ہیومن رائٹس واچ سے منسلک ایک امریکی محقق نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے ریکارڈ پر سخت تنقید کی ہے۔
ڈی ڈبلیو کی نینا ورک ہوئزر نے ایڈم کوگل کا انٹرویو کیا، جس میں امریکی محقق نے کھل کر سعودی عرب پر تنقید کی۔ اس انٹرویو میں پوچھے گئے چند چیدہ چیدہ سوالات اور اُن کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں۔
ڈوئچے ویلے: آپ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال کیسی دیکھتے ہیں؟
ایڈم کوگل: ہمیں سعودی عرب کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ایک ایک پہلو پر نظر ڈالنا ہوگی۔ چند شعبوں میں اس ملک میں یقیناً ترقی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر خواتین کے حقوق اور غیر ملکی کارکنوں کے ساتھ رویے جیسے معاملات میں کسی حد تک بہتری آئی ہے تاہم بہت سے دیگر شعبے ایسے ہیں جہاں صورتحال بد سے بدتر ہو چُکی ہے۔
بنیادی حقوق کے ضمن میں مثال کے طور پر آزادی رائے، آزادی اجلاس، تنظیموں کی تشکیل کی آزادی اور آزادی مذہب کی صورتحال بہت ہی خراب ہے۔ سعودی عرب کے غیر جانبدار اور آزاد صحافی طویل قید کاٹ رہے ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم وکیل ولید ابو الخیر ان دنوں 15 سال کی سزائے قید جھیل رہے ہیں وہ بھی محض ٹی وی اور ٹوئٹر پر سعودی حکام کو تنقید کا نشانہ بنانے کے جرم میں۔ بحرحال صورتحال خوفناک ہے۔
ڈوئچے ویلے: کیا گزشتہ ہفتوں اور مہینوں کے دوران ان حالات میں ابتری آئی ہے؟
ایڈم کوگل: جی نہیں، یہ خوفناک صورتحال گزشتہ چار پانچ برسوں سے چلی آ رہی ہے۔ 2011ء کی ’عرب بہار‘ کے بعد سعودی حکومت نے اختلاف رائے رکھنے والے تمام افراد کو بند کر رکھا ہے۔ انہوں نے عملی طور پر اپنی ہیومن رائٹس کمیونٹی کو ہی جیلوں میں بند کر دیا ہے۔ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہے جو جیل میں نہیں ہے۔
ڈوئچے ویلے: سعودی نظام عدلیہ میں سب سے بڑا نقص کون سا ہے؟
ایڈم کوگل: سعودی عدلیہ صوابدیدی ہے۔ اس ملک میں کوئی پینل کوڈ نہیں۔ عام طور سے کوئی تحریری قانون نہیں پایا جاتا۔ عام طور سے سیاسی مخالفین اور سرگرم عناصر پر حکمران کے ساتھ ’بے وفائی‘ کرنے کے الزام عائد کر کے انہیں سزا دی جاتی ہے لیکن اس بارے میں کوئی دستاویز موجود نہیں جس میں ’حکمران کے ساتھ بے وفائی‘ کے جرم کے معنے یا اس کی سزا کیا ہونی چاہیے؟ کی وضاحت موجود ہو۔ یہ معاملہ انفرادی طور پر ججوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے وہ اس بارے میں جو چاہیں فیصلہ کریں۔
ڈوئچے ویلے: کیا کوئی ملزم جس پر مقدمہ چل رہا ہو کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے؟
ایڈم کوگل: سعودی عرب میں اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ وہ مقدمے کے وقت اپنا دفاع کر تو سکتے ہیں تاہم ان کا مقدمہ منصفانہ نہیں ہوتا۔
ڈوئچے ویلے: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مغربی سیاستدان ریاض حکومت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتے ہیں، خاص طور سے انسانی حقوق کی صورتحال کے حوالے سے؟ کیا ان کے سعودی عرب کے دورے وہاں کی صورتحال میں بہتری کا سبب بنے ہیں؟
ایڈم کوگل: بالکل نہیں، مغربی ممالک سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں ہمیشہ سے روایتی خاموشی احتیار کرتے آئے ہیں۔ مغربی سیاستدان سعودی حکام کو ناراض کرنے سے ڈرتے ہیں۔ کسی بھی ملک کا سعودی عرب پر اثر و رسوخ نہیں ہے۔ اگر تمام مغربی ممالک سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کی شرط یہ عائد کر دیں کہ ریاض حکومت انسانی حقوق سے جُڑے مسائل حل کرے تو یقیناً وہاں اعتدال پسندی آ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگرجرمنی کہہ دے کہ وہ سعودی عرب کو اپنے ٹینک اُس وقت تک فراہم نہیں کرے گا جب تک وہ ہیومن رائٹس کی سنگین پامالی کا سلسلہ بند نہیں کرتا۔ یہ ایک مثبت پیغام ہوگا۔
♦