سبط حسن گیلانی۔ لندن
ویلنٹائن ڈے پر امسال پہلے سے کہیں ذیادہ ہنگامہ برپا ہوا۔اس کا مطلب ہے یہ وبا پھیل رہی ہے۔میں نے سوچا گرد قدرے بیٹھ جائے تو کچھ عرض کریں۔
مجھ سمیت بہت ساروں کے دماغ میں اس بارے کوئی شک و شبہ نہیں کہ بات ویلنٹائن ڈے کی نہیں۔ اور نہ ہی اس بات پر جھگڑا ہے کہ اس دن کی ابتدا کہاں ہوئی تھی۔اس طرح کے تمام ہنگامے اور نِت نئے بہانوں کی بنیاد کچھ اور ہے۔اور وہ یہ ہے کہ ایک قلیل سا طبقہ جو معاشرے کا پندرہ بیس فی صد سے زیادہ نہیں۔اس بات پر مصر ہے کہ بنی نوع انسان اپنی زندگیاں اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اُن کی منشا کے مطابق گزاریں۔
وہ کوئی تہوارمنائیں تو اُن کی مرضی سے۔لباس زیب تن کریں تو ان جیسا۔وضع قطع اختیار کریں تو ان جیسی۔بچوں کو کونسی تعلیم دلانی ہے۔یہ فیصلہ بھی وہ خود نہ کریں بلکہ اُن پر چھوڑ دیں۔مذہبی عقیدہ کونسا اختیار کریں؟ ۔اور اس بارے رسم و رواج بھی اُن کے طے کردہ اصولوں کے مطابق منائیں جائیں۔یہ طبقہ یہاں پر بس نہیں کرتا ۔وہ چاہتا ہے کہ گھر بناو تو اس کا ناک نقشہ بھی ان کے پاس کیے ہوئے نقشے کے مطابق ہو۔ مثلاً کمروں کی اونچائی کتنی ہو۔بیت الخلا اور غسل خانہ الگ الگ ہو۔ اور ان کا رُخ کس سمت میں ہو۔آپ حیران ہوں گے کہ ان موضوعات پر باقاعدہ کتابیں تحریر کی جا چُکی ہیں۔
ایک ریاست خواہ کیسی بھی ہو۔اپنے شہریوں کی زندگیوں کے بارے میں کچھ اہم فیصلے کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ مثلاً بچوں کے سکول داخلے کی عمر کا تعین۔شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کرنے کی عمر۔ڈرائیونگ سیکھنے اور پھر اسے چھوڑ دینے کی عمر۔تنہا سفر کرنے ۔ووٹ ڈالنے۔دفاعی نوعیت کی ملازمتوں اور پھر پنشن کی عمر کا تعین۔ یہ سب فیصلے حکومتیں طے کرتی ہیں۔ ٹھیک انہی فیصلوں کی طرح حکومت یہ فیصلہ بھی کرتی ہے کہ شادی کی مناسب عمر کتنی ہونی چاہیے۔
لیکن اس وقت دنیا کے نقشے پر ہم واحد قوم ہیں جہاں پچھلے دنوں ریاست و حکومت کی بھد اس بات پر اُڑائی گئی کہ شادی کی عمر کا تعین وہ نہیں بلکہ ایک مقدس گروہ کرے گا۔ویلنٹائن ڈئے کے موقع پر اس طبقے کے ہم خیال اخبار نویسوں نے اخبارات کے ادارتی صفحات سیاہ کر ڈالے۔ایک صاحب تقویٰ اخبار نویس نے اپنے کالم کا عنوان یوں قرار دیا۔ ہم ویلنٹائن ڈئے نہیں منائیں گے۔بندہ خدا آپ اخبار نویس ہیں یا خدائی فوجدار؟۔آپ کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار کس نے دیا؟۔آپ کا کام تو رائے قائم کرنا یا تجزیہ کرنا ہے۔اس بات کا فیصلہ لوگوں پر چھوڑیے کہ وہ آپ سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں۔
