منیر سامی۔ ٹورنٹو
آج کی معروضات کا محّرک عالمی دنیائے ادب کی دو اہم شخصیات ، امریکہ کی معروف اور عالمی شہرت یافتہ مصنفہ ہارپر ؔ لی اور اٹلی کے عالمی شہرت یافتہ ناول نگار، فلسفی، اور صحافی اُمبرتَو ایَکوؔ ہیں۔
ہارپر ؔلی کے مشہورِ زمانہ ناول ’ٹُو کِل اے مَوکِنگ بَرڈ‘، کی ان کی زندگی ہی میں چالیس لاکھ سے زیادہ جلدیں فروخت ہو چکی تھیں۔ اسی طرح اُمبرتو ایکوؔ کی کتابیں بھی اطالوی زبان کے علاوہ دنیا کی تیس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو کر لاکھوں کی تعداد میں شائع اور فروخت ہو چکی ہیں۔اُن کا وہ ناول جس سے دنیا کا ہر ادب واقف ہے، ’دی نیم آف دی روز‘ ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ آپ میں سے کچھ یہ سوال اٹھائیں گے کہ جناب آپ نے اردو کے ممتاز کہانی کار اورصحافی انتظار ؔحسین کے انتقال پر قلم کیوں نہیں اٹھایا تو اس کی دیانت دارانہ وجہہ ہمارے ہاں مرنے والوں کا وہ احترام ہے جس نے اب تک ہمیں اس کوشش سے دور رکھا ہے۔لیکن پاکستانی معاشرے اور دانش کے زوال میں اُن کا جو کردار رہا ہے ، اُس پر قلم اُٹھانا ہر اہلِ قلم کا فرض ہے۔ فی الوقت تو اُن کے قصیدہ گو اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان میں وہ بھی شامل ہیں جو خود کو اپنے تیئں آزاد خیال اور ترقی پسند گردانتے ہیں، خواہ انہوں نے ترقی پسندی کی تعریف تبدیل کرنے کی کوشش بھی کی ہو اور ایک ’نو ترقی پسند ‘ جتھے میں شامل ہوگئے ہوں۔
ہارپر ؔ لی اور اُمبرتو ایَکو کے انتقال پر ہمار ا دھیان فوراً اردو ادب کے اہم ترین افسانہ نگار ،منشی پریم ؔچند کی طرف اور ایک اور اہم ادیب اور دانشور اختر حسینؔ رائے پوری کی طرف گیا ، جن کے دو اہم ترین مضامین آج کے ہر اردو قاری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انہیں بار بار پڑھے، اور ان کے ذریعہ سے وہ ادیب کے منصب، اور ادب کی غرض و غایت کو سمجھنے کی کوشش کرے۔
یہ مضامین، منشی پریم چندؔ کا وہ خطبہ ہے جو انہوں نے اردو ادب کے اہم ترین ادارے ’انجمن ترقی پسند مصنفین ‘ کے قیام کے وقت صدارتی خطبہ کے طور پر پیش کیا تھا۔ اس کا عنوان ’ادب کی غر ض وغایت ‘ ہے۔ اور اختر حسین رائے پوری کے مضمون کا عنوان ’ادب اور زندگی ‘ ہے۔
منشی پریم چند ؔکے خطبہ کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے، ’ہمار اآرٹ شبابیت کا شیدائی ہے، اور نہیں جانتا کہ شباب سینے پر ہاتھ رکھ کر شعر پڑھنے اور صنفِ نازک کی کج ادایئوں کے شکوے کرنے یااس کی خود پسندیوں اور چونچلوں پر سر دھننے کا نام نہیں ہے۔ شباب نام ہے آئیڈیلیزم کا، ہمت کا، مشکل پسندی کا، قربانی کا، اُسے تو اقبال کے ساتھ کہنا ہوگا، ۔۔۔از دست جنونِ من جبریل زبوں صیدے۔۔یزداں
