بھارتی پریس سے ۔۔۔ظفر آغا
سماج کے نوجوان ضمیر کی آواز ہوتے ہیں ۔ نوجوانی وہ عمر ہوتی ہے جس میں انسان بلا کسی خوف سچ اور انصاف کے لئے اپنی آواز بلند کرتا ہے ۔ چنانچہ اگر کسی سماج میں نوجوان سڑکوں پر نکل پڑیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس سماج میں کچھ نہ کچھ ضرور گڑبڑ ہے ۔
افسوس کہ پچھلے چند ہفتوں سے ہندوستانی نوجوان سڑکوں پر برابر نکل رہے ہیں ۔ پہلے روہت ویمولا کے معاملہ میں حیدرآباد یونیورسٹی کے نوجوان کھڑے ہوگئے اور ابھی پچھلے ہفتے سے دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے یونین صدر کنہیا کمار کی گرفتاری پر سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں نوجوان دہلی کی سڑکوں پر نعرے لگارہے ہیں۔ ابھی جے این یو کی آگ ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی تھی کہ دہلی کے پڑوس ہریانہ میں جاٹ نوجوانوں نے ریزرویشن کے معاملے پر پورے ہریانہ میں ایک اور آگ لگادی ۔
کبھی حیدرآباد تو کبھی دہلی اور پھر کبھی روہتک اور کل کو نہ جانے اور کون سا شہر نوجوانوں کے غصے سے ابل پڑے کہنا مشکل ہے ،لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ یہ کچھ اچھے آثار نہیں ہیں کیونکہ ہماری عمر کے لوگ اکثر یہ شکایت کرتے تھے کہ پتہ نہیں آج کے نوجوانوں کو کیا ہوگیا ہے ، کسی یونیورسٹی میں کوئی اسٹوڈنٹ موومنٹ ہی نہیں ہوتا ۔
ہمارے دور کے افراد کو عموماً یہ شکایت ہوتی تھی کہ آج کا طالب علم تو بس پڑھائی اور روزگار کے علاوہ کچھ سوچتا ہی نہیں ہے ۔ اس کو سماجی اور سیاسی امور سے کوئی دلچسپی ہی نہیں رہ گئی ہے ۔ وہ بس ایک خود غرض زندگی جی رہا ہے جس میں اپنی نوکری اور اپنی ترقی کے سوا کوئی دوسرا مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ اور یہ شکایت کسی حد تک درست بھی تھی ۔
کیونکہ ہم جس دور میں یونیورسٹیوں میں ہوا کرتے تھے اس دور میں طالب علم کلاسوں میں کم اور سڑکوں پر نعرہ لگاتے ہوئے زیادہ پائے جاتے تھے۔ وہ 1970 کا دور تھا ۔ ایک ہنگامی دور کہ جس دور میں ہم نے اندرا گاندھی کا عروج و زوال دیکھا ۔ 1970 کی دہائی کے اولین دور میں اندرا گاندھی اس ملک کی ہیروئن ہوتی تھیں وہ اس وقت ہندوستانی سیاسی افق پر غریبوں کی مسیحا بن کر ابھری تھیں ۔ اندرا گاندھی 1970 کے اولین دور کے نوجوانوں کے خوابوں کی تعبیر تھیں لیکن 1974 کے آتے آتے انہیں اندرا گاندھی پر ہماری نسل کے نوجوانوں کا غصہ پھٹ پڑا ۔
ہوا کچھ یوں کہ بہار میں کانگریس حکومت کے خلاف بدعنوانی کا معاملہ اٹھ کھڑا ہوا ۔ بہار کے طالب علم بدعنوانی کے خلاف سڑکوں پر نکل پڑے ۔ آہستہ آہستہ یہ معاملہ زور پکڑتا گیا ۔ دیکھتے دیکھتے یہ آگ گجرات کی یونیورسٹیوں میں کانگریس حکومت کے خلاف لگ گئی ۔ بس کچھ ہی مدت میں طالب علموں کی تحریک اندرا مخالف سیاسی تحریک بن گئی ۔