اس سارے ہنگامے کے گہرے کنویں کی تہہ میں جھانک کر دیکھیں۔ تو دور نیچے چمکتے پانی کی طرح ایک خوف صاف نظر آتا ہے۔وہ خوف یہ ہے۔ کہ اپنی زندگیوں کے فیصلے لوگ خود کرنے لگ پڑے تو صدیوں سے بغیر کوئی محنت اور کام کاج کیے صرف دوسروں کی کمائی پر زندہ رہنے والا یہ استحصالی طبقہ بے روزگار ہو جائے گا۔پاکستان میں مذہب کے نام پر تشدد کو رواج دینے والی ایک سیاسی مذہبی جماعت نے اس دن کو یوم حیا منانے کی تحریک کا آغاز کیا۔
ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ آپ کے نزدیک شرم وحیا کا اصل مفہوم کیا ہے؟۔جہاں تک دنیا سمجھتی ہے۔ کسی انسان اور اس کی عزتِ نفس کا احترام اس کے بنیادی انسانی حقوق کا خیال رکھنا،یہی حیا اور شرافت کا اصل مفہوم ہے۔اور ان سے روگردانی بے حیائی اور ڈھٹائی ہے۔ایک شریف اور باحیا انسان یا گروہ اپنے ذاتی و سیاسی و گروہی مفادات کی خاطر مذہبی ، قبائلی و سماجی جذبات کو آلہ کار کے طور پر کیسے استعمال کر سکتا ہے؟کسی کی عزت جان اور مال سے کھلواڑ کیسے کر سکتا ہے۔نوجوان نسل کے ہاتھوں سے کتاب اور قلم چھین کر ہتھیار کیسے تھما سکتا ہے؟۔
ایک بہت بڑے مفتی صاحب فرما رہے تھے۔ محبت تو رواں جذبہ ہے اس کو ایک خاص دن پر منانے کا کیا مطلب ہے؟اب انہیں کون سمجھائے کہ قبلہ مہذب دنیا کا رواج ہے کہ کسی بھی بہترین جذبے یا عظیم کام کی نسبت سے سال میں ایک دن منایا جاتا ہے تاکہ اس کی اہمیت اجاگر کی جا سکے۔ مثلاً بچوں کا دن۔ مزدوروں کا دن۔ ماں اور باپ کا دن۔ اسی طرح محبت کا بھی ایک دن منایا جاتا ہے۔ہم جیسے بہت سارے اپنے روایتی پس منظر کی وجہ سے اسے نہیں مناتے۔لیکن جو مناتے ہیں انہیں روکنے کا ہمارے پاس جواز کیا ہے؟۔
کیا اس دن کو منانے والے کسی انسان نے ہمیں اسے منانے پر زور دیا ہے؟لیکن زبر دستی لوگوں کی زندگیوں میں دخیل اس طبقے کو میں ڈھیٹ تو نہیں کہوں گا لیکن احمق کہنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ وہ اس لیے کہ یہ اتنی بنیادی سی حقیقت بھی نہیں سمجھتے کہ وقت کی گاڑی بہت منہ زور ہوتی ہے۔ اس میں نہ بریک ہوتی ہے اور نہ ہی ریورس گیئر۔اور فطرت کا بہاؤتو اس سے بھی بہت تند خو ہوتا ہے۔یہ اپنے سامنے کسی بند کو قبول نہیں کرتا۔محبت اور نفرت فطری جذبے ہیں حضور۔
جس طرح آپ نفرت کرنے سے باز نہیں رہ سکتے۔اسی طرح محبت کرنے والے کس طرح باز رہ سکتے ہیں؟۔برادرانِ ایمانی واسلامی دنیا کو بدلنے کابھوت سر سے اتار کر خود کو بدلیے۔خود بھی جئیں اور دوسروں کو بھی جینے دیجیے۔