سکندر علی
درباری قصیدہ گو بڑی رعونت سے مزدوروں کے پر کاٹنے کی بات کرتے ہیں۔ پَر تو دور کی بات ہے مزدور دشمن پالیسیوں نے محنت کشوں کی کھال تک نہیں چھوڑی، نہ ہی مزدور ایسے کرتوت کے حامل ہوتے ہیں کہ غیر ملکی شاہوں کے محلات میں ان کے لئے جگہ مختص رہے، ورنہ جمہوری آمریت کی ڈھائی گئی مصیبت بھری صورت حال میں معافی نامہ لکھ کر کب کا جدہ کی طرف پرواز کر جاتے، قصروں میں قیام کرتے، سٹیل کے کارخانے لگاتے جس کے بعد راوی چین ہی چین لکھتا۔
ہاں بہت تلخ اوقات کے ساتھ مزدور البتہ مجبوراً سانس لیتے ہیں جس کی ڈوری اپنے حق کےلئے پر امن احتجاج کے دوران درباری قصیدہ گو کے پر کاٹنے کے دعوے کے عین اگلے روز بے رحمی کے ساتھ کاٹ دی جاتی ہے۔ دعو یٰ صحیح ثابت ہوتا ہے۔ جمہوری آمریت کی بندوق سے گولیاں چلتی ہیں۔ مزدوروں کو ان کے اپنے خون میں نہا دیاجاتا ہے ۔ ہاتھوں سے دنیا کے مقبول ترین سرخ جھنڈے گر کر خون میں ہم رنگ ہو جاتے ہیں۔
اس کے بعد ایک طرف تحقیقاتی کمیشن کا قصہ شروع ہو جاتا ہے، ”سنگ بہ پائے لنگ“ کے مصداق محنت کشوں کو ہی لعنت ملامت کی جاتی ہے، پریس کانفرنسز میں پھبتیاں کسی جاتی ہیں، جملہ بازی ہوتی ہے اور مزدور خود اپنے خون کے لیے مورد ِالزام ٹھہرتے ہیں۔
دوسری طرف جہاں تین مزدوروں کی لاشیں ہیں، آہ و فغاں ہے، یتیموں کے بلکنے اور بیواؤں کی بین کی آوازیں ہیں، زخمیوں کے کراہنے کی صدا ئیں ہیں، اس طرف درباری ہرکاروں کی توجہ نہیں کہ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کے عہد کر رکھے ہیں اور یہ ایفائے عہد کے قائل ہیں۔ فلاحی مملکت کا کیا معنی ہے؟ مٹی ڈال دیجیئے !!۔
رسمِ بیدادگری کو جواز فراہم کرنے کی ضرورت پڑی ہے تو 1952 کے ایک ایکٹ کی گرد جھاڑ کر راتوں رات نافذ کر دیا گیا ہے۔ اداروں کی منظور نظر افراد میں بندر بانٹ کے لیے عام لوگوں کو بدعنوانی، بدانتظامی اور خسارے کی کہانیاں سنا کر رائےعامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس مقصد کے لئے ذاتی بینک اکاؤنٹ کی بجائے ملکی خزانے سے ہی روزانہ فراخ دلی کے ساتھ اشتہارات چھاپے جارہے ہیں۔
لگتا ہے یہ سلسلہ جاری رہے گا جب تک لوگ ان کہانیوں پر اعتبار نہیں کرتے۔ یہ شاطرانہ چال اس لئے لازم ہے کہ کہیں سوال کرنے کی رسم نہ چلے کہ درست ہے بدعنوانی ایک حقیقت ہے مگر کیا اس کا حل اصلاحات نہیں؟ بد انتظامی سے آنکھیں نہیں چُرائی جا سکتیں مگر کیا سیاسی مداخلت کا دروازہ بند کر کے یہ مسٔلہ حل نہیں کیا جاسکتا؟
قابلیت و اہلیت کو پامال کر کے اقرباء پروری کے رواج پر قائم رہا جائے گا تو خسارہ ہی نوشتۂِ دیوار نہ ہو گا تو کیا ہوگا؟ ایما ن سے بتائیے گا کہ اگر یہی مسائل اتفاق فاؤنڈریز میں سر اٹھائیں تو انہیں بھی بیچ دیا جائے گا یا ان مسائل پر بہترین حکمت عملی کے ذریعے قابو پایا جائے گا؟ اگر وہاں بیچنے کی سوچ تک نہیں تو کیا قومی ادارے کسی لوہار کے والد کے جہیز میں آئے ہیں کہ جب دل چاہا مزدوروں کو سڑکوں پر پھڑکا کر انھیں فروخت کیا جائے؟
