دو بلوچ، دو متضاد رویے

ذوالفقار علی زلفی

IMG-20160130-WA0005

تیس جنوری2016 کی صبح مجھے دو تصویریں موصول ہوئیں ۔ دو بلوچ مگر حالت مختلف۔۔۔دو بلوچ مگر سرکاری رویہ جدا۔۔۔دو بلوچ مگر راستے متضاد۔ایک تصویر معروف گینگیسٹر عزیر بلوچ کی تھی۔۔۔ صاف ستھرے سفید لباس میں ملبوس ، سر پر بلوچی ٹوپی سجائے ، رینجرز اہلکاروں کی سنگت میں قیمتی گاڑی میں فروکش عزیر بلوچ کچھ کمزور دکھائی دے رہے تھے۔تصویر کے نیچے ایک دوست کا پیغام تھا سردار عزیر بلوچ بالآخر دریافت ہوگئے۔۔۔

دوسری تصویر بلوچ سیاست کے اہم ترین رہنما ڈاکٹر منان بلوچ کی تھی ۔فرش پر خون میں لت پت ، بلوچستان کی آزادی کا خواب بند آنکھوں میں لیے ابدی نیند سوئے ہوئے۔دوست کا پیغام کچھ یوں تھا استاد ڈاکٹر منان بلوچ بھی شہید کردیے گئے۔

عزیر بلوچ جب سردار نہ تھے تب بھی ان کی زندگی شاہانہ رہی۔۔۔ان کے والد فیض محمد فیضو کامیاب ٹرانسپورٹر اور وہ ان کے بگڑے نوابزادے۔انہوں نے ابتدائی تعلیم غلام نبی بلوچ کے قائم کردہ تعلیمی ادارے برائٹ پبلک اسکول میں حاصل کی مگر چونکہ تعلیم سے زیادہ انہیں اللو ں تللوں سے شغف تھا اس لیے چند کلاسوں سے آگے پڑھنے کا یارا نہ رہا۔

زمانہ بدلا ، زمانے کی رت بدلی عزیر بلوچ پیپلز پارٹی کے عسکری ونگ پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ اور ایک ان دیکھے قبیلے کے خود ساختہ سردار بن گئے۔زمین پر چلنے والے معمولی محنت کش انسان ان کی ہتھیلی پر رینگنے والے کیڑے مکوڑوں کا روپ دھار گئے۔غلام نبی بلوچ جنہوں نے کبھی ان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی کوشش کی تھی ان کے سب سے بڑے اور لائق سمجھے جانے والے فرزند عدنان بلوچ ، سردار کے سیاسی مشیر کے عہدے پر سرفراز ہوگئے۔

نہ صرف پیپلز پارٹی کے جمہور پسند اکابرین بلکہ پاکستانی میڈیا کے ارباب بست و کشاد نے بھی انہیں کراچی کے بