ٰشاداب مرتضی
شمالی کوریا نے گزشتہ مہینے ہائیڈروجن بم کا کامیاب تجربہ کیا. گزشتہ بیس سال سے شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام پر عالمی برادری میں کافی تحفظات اور خدشات پائے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں ہونے والے مذاکرات بھی ناکامی کا شکار رہے ہیں. ایٹمی ہتھیاروں کے تجربے کرنے کی وجہ سے شمالی کوریا پر بین الاقوامی پابندیاں بھی عائد ہیں۔ شمالی کوریا کی جانب سےحالیہ ایٹمی تجربے کے بعد ایٹمی طاقت رکھنے والے مغربی ملکوں نے اس پر شدید تنقید کی ہے اور سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی جاری کی ہیں۔
ہتھیار خصوصا ایٹمی ہتھیار اور جنگیں عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ کوئی بھی امن پسند اور انسانیت پسند شخص ہتھیاروں اور جنگوں کی حمایت نہیں کر سکتا۔تاہم نیک ارادے اور اچھی خواہشات میں اور بدنما حالات اور حقائق میں فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے تاکہ حقیقت کا درست ادراک کیا جا سکے اور تنقید کا زاویہ صحیح رخ پر رکھا جا سکے۔
دنیا بھر کی طرح شمالی کوریا کے ایٹمی تجربوں پر پاکستان میں بھی تنقیدی ردعمل دکھائی دے رہا ہے جو اس حد تک یقیناً درست ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ انسانی معاشرے کو تباہی کے دہانے کے قریب تر لے جا رہی ہے۔دنیا اور نوعِ انسانی کی بقاء اور اس کے پرامن مستقل کے لیے ایٹمی ہتھیاروں اور جنگی جنون کا خاتمہ بے حد ضروری ہے۔لیکن اس سلسلے میں کی جانے والی تنقید کا منصفانہ، درست اور مبنی بر حقائق ہونا بھی اسی قدر ضروری ہے۔
دنیا میں ایک جانب وہ ملک ہیں جنہوں نے اپنے غاصبانہ مقاصد کی تکمیل کے لیے نہ صرف ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں پہل کی بلکہ حریف ملکوں کو طاقت ،دھونس اور دھمکی کے ذریعے اپنے غاصبانہ سیاسی اور معاشی ایجنڈے کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا۔ دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم گرا کر لاکھوں انسانوں کو قتل کر ڈالا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انسانیت کے خلاف اس سفاکانہ جرم پر امریکہ پر بین الاقوامی پابندیاں عائد کی جاتیں اور اس میں ملوث حکومتی و فوجی سربراہوں پر بین الاقوامی عدالت انصاف میں مقدمہ چلا کر عبرت ناک سزا دی جاتی لیکن طاقتور کے قانون کے مصداق ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہی جانبدارانہ رویہ ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع کرنے والی یورپ کی طاقتور سرمایہ دار ریاستوں بشمول فرانس, برطانیہ وغیرہ کے ساتھ اپنایا گیا۔ تاہم جب سوویت یونین نے ان ریاستوں کے غاصبانہ عزائم سے تحفظ کی خاطر ایٹمی ہتھیار بنائے تو اسے اقتصادی پابندیوں کے شکنجے میں جکڑ دیا گیا۔ یہی سلوک ایٹمی ہتھیار بنانے والی دنیا کی دیگر حریف اور کمزور ریاستوں کے ساتھ کیا گیا۔
ایٹمی ہتھیاروں سے مسلح امریکہ اور یورپی سرمایہ دار ریاستوں نے ان ممالک سے ایٹمی ہتھیار تلف کرنے کا مطالبہ کیا اور بین الاقوامی پابندیوں کے ذریعے انہیں اس عمل پر مجبور بھی کیا۔ مثال کے طور پر جنوبی افریقہ نے امریکہ اور یورپی ایٹمی طاقتوں کے دباؤ پر اپنا ایٹمی پروگرام بند کردیا اور ایٹمی ہتھیار تلف بھی کردیے لیکن امریکہ, طاقتور یورپی ممالک اور ان کے حلیف ملکوں نے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا عمل بھی خفیہ انداز سے جاری رکھا اور تیارشدہ ایٹمی ہتھیاروں کو مکمل طور پر تلف بھی نہیں کیا۔
مثال کے طور پر اسرائیل جو ان ممالک کا دیرینہ حلیف ہے، خفیہ طریقے سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں ملوث رہا ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے زومعنی بیانات دیتا رہا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کرچکا ہے، لیکن اس پر کسی قسم کی بین الاقوامی پابندیاں عائد نہیں کی گئیں ۔ دوسری جانب ان ممالک نے نیٹو معاہدے کے تحت بوقتِ ضرورت ایٹمی ہتھیار اپنے حلیف ملکوں کو جن میں بیلجیم، جرمنی، اٹلی،ترکی، نیدرلینڈ وغیرہ شامل ہیں, مہیا کرنے کا معاہدہ بھی کر رکھا ہے۔