اگر آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں ملتا تو غیرت مند بن کر قومی اداروں سے جان چھڑانے کی بجائے آئی ایم ایف سے جان چھڑائیے کہ عوام بھی سکون کی سانس لے سکے۔ اصلاحات لانے، سیاسی مداخلت بند کرکے، میرٹ کے شفاف نظام کے تحت بھرتیاں کرکے بدعنوانی پر قابو پا کر اداروں کو خسارے سے نکالنے کا ہنر نہیں آتا تو ادارے بیچ کر مزدوروں کو در بہ در کرکے عوام کو بکھیڑے میں ڈالنے کی بجائے حکومتی نالائقی کا اعتراف کیا جائے۔
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو، دہشت گردی پر قابو پا نے کے ساتھ ساتھ روزگار مہیا کرنے، عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور کشکول توڑنے کے وعدے پر ہی آپ کی تاج پوشی ہوئی تھی، نہیں کر سکتے تو نااہلی کا اعلان کیجیئے اور چلتے بنیئے۔ یہ نااہلی و نالائقی نہیں تو اور کیا ہے کہ پڑوس میں پابندیوں کی زنجیروں سے آزادی پانے والا ایک ملک حال ہی میں اپنی فضائی کمپنی کو مستحکم کرنے کے لئے یکمشت ایک سو پندررہ ایٔربسز کی خریداری کا برق رفتار معاہدہ کر چکا ہے
جبکہ ایک اور پڑوسی جس کو ہم اپنا حریف قرار دیتے نہیں تھکتے، ہرکچھ عرصے بعد سینکڑوں ریلوے انجنز خرید کر ریلوے نیٹ ورک کی شبانہ روز وسعت میں کوشاں ہے۔ چائنا کا تو ذکر ہی نہیں کرتے۔ جبکہ ہماری فضائی کمپنی بک رہی ہے، تین صوبوں میں ریلوے آثار قدیمہ کا منظر پیش کر رہا ہے اور دیگر اداروں کو آئی ایم ایف کے ایما پر فروخت کرنے کی حامی بھر لی گئی ہے تاکہ گدائی کے خالی کشکول میں کچھ قرضے کے پیسے نظر آنے کے آثار پیدا ہوں۔
اور یہ جوہٹ دھرمی پر قائم رہ کر نیا ادارہ بنانے کا فرمان جاری کیا گیا ہے اس کے لئے کیا مریخ پر بھرتیاں ہونگی؟ 120 دنوں میں نیا ادارہ بنانے تو جا رہے ہیں، تین دفعہ (آپ کے بہ قول) بھاری مینڈیٹ کے ساتھ سالوں حکومت میں رہنے کے باوجود اداروں کی مضبوطی اور ان کو خسارے سے نکالنے کا معاملہ ترجیحات میں نہیں رہا۔ توجہ مزدوروں کو سڑکوں پر ہی رونے دھونے میں مصروف رکھنے اور ان سے گولیوں کی زبان میں بات کرنے کی پالیسی پر مرکوز رہی اور اس پالیسی ہی کا نتیجہ ہے کہ مزدور اپنے ساتھیوں کی لاشیں گھسیٹ رہے ہیں۔
یہ بھی کہا گیا کہ اگر آج پی آئی اے کے مزدوروں کی بات سنی جاتی ہے تو کل واپڈا سمیت دیگر اداروں کے مزدوروں کی بات بھی سننی پڑے گی۔ گویا اب یہی رواج ہو گا کہ جس ادارے میں کمزوری محسوس کی گئی، دنیا بھر میں مروّجہ طریقہ اختیار کرکے اصلاح کی بجائے، کسی تردد کےبغیر نیا ادارہ بنایا جائے گا۔ بےروزگاری اور اس کے اثرات کے طور پر مایوسی، سماجی بگاڑ اور پھر بد امنی کے خدشات جائیں بھاڑ میں۔ اداروں پر ادارے بنانےکی شاہ خرچی کا مشغلہ اپنا کر ہٹ دھرمی پر قائم رہا جائے گا۔ محنت کشوں کے خون پسینے کی کمائی سے بنے ملکی خزانے کی چابی جو ہاتھ آگئی ہے۔!
