کو ایک مشکل بھی در پیش ہے اور وہ یہ کہ برادر ملک ایران سے پاکستان کے پِدر ملک سعودی عرب کی جان نکلتی ہے۔ حالانکہ ایران کے ایٹم بم سے سعودی خوامخواہ خائف ہیں جبکہ وہ تو شیطانی ملک اسرائیل کے لئے بنایا جا رہا ہے۔ بہرحال اِس صورتحال سے پاکستان سخت مشکل میں پھنس گیا ہے۔ دیکھئے اللہ بہتر کریگا۔پاکستان کے جنوب میں بحیرہ عرب واقع ہے جہاں مچھلیوں کے علاوہ ہندوستانی مچھیروں کو بھی پکڑا جاتا ہے۔ ویسے یہ سمندر برادر اسلامی ممالک ایران اور متحدہ عرب امارات کے اسمگلروں کی آمد و رفت نیز لشکر طیبہ کی بمبئی جانے والی کشتیوں کے لئے مکمل طور پہ کھلا ہے۔
قدرتی وسائل
پاکستان کو اپنے قدرتی وسائل زیادہ استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ امریکہ کے وسائل ہی اُس کے لئے کافی ہیں۔ ٹیکس دہندہ امریکی عوام کی محنت سے کمائی ہوئی آمدنی کسی نہ کسی نیک مقصد کے لئے گزشتہ 60 سال سے پاکستان کی جیب میں آ رہی ہے۔ اِس لئے اللہ کے فضل سے اچھا گزارا ہو رہا ہے۔ اِس کے علاوہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ سے بھی قرضِ حسنہ ملتا رہتاہے۔ پاکستان کیونکہ ایک سیدھا سادھا ملک ہے اِس لئے امریکہ ہمیشہ پاکستان کو اپنے مفاد میں استعمال کرتا رہتا ہے۔ اِس بات کا احساس ہمیشہ پاکستان کو امداد میں ملنے والی رقم کے ختم ہو جانے کے بعد ہوتا ہے۔ جب تک پیسے ملتے رہتے ہیں پاکستان بھی اپنی سادگی میں استعمال ہوتا رہتا ہے۔
پاکستان کی صنعت
پاکستان کو زیادہ صنعت لگانے اور چلانے کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے کیونکہ پاکستان کا بہترین دوست ملک چین اپنی مصنوعات سے پاکستانی مارکٹیں بھر چکا ہے تاکہ یہاں کی صنعتوں کو خوامخواہ محنت سے بچایا جا سکے۔ بمبار طیاروں اور ریلوے انجنوں سے لے کر بچوں کے کھلونے اور پنسلیں تک سب کچھ چین سے آتا ہے۔ اگر تھوڑی بہت صنعت پاکستان میں اب بھی باقی ہے تو وہ صرف وہی ہے جو اپنا مال دشمن ملکوں جیسے امریکہ اور یورپ وغیرہ کو بھیج رہی ہے۔ ویسے پاکستان کی ایک اہم صنعت سازشی مفروضہ سازی کی بھی ہے جس میں پاکستان کے خلاف دنیا بھر کی سازشوں کی دلچسپ اور سنسنی خیز کہانیاں کثیر تعداد میں تیار کی جاتی ہیں تاکہ عوام کو تفریحی سامان ملتا رہے۔
پاکستان کی درآمدات اور برآمدات
پاکستان کی درآمدات میں سب سے بڑا حصہ اسلحے اور ہتھیاروں کا ہے۔ یہ اِس لئے کہ پاکستان اپنے دفاع میں خود کفیل ہو سکے اور قومی وقار کے ساتھ زندہ رہے۔ آخر تعلیم اور صحت جیسی چیزیں قومی وقار کے آگے کیا معنی رکھتی ہیں۔ برآمدات میں جہاد اور حریت پسندی (جسے کافر دنیا دہشت گردی کہتی ہے) شامل ہیں جو پاکستان ساری دنیا کو برآمد کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ ایٹم بم بھی پاکستان کی نئی برآمدی لسٹ میں شامل ہو چکا ہے۔ اسی غرض سے پاکستان نے اپنی ایٹمی بم کی پیداوار میں اضافہ کیا ہے کہ نجانے کب کوئی بڑا ایکسپورٹ آرڈر مل جائے۔