عراق پر حملے کے لیے بھی ان ممالک نے عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا بہانہ بنایا تھا جن کی غیرموجودگی ثابت ہو چکی ہے. چنانچہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری، استعمال اور ان کے حوالے سے بین الاقوامی پالیسی اور رویے میں امریکہ، یورپی سرمایہ دار ریاستوں اور ان کے حلیف ملکوں کا منافقانہ اور جانبدارانہ طرزِ عمل بالکل واضح ہے۔
ایسی صورت میں جب ایک جانب جدید ترین ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں سے مسلح نہایت طاقتور ریاستیں ہیں جو اپنی عسکری طاقت اور برتری کے زعم میں دنیا میں جنگ و جدل برپا کیے رہتی ہیں اور دوسری جانب معاشی و عسکری لحاظ سے کمزور ریاستیں ہیں جو ان طاقتور عالمی قوتوں کی مسلسل زد میں ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کو روکنا اور دنیا میں امن کے قیام کی کوشش کرنا انتہائی دشوار ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف عالمی مہم طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔
اس پس منظر میں شمالی کوریا پر ایٹمی ہتھیاروں کے تجربے کے حوالے سے کی جانے والی تنقید اس لحاظ سے یکطرفہ اور سطحی ہے کہ اس میں شمالی کوریا کو عالمی ایٹمی طاقتوں کی جانب سے قومی سلامتی کے درپیش سنگین خطرات کو مدںظر نہیں رکھا جا رہا اور تنقید اس طرح کی جا رہی ہے گویا شمالی کوریا اور دیگر ایٹمی طاقتوں کے حالات اور عزائم میں قطعی کوئی فرق نہیں حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔
شمالی کوریا بھی کیوبا کی طرح ایک سوشلسٹ ملک ہونے کی پاداش میں کئی دہائیوں سے نہ صرف عالمی سرمایہ دار ریاستوں کی عائد کردہ بین الاقوامی پابندیوں کے غیرمنصفانہ حصار میں ہے بلکہ ان عالمی طاقتوں خصوصا امریکہ اور جاپان اور خطے میں ان کے حلیف پڑوسی ملکوں کی جانب سے حملے اور جنگ کی مستقل دھمکیوں کی زد میں ہے۔ شمالی کوریا نے کبھی کسی دوسرے ملک پر نہ ہی حملہ کیا ہے اور نہ ہی ایٹمی ہتھیار بنانے سے اس کا مقصد دنیا کے امن و سلامتی کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ اس کا مقصد صرف اور صرف عالمی ایٹمی قوتوں کو کسی بھی ممکنہ جارحیت سے باز رکھنا ہے جو صرف اور صرف ایٹمی طاقت کا حامل ہونے سے ہی ممکن ہے۔ اس کے برعکس امریکہ اور یورپی ایٹمی طاقتوں اور ان کے حلیف ملکوں نے دنیا میں جنگوں کا بازار گرم کر رکھا.۔
ہمارے سامنے حالیہ تاریخ میں ان ملکوں کی مثالیں موجود ہیں جو ایٹمی طاقت نہ ہونے کے سبب امریکہ اور یورپی سرمایہ دار ریاستوں اور ان کے حلیف ملکوں کے غاصبانہ عزائم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں. ان میں یوگوسلاویہ، لیبیا,،عراق اور افغانستان شامل ہیں۔ یمن اور شام بھی کمزور ملک ہونے کے سبب ان طاقتور ریاستوں کے غاصبانہ عزائم تلے تباہی و بربادی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس بات کا امکان نہایت قوی ہے کہ اگر یہ ممالک ایٹمی طاقت ہوتے تو شاید یہ بین الاقوامی طاقتیں امن و انصاف کے بین الاقوامی معاہدوں اور اخلاقی اصولوں کی کھلی پامالی کرتے ہوئے ان پر براہ راست حملے کر کے قابض نہ ہو پاتیں۔
چنانچہ ایٹمی ہتھیاروں اور جنگوں کے حوالے سے تنقید میں ہمیں طاقتور اور کمزور, جائز اور ناجائز، غاصب اور منصف،امن شکن اور پرامن کی تفریق کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ ہماری تنقید کا مرکز عالمی امن کو جنگوں اور ایٹمی تباہی کی ہولناکی سے دوچار کرنے والی وہ بین الاقوامی طاقتیں ہونی چاہییں جنہوں نے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور ان کے استعمال میں پہل کاری کی اور جو کمزور اور پرامن ملکوں کو اپنی جارحیت کے خوف میں مبتلا رکھ کر ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ اور جنگوں کو مہمیز دے رہی ہیں۔ اگر یہ عالمی طاقتیں اپنے غاصبانہ عزائم سے باز آجائیں تو کسی بھی ملک کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا جواز نہیں رہے گا۔
♦