کس نے بتایا ہے کہ” پر کاٹ دیں گے، بات نہیں سنیں گے، مجرموں اور چوروں جیسا سلوک ہو گا، پیچھے نہیں ہٹیں گے، مطالبات نہیں مانیں گے، جیل بھیج دیں گے، تنخواہیں بند کریں گے، مذاکرات نہیں کریں گے، خمیازہ بھگتنا پڑے گا“ وغیرہ جیسے الفاظ عوامی نمائندگی کی زبان میں مستعمل ہیں؟ جی نہیں! بالکل نہیں! جمہوریت تو در کنار اس طرح کی زبان مطلق العنان آمریت میں بھی دھڑلے سے بولنے میں احتیاط برتی جاتی ہے۔
آج کل تسلسل سے جاری ہونے والے ان فرمودات و ارشادات کو سن اور پڑھ کراسی منہ سے انقلاب، لبرل ازم اور خوشحالی کے دعوؤں پر شک ہونا فطری امر ہے۔ اپنے صوبوں کے مزدور پیشہ طبقے سے آمرانہ رویے اور پوری ریاستی مشنری کی طاقت کے ساتھ محاذآرائی اور پھر عام تعطیل کرکے کشمیریوں سے محبت،
یکجہتی، وفاداری کے دعوے!! کوئی کیسے اعتبارکرے ؟
یہ کس کا لہو ہے کون مرا؟ جمہوریت کے چغے میں آمرانہ غنڈہ گردی دکھا کر دن دیہاڑے تین نہتے بے گناہ مزدور قتل کیے گئے ہیں۔ اب پھر وہی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے بہکاوے ہیں۔ قرار واقعی سزا کے غلغلے ہیں۔ قاتل کو ڈھونڈا جارہا ہے۔ظاہر کیا جارہا ہے کہ سوئی تھی اور بھوسے کے ڈھیر میں گم ہو گئی! حالانکہ صحافی حسن مجتبیٰ کو بھی کوئی پیغام بھیج کر بتا دیتا ہے کہ ایک ریاستی اہلکار کو ایک پی آئی اے کارکن نے اپنی ٹانگ سے بندھے پستول سے احتجاجی پی آئی اے ورکروں پر سیدھے فائر کرتے دیکھا۔ کہانیاں نہ گھڑی جائیں، تاخیری حربے چھوڑیے، محنت کشوں کے قاتل اور اس کو قتل پر اکسانے والوں کی گرفتاری ہی نیت کی درستگی کا تعین کرے گی۔ ادھر ادھر کی بات نہ ہو کہ اب رہبری زیرِ سوال ہے۔
ہم نہ بھولیں گے کہ پھر شیر ہونے کے دعوے داروں کا دور حکومت ہے اور مزدوروں پر دہاڑا جا رہا ہے۔ پھر مزدور اپنے روزگار کے چھن جانے کے خوف سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں، گولی کھا کر زمین پر گررہےہیں، مر رہے ہیں، تاہم سریے اور لوہے کی سرمایہ کاری میں کوئی گھاٹا نہیں، لاہور کو انقرہ بنانے کی منصوبہ بندی ہے، اورینج ٹرین کے لیے زمینیں کھودی جا رہی ہیں اور نکالی گئی مٹی کو سندھ کے تھر میں تادم تحریر بھوک اور بیماری سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر ہلاک ہونے والے 148 لاغر و پنجر بچوں، بلوچستان کی بے گور و کفن مسخ شدہ لاشوں اور مخصوص طاغوتی مقاصد کے لئے شہروں میں چھوڑے جانے والے خود کش مذہبی انتہاپسند درندوں کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کی اجتماعی قبروں پرڈالا جارہا ہے۔
پی آئی اے کے چودہ ہزار ملازمین جن کے روزگار کی شہ رگ پر پاؤں رکھا گیا ہے اگر چیختے ہیں کہ” آج ہم کل تمہاری باری ہے “ تو ایسے میں محنت کشوں کے پاس متحد ہونے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں کہ حاکمِ وقت کے تیور مزدور دشمن نظر آتے ہیں۔ صبحِ بے نور اور نرالے دستور کے زمانے کے آثار ہیں۔قرائن بتاتے ہیں کہ محنت کش زیرِ عتاب رہیں گے۔ حبیب جالب کی یاد شدت سے آتی رہےگی۔
اس رعونت سے وہ جیتے ہیں کہ مرنا ہی نہیں
تخت پر بیٹھے ہیں یوں جیسے اترنا ہی نہیں
ان کا دعویٰ ہے کہ سورج بھی انہی کا ہے غلام
شب جو ہم پر آئی ہے اس کو گزرنا ہی نہیں
انتہا کر لیں ستم کہ لوگ ابھی ہیں خواب میں
جاگ اٹھیں جب لوگ تو ان کو ٹھہرنا ہی نہیں