اس کے کمانڈر جنگ آزادی کے سپاہی اور اس وقت کے سب سے بزرگ لیڈر جے پرکاش نارائن بنادئے گئے ۔ بس اب کیا تھا سارے ملک اور بالخصوص شمالی ہندوستان کے طالبہ کلاسوں کو چھوڑ کر اندرا گاندھی کے خلاف سڑکوں پر نکل پڑے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ آگ سارے ہندوستان میں پھیل گئی وہ اندرا جو چند سال پہلے ایک ہیروئن تھیں وہی اندرا اب ولن بن گئیں ۔
نوجوانوں کے غصے سے گھبرا کر اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی لگادی ۔ جے پرکاش نارائن سمیت سینکڑوں سیاسی لیڈر اور ہزاروں نوجوان جیلوں میں ٹھونس دئے گئے ۔ ملک میں سناٹا چھا گیا ۔ نوجوان بھی سہم کر خاموش ہوگیا ۔
لیکن1975 میں اندرا گاندھی نے جو ایمرجنسی لگائی تھی بالآخر انھوں نے ایمرجنسی 1977 میں ہٹالی اور ملک میں پارلیمانی چناؤ کا اعلان ہوگیا ۔ بس کیا تھا جناب ، وہی یونیورسٹیوں کے طالب علم جو خاموش بیٹھے تھے ، یکایک پھر سڑکوں پر اتر آئے ۔ جے پرکاش نارائن کی قیادت میں جنتا پارٹی قائم ہوئی ۔ 1977 میں چناؤ ہوئے ۔ صرف کانگریس پارٹی ہی نہیں بلکہ خود اندرا گاندھی بھی چناؤ ہار گئیں ۔ اور اس پوری تحریک کا سہرا اگر کسی کے سر جاتا ہے تو وہ اس دور کے نوجوان ہیں جنھوں نے اپنی ضمیر کی آواز پر سب کچھ چھوڑ کر اندرا جیسی بلند و بالا لیڈر کے اقتدار کا گھمنڈ توڑ دیا ۔
آج ایک بار پھر ملک میں نوجوان سڑکوں پر ہیں ۔ یہ وہ نوجوان ہیں جن کا پیٹ بھرا ہوا ہے ۔ 1970 کی دہائی کے نوجوانوں کی طرح آج کے نوجوان بھوکے نہیں ہیں ۔ ہمارے دور کے نوجوانوں کی طرح ان کو روٹی کپڑا اور مکان کی لڑائی نہیں لڑنی پڑرہی ہے ۔ آج کا نوجوان جینز پہنتا ہے ، موبائل فون پر باتیں کرتا ہے اور بغل میں لیپ ٹاپ دبا کر دنیا سے جڑا رہتا ہے ۔
آج کے نوجوان کو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ سڑکوں پر ہے ۔ آخر کیوں ؟ اسکو پچھلے چند ہفتوں میں صرف اس بات پر غصہ آرہا ہے کہ اسکی آواز کو دبایا جارہا ہے اور یہ اس کو برداشت نہیں ہے ۔ اس کی آواز کے ساتھ جے این یو میں کشمیر کی آزادی کی آواز بھی اٹھائی گئی ۔ یہ یقیناً غلط تھا ۔ لیکن اس مجمع میں سب ملک دشمن نہیں تھے ۔ پھر بھی پولیس نے جے این یو پر سخت دھاوا بولا اور بس نوجوانوں کا غصہ پھوٹ پڑا ۔
اب ہندوستان کے کونے کونے میں یونیورسٹیوں میں جے این یو کی حمایت میں آواز اٹھ رہی ہے ۔ جو شروعات 1970 کی دہائی میں اندرا گاندھی کے خلاف بغاوت سے ہوئی تھی جے این یو تحریک میں بھی وہی آثار دکھائی دے رہے ہیں ۔ کہیں جے این یو سے اٹھی یہ چنگاری ایک سیاسی تحریک بن گئی تو 1970 کی دہائی کی طرح سارے ملک کا نوجوان سڑکوں پر ہوگا اور پھر کہیں ملک ایک ایسی کروٹ نہ لے جیسی کہ 1977 میں ہندوستان نے لی تھی ۔
یہ بات تو آنے والا وقت ہی طے کرے گا لیکن ایک بات تو طے ہے ملک کے نوجوانوں کی بڑھتی بے چینی یقیناً کسی آنے والے طوفان کی پیش گوئی کررہی ہے ۔
Daily Siasat, India
♥