بکمند آمد ، اے ہمتِ مردانہ۔۔۔۔اور یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوگی جب ہماری نگاہِ حُسن عالمگیر ہو جائے گی۔ جب ساری خلقت اُس کے دائرے میں آجائے گی۔ وہ کسی خاص طبقہ تک محدود نہ ہوگا، اس کی پرواز کے لیے محض باغ کی چہار دیواری نہیں ہو گی بلکہ وہ فضا جو سارے عالم کو گھیرے ہوئے ہے ، تب ہم بدمذاقی کے متحمل نہ ہوں گے۔ تب ہم اس کی جڑ کھودنے کے لیئے سینہ سپر ہو جایئں گے، تب ہم اس معاشرت کو برداشت نہ کر سکیں گے کہ ہزاروں انسان ایک جابر کی غلامی کریں تب ہماری خود دار انسانیت اس سرمایہ داری اور عسکریت اور ملوکیت کے خلاف عَلَمِ بغاوت بلند کرے گی۔ تبھی ہم صرف کاغذ کے صفحہ پر تخلیق کرکے خاموش نہیں ہو جائیں گے۔ بلکہ اس نظام کی تخلیق کریں گے جو حسن اور مذاق اور خود داری اور انسانیت کا منافی نہیں ہے۔۔۔۔ادیب کا مشن محض نشاط آرائی اور تفریح نہیں ہے ۔ اس کا مرتبہ اتنا نہ گرایئے ، وہ وطنیت اور سیاسیات کے پیچھے چلنے والی حقیقت نہیں بلکہ اُن کے آگے مشعل دکھاتی ہوئی چلنے والی حقیقت ہے‘۔
یہاں اختر حسین رائے پوری کے مضمون ’ادب اور زندگی ‘ کا یہ اقتباس بھی غور طلب ہے، ’ ہر ایمان دار اور صادق ادیب کا یہ مشرب ہے کہ قوم و ملت اوررسم و آئین کی پابندیوں کو ہٹا کر زندگی کی بے گانگی اور انسانیت کی وحدت کا پیغام سنائے، اُسے رنگ و نسل اور قومیت و وطنیت کے جذبات کی مخالفت اور اخوت و مساوات کی حمایت کرنا چاہیے، اور ان تمام عناصر کے خلاف جہاد کا پرچم بلند کرنا چاہیئے جو دریائے زندگی کو چھوٹے چھوٹے ’چو بچّوں‘ میں بند کرنا چاہتے ہیں۔ کیا زمانہ حال کا ادیب یہ کرے گا؟‘
آگے بڑھنے سے پہلے یہ ذہن نشین رکھنا ضرور ی ہے کہ انتظار حسین ؔ نے، جو خود بھی اُمبرتو ایکَو کی طرح کہانی کار اور صحافی تھے، گو انہیں دانشوری اورفلسفی کا رتبہ نہ مل سکا، اپنے قلم کا رخ ہمیشہ پریم چند ، اختر حسین رائے پوری ، اور دیگر ترقی پسندوں کے خلاف جدو جہد کے لیے استعمال کیا۔ پریم چند کے بارے میں اُن کی ایک رائے اُن کی کتاب ’علامتوں کے زوال ‘ سے پیش ہے۔
’منشی پریم چند اردو کچھ اس انداز سے لکھتے ہیں جیسے وہ بیچاری دیسی رنگوں، رشتوں، اور چیزوں کے ناموں تک سے نا آشنا ہے۔ بس یوں سمجھیے کہ عین مین راجند ر سنگھ بیدی کی سی زبان لکھتے ہیں۔ جس کی ساری چولیں ڈھیلی ہوتی ہیں، اور فقرہ کھڑا ہونے سے پہلے بیٹھ جاتا ہے۔ زبان و انسانی بصیرت کا جو ترکہ پریم چند نے چھوڑا ، نئے اردو افسانہ نویس نے متاعِ عزیر جان کر سینے سے لگا لیااور کچھ یادیں کچھ آنسو بن کر رہ گیا۔ ۔۔ پریم چند کی تقسیم کے مطابق اس نے اب تک انسانوں کو انہی سیدھے سادھے ظالم اور مظلوم یا نیک و بد کے خانوں میں بانٹ رکھا ہے۔ یوں اسے رونے کا بھی بہت شوق ہے ، مگر رونے کا سلیقہ اسے اب تک نہیں آیا ہے۔ اردو افسانے میں کوئی میرؔ پیدا نہیں ہوا۔ پریم چند کی رقیق القلبی سے اس کی رونے کی روایت نے جنم لیا ہے۔‘
