پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف قومی احتساب بیورو (نیب) کی کارکردگی پر کھلے عام تحفظات کا اظہار کرنے کے بعد حزب اختلاف کے ان رہنماؤں کی صف میں کھڑے ہو گئے ہیں، جو پہلے ہی نیب کی ’کارروائیوں‘ سے خائف تھے۔
وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے ان تحفظات کا اظہار ایک ایسے موقع پر کیا گیا، جب سندھ اور خیبر پختوانخوا کے بعد نیب کے احتسابی عمل کا رخ پنجاب کی جانب مڑ چکا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف وفاق اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں برسراقتدار جماعت مسلم لیگ ن کے قائد بھی ہیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر اعظم نے گزشتہ روز جنوبی پنجاب کے شہر بہاولپور میں ایک جلسے کے دوران نیب کو محتاط رہ کرکام کرنے کا انتباہ کیا تھا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر نیب کے چیئرمین قمر زمان چوہدری نے ان کے تحفظات دور نہ کیے تو ان کی حکومت قانون میں ترمیم کے حوالے سے سوچ سکتی ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کے اس بیان کا ایک پس منظر گزشتہ ہفتے نیب کے چئیرمین قمر الزمان کا پنجاب میں نیب کے ضلعی دفتر کا دورہ بھی ہو سکتا ہے، جہاں انہوں نے مبینہ طور پر نیب کے افسران کو صوبے میں بلاتفریق احتساب کرنے کا کہا تھا۔
نیب کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نیب سرکاری افسران کو ہراساں کررہی ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے امور کی انجام دہی میں خوف محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’میں یہ معاملہ کئی بار نیب چیئرمین کے نوٹس میں لایا ہوں، انہیں ہر صورت نوٹس لینا چاہیے، بصورت دیگر حکومت اس حوالے سے قانونی اقدامات کرسکتی ہے۔‘‘
نیب ذرائع کے مطابق نیب کی جانب سے وفاقی اور پنجاب حکومتوں کے مختلف منصوبوں، ایل این جی کی درآمد، میٹرو بس، اورنج ٹرین اور ایل ڈی اے سٹی کی تحقیقات شروع کی جا رہی ہیں۔
اس کے علاوہ نیب نے رائیونڈ روڈ کی تعمیر اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں غیر قانونی بھرتیوں کے حوالے سے بھی شریف برادران کے خلاف زیر التوا مقدمات کی تحقیقات شروع کر رکھی ہیں۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے کھلے عام نیب پر تنقید اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نیب کے پیچھے اس وقت کوئی ایسا ’طاقتور ادارہ‘ موجود ہے، جس کے سامنے وزیراعظم بھی بے بس ہیں۔قمرالزماں ایک اوسط درجے کے بیورو کریٹ ہیںجن کا اپنا کیرئیر بھی موقع پرستی سے خالی نہیں اور ان میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ حکومت وقت کے خلاف کارروائی کر سکیں۔پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل وقت نیوز سے وابستہ اینکر پرسن اور سینئر صحافی مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ عام تاثر یہی ہے کہ اس احتساب کی مہم کے پیچھے فوج ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’جب ملک کا وزیر اعظم کسی ادارے کی کارکردگی پر کھلے عام تحفظات اور اپنے غصے کا اظہار کرے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ادارہ اس سے بھی کسی طاقتور ادارے کی ایماء پر کام کر رہا ہے ورنہ وزیر اعظم خاموشی کے ساتھ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے کسی بھی ادارے کو اپنی مرضی کے تابع لا سکتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر نو ماہ بعد ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ لگتا ہے کہ جنرل راحیل شریف نے ایک طرح سے اپنی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کو بدعنوان عناصر کے احتساب کی ڈیڈ لائن کے طور پر مقرر کر رکھا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاستدان اپنا احتساب خود نہیں کر سکتے۔ اس لئے یہ کام بھی فوج کو اپنے کندھے پر لینا پڑ رہا ہے۔
مطیع اللہ جان کا مزید کہنا تھا، ’’یہ آئینی اور قانونی طور پر درست نہیں کہ فوج احتساب کرے لیکن لوگوں کو اس کی پرواہ نہیں اور وہ احتساب چاہتے ہیں اور تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ یہ کام بھی صرف فوج کر سکتی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک نئی طرح کی جمہوریت پرورش پارہی ہے، جہاں ماضی کے برعکس اب فوجی سربراہ سیاسی حکومت کے خلاف بغاوت کے بجائے اپنے اختیارات کا استعمال کرے گا۔
دوسری جانب موجودہ صورتحال میں حزب اختلاف کی جماعتیں بظاہر وزیر اعظم کے نیب سے متعلق بیان پر تنقید کر رہی ہے لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نیب کے اختیارات میں کمی کے لئے آئینی ترامیم لاتی ہے تو یہ جماعتیں اس کا ساتھ دیں گی۔
DW