ڈھلشان پنکاش
گذشتہ چند دنوں سے اپنے بہت سے اور خصوصا چند ایک دوستوں سے کشمیر کے قومی اور طبقاتی سوال پر کبھی مختصر اور کبھی گھنٹوں گفتگو ہوئی۔ اسی دوران ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں طلباٗ کا بہت منظم احتجاج سامنے آیا جس کے نتیجے میں ہندوستان کی ہندو بنیاد پرست حکومت نے مذکورہ یونیورسٹی کے ترقی پسند نوجوان طالب علم رہنما کنہیہ کمار کو آر ایس ایس نامی انتہا پسند تنظیم کے ہاتھوں تشدد کا شکار بنایا اور بعدازاں اسے گرفتار کر کے اس پہ غداری کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
قبل ازیں اس یونیورسٹی کے تمام طلباٗ و طالبات نے 11 فروری کو کشمیر کے آزادی پسند مقبول بٹ شہید کی برسی منانے کا اعلان کیا تھا ۔یونیورسٹی کی طلباٗ یونین کے ترقی پسند صدر کنہیہ کمار نے (افضل گرو کشمیری) جنہیں ہندوستان نے پھانسی دی تھی کو بھی سراسر عدل و انصاف کے خلاف قرار دیا تھا اور افضل گرو کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے ہندوستانی قانون پر ایک بہت بڑا سوال کھڑا کر دیا تھا۔
مزید برآں نہرو یونیورسٹی کی طلباٗ یونین جو کچھ عرصہ قبل یونیورسٹی کے انتخابات میں بی جے پی کی حمایت یافتہ طلباٗ یونین کو مات دیکر کامیاب ہوئی تھی یہ ترقی پسند طلبہ یونین ہندوستان میں بڑھتے ہوئے ہندو بنیاد پرست رجحانات، عدم تشدد اور مظلوم اور چھوٹی قوموں کو ظلم جبر کے ذریعے دبانے اور مزدور طبقے کے استحصال بھوک ماری غربت جہالت، بیروزگاری، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے خلاف سراپا احتجاج رہی ہے۔
تادم تحریر ہندوستان بھر کی تمام درسگاوٗں میں ہندوستان کی آر ایس ایس کی غنڈہ گردی پر مبنی حکومت کیخلاف طلبہ، طالبات، صحافی، عام لوگ، اور مزدور طبقے کے بیشمار عوام الناصر بشمول مظلوم قومیت کے عوام اور طلبہ سراپا احتجاج ہیں۔ وہ ترقی پسند طالب علم ہند سرکار کے وزرٗا کے بیانات واپس لینے اور جمہوری قدروں و اصولوں کی سرکاری پامالی کے خلاف ڈھٹے ہوئے منظم طلباٗ و عوام کا نہ تھمنے والا، اور نہ جھکنے والا عظیم الشان احتجاج جاری و ساری ہے۔
ان کے احتجاج کو ہندوستانی میڈیا بھی اب کھل کر کوریج دے رہا ہے۔ خود طلباٗ نے بھی اسے سوشل میڈیا پہ بھرپور طرح سے اپ لوڈ کیا ہے، جموں کشمیر کے طلباٗ اور عوام کی اس تحریک سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے اور سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔
ہندوستانی ترقی پسند طلباٗ پر کئے جانے والے ریاستی تشدد ظلم و جبر کی مذمت کرتی ہے اور اس کے ساتھ اپنے اس عزم و فکر کو واشگاف الفاظ میں دوہراتی ہے کہ جو آج سے چند سال پہلے بیرسٹر قربان نے کہا تھا کہ انقلابی نظریئے کے بغیرآزادی کی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کوئی طبقاتی تحریک کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔ہم نے ہر دور میں محنت کش عوام کی جڑت اور اتحاد کی بات کی ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔
کشمیر کی قومی اور طبقاتی آزادی کا سوال ہندو پاک کے حکمران طبقات کے ظلم و جبر و استحصال کی گھور اندھیری راتوں کے لئے اب ایک بہت بڑا سوال بنتا جا رہا ہے اب دونوں ملکوں کے عوام خصوصا ہندوستانی طلباٗ اور عوام کا حالیہ احتجاج روشنی کا ستارہ بنتا جا رہا ہے۔
کشمیر کے دونوں مقبوضہ حصوں کے محنت کش عوام کے لئے یہ ایک واضح اور دو ٹوک پیغام ہے کہ منظم ہو کر جدوجہد کے ذریعے سے قومی اور طبقاتی جبر و ظلم کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ جبر ، بھوک افلاس اور غلامی کی ہر شکل کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ جدوجہد کے سوا نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے اس لئے درد کے اس رشتے کو سمجھنے کی بہت ضرورت ہے۔
♣
One Comment