زرعی پیداوار
پاکستان کی فصل میں انگارے سب سے زیادہ اہم ہے جو پاکستان گزشتہ ساٹھ سالوں سے بو رہا ہے اور اب شعلوں کی ایک پوری فصل تیار ہو چکی ہے جسے کاٹاجا رہا ہے۔ شہید امیر المومنین ضیاء الحق کے لگائے ہوئے پودے اب اللہ کے فضل سے تناور درخت بن چکے ہیں۔ اس کے علاوہ جہالت، بیماری اور غربت تو یہاں پر خود رُو ہیں۔
نظامِ حکومت
پاکستان شروع ہی سے مغرب کے پیدا کئے ہوئے اُس فضول نظام حکومت کے خلاف ہے جسے جمہوریت کہتے ہیں۔ جب فرنگی اپنی لائی ہوئی جمہوریت کو ہندوستان میں چھوڑ کے جانے لگا تو ہمارے قوم کے فاضل معماروں کو خیال آیا کہ یوں تو اکثریت حکومت میں آ جائیگی اور کیونکہ ہندوستان میں اکثریت ہندوؤں کی ہے جو خدانخواستہ مسلمانوں کو اپنا محکوم نہ کر لے چنانچہ بات سمجھ میں یہ آئی کہ اچھا نظام تو بزور شمشیر یا فوجی نظام ہے جس کے ذریعے ہمارے آبا ؤاجداد نے ایک ہزار سال تک اکثریت کو اپنا غلام بنائے رکھا تھا۔
فوراً ہمیں علیحدہ ملک کا خیال آ گیا اور اللہ نے ہم کو اِس عظیم مملکت سے نوازا۔ اب جمہوریت اس ملک خداداد میں کیسے چل سکتی ہے جبکہ جمہوریت کی لعنت سے بچنے کے لئے ہی تو یہ ملک بنایا گیا۔ وہ ارادہ آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ و جاوید ہے جو روزِ اول تھا کہ ذرا فرنگی چلا جائے اور ہمیں فوج منظم کرنے کے لئے ایک علاقہ تو مل جائے۔ اُس کے بعد دنوں کی بات ہے کہ ہم دوبارہ دہلی فتح کر لیں گے تاکہ سلاطین اور اورنگزیب جیسے اپنے بزرگوں کی روایت کو دوبارہ زندہ کر سکیں۔ اِسی سلسلے میں آدھا کشمیر تو ہم نے فتح بھی کر لیا تھا۔ باقی ہندوستان فتح کرنے میں کچھ دیر ضرور ہو گئی ہے لیکن اگر جذبہ جہاد اِسی طرح پروان چڑھتا رہا تو ہم ضرور ایک دن ہندو بنئے کو دوبارہ اپنی رعایا بنا لیں گے جو کہ ہمارا پیدائشی حق ہے۔
ہمارا مشن اللہ کے فضل سے اب بھی جاری و ساری ہے۔ اگر جاہل عوام یہاں پر انتخابات میں کچھ غلط فیصلہ کر بھی لیتی ہے تو راولپنڈی میں بیٹھے ہوئے ذہین دماغ اُسے گاہے بگاہے درست کر لیتے ہیں۔ فرسودہ مغربی جمہوری نظام کے تحت بننے والی حکومتیں اگر کچھ دیر قائم بھی رہیں تو بھی ہمارے عظیم فوجی قائدین اُنہیں لگام ڈال کر رکھتے ہیں۔ عظیم تر قومی مفاد میں اکثر وہ اُن نام نہاد منتخب حکومتوں کا بوریا بستر گول کر کے عنان حکومت براہِ راست اپنے قابل ہاتھوں میں لے لیتے ہیں تاکہ جہاد کے مشن کو آگے بڑھا سکیں جو ہمارے ملک کا مقصدِ اول ہے۔
♣
2 Comments