اُمبرتو ایکو، اور ہارپر لی کے موضوع پر بات انتظار حسین تک بات یو ں پہنچ گئی کہ یہ دونوں، ادیبوں کے اسی منصب اور ذمہ داری کو اردو زبان اور برِ صغیر سے دوری کے باوجود، نباہ رہے تھے جو پریم چند اور اختر حسین رائے پوری کے اقتباسات میں پنہاں ہے۔اپنی افسانوی تصنیف میں بھی اور اپنی صحافیانہ کاوشوں میں بھی۔
انتظار حسین کے تنقیدی مضامین کے مجموعہ کا عنوان ’علامتوں کا زوال ہے ‘، اور ستم ظریفی یہ کہ خود امبرتو ایکو بنیادی طور پر مغربی ادب، اور لسانیات کے ’علم العلامات ‘ کا اہم ترین فلسفی اور دانشور تھا۔ انتظار حسین ؔ کی طرح اس کی کہانیاں ازمنہ وسطیٰ یا قدیم کہانیوں سے نکل کر آتی تھی۔ وہ یہ کہتا تھا کہ میں ازمنہ وسطیٰ میں یوں دلچسپی رکھتا ہو ں کہ اس سے ہماری نشاۃالثانیہ یا احیا العلوم کی ابتدا ہوتی ہے۔ وہ ایک مذہبی انسان بھی تھا لیکن اپنی عمل پرستی میں بایئں بازو سے تعلق رکھنے والا ایک صحافی تھا۔
اُس کے نزدیک تحریر کا عمل عشق کا عمل ہے۔ اُس کا اعتقاد تھا کہ لکھنے والا اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیئے لکھتا ہے۔ کیوں کہ وہ اپنی تحریر کے ذریعہ دوسروں کو کچھ پہنچانا چاہتا ہے، کسی خیال کی ترسیل کرنا چاہتا ہے۔ دوسروں کو اپنے احساسات میں شریک کرنا چاہتا ہے۔ ہر لکھنے والے کے لیے یہ سوال اہم ہے، چاہے وہ شاعر ہوں ، یا ادیب کہ آپ کی تحریر کب تک باقی رہے گی؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر فلسفی کوئی بھی کتاب س لیئے لکھتا ہے کہ اس کے نظریہ سے دوسروں کو متائثر کیا جا سکے۔
ایک رومن کیتھولک عیسائی ہونے کے باوجود اپنی افسانوی اور صحافیانہ تحریروں میں وہ کلیسائے روم پر تنقید بھی کرتا رہا۔ یہاں تک کے اس کے خلاف کافر اور کمیونسٹ ہونے کے الزامات بھی لگے۔ اُس نے اطالوی اور رومن کیتھولک ہونے کے باوجود اسقاطِ حمل کی تحریکوں کی حمایت کی اور سالہا سال تک اٹلی کے سابق وزیرِ اعظم ، برلسکونی ؔ،کی جمہوریت نما آمریت کی مخالفت کی اور اسے ہٹلر قرار دیا۔ غرض یہ کہ اس نے اپنے قلم سے نہ صرف یہ کہ کہانیاںبُنیں بلکہ اسے انسانیت کی حمایت اور جبر کے خلاف جہاد کے لیئے بھی استعمال کیا۔
امریکی ناول نگار ہار پر لی کا ناول ـ’ ٹُو کِل اے موکِنگ بَرڈ‘ امریکی اور انگریزی ادب کے کلاسیکی ادب کا درجہ رکھتا ہے۔ اس سفید فام مصنفہ نے اپنے زمانے میں سیا ہ فاموں کے خلاف، نا انصافی، ظلم ، عدم مساوات، اور زیادتیوں کواپنی تحریر کا موضوع بنایا۔ اُس زمانے میں ایک سفید فام اور خاتون ادیبہ کا اس موضوع پر قلم اٹھانا جب کہ وہ اس وقت انسانی حقوق کی عمل پرست کی حیثیت میں بھی مشہور نہیں تھی، ایک اچنبھا اور نا قابلِ یقین بات تھی۔ اس نے اس ناول میں ایک ایسا سیاہ فام افسانوی کردا ر پیش کیا جسے غیر منصفانہ طور ایک سفید فام عورت کے قتل میں مجر م قرار دے کر سزائے موت دی گئی تھی۔
یہ ناول صرف انسانی حقوق کی کوئی افسانوی داستان ہی نہیں تھا بلکہ اس میں وہ سارے ادبی عناصر شامل تھے جو کسی تحریر کو بڑے ادب میں شامل کرتے ہیں۔ اسے امریکہ کا اعلیٰ ترین ادبی انعام ’پُلٹزر پرائز‘ بھی دیا گیا۔ پھر اس پر مبنی فلم کو امریکی فلمی صنعت کی اہم ترین فلم جانا گیا اور اسے تین اکیڈیمی انعام بھی ملے، جن میں ممتاز اداکار ، ’گریگری پیَک ‘ کو بہترین ادا کاری کا انعام دیا گیا۔
امریکی ادب اور سماجیات پر ہارپرؔ لی کا اثرکتنا گہرا ہے اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ، سیاست کے مختلف دھاروں سے تعلق رکھنے والے تین امریکی صدور نے اس کے مرتبہ کا اعتراف کیا۔ صدر لنڈن جونسن ؔ نے اسے امریکی ادب کے مقتدر ادارے، ’نیشنل کونسل آف آرٹس‘ کا رکن بنایا، صدر جارج بُشؔ نے اسے امریکہ کا اعلیٰ ترین شہری اعزاز ’میڈل آف فریڈم ‘ پیش کیا، اور صدر اوباماؔ نے اُسے ’نیشنل میڈل آف آرٹس ‘ سے نواز ا جو امریکی ریاست کی طرف سے فنونِ لطیفہ میں امتیاز کا سب سے اہم اعزاز ہے۔‘
اس ناول کی اشاعت کے فوراً بعد ہی سارے امریکہ میں سیاہ فاموں کے حقوق کی جدو جہد زور پکڑ گئی، اور گزشتہ پچاس سال میں انسانی حقوق کی کئی عمل پرست تحریکیں اس کے زیرِ اثر رہی ہیں۔ یہ امریکہ اور کینیڈا کے تقریباً ہر نصاب میں شامل ہے ،اور یہاں کا بچہ بچہ اس کے زیرِ اثر سیاہ فاموں کے حقوق سے آگاہ ہوتا ہے۔
اب سے چند سال پہلے ’بی بی سی ‘ کے ایک سروے کے مطابق ہارپرلی ؔ کا ناول برطانوی قاریئن کی مقبول ترین کتابوں میں شامل تھا اور اسے بائبل سے بھی زیادہ مقبول قرار دیا گیا تھا۔ امریکی میڈیا کے اہم ادارے، اے بی سی، نے لکھا ہے کہ، ’’یہ امریکہ میں انسانی حقوق کی تحریک کے دوران نسل پرستی کے خلاف لکھا جانے والا ناول ہے، جو سماجی انصاف اور مکمل مساوات کی مقصدیت سے پختگی کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہی وابستگی اور مقصدیت اسے کائناتی مقبولیت عطا کرتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس ناول کی سیاست کی حدود کے بارے میں دانشوروں اور نقادوں میں کئی بار جائز مباحث بھی چھڑی ہیں۔لیکن یہ اس کا نسل پرستی کے خلاف اور انسانی حقوق کی حمایت میں بیانیہ ہی ہے جو اسے ان کتابوں میں اہم مقام عطا کرتا ہے جنہوں نے انسانی زندگیوں میں مثبت فرق اور اثر چھوڑا ہے‘۔
ہمارے قارئین کو جان رکھنا چاہیئے کہ ترقی پسند فکر کی بنیاد انسانی حقوق کی بقا ، انسانوں کو جبر سے آزاد کرانے کی جدو جہد، اور ساری انسانیت کے درد کو محسو س کرنے کی فکر ہے،جو انسانی زندگی پر مثبت اثر ڈالنے کی فکر ہےْ۔ آج ہارپر لیؔ، اور اُمبرتو ایکوؔ کے گزرنے کے وقت ہر اس شخص کو جو انتظار حسین کی قصیدہ خوانی میں مصروف ہے ، اور ترقی پسند فکر پر دشنام طررازی کا کوئی موقع نہیں گنواتا ، ہمار ا مشورہ ہے کہ وہ ، ہارپر لیؔ، اور اُمبرتو ایکو ،ؔ کو ضرور پڑھ لے، اور اگر پڑھا ہواہو، تو مکر ر پڑھ لے۔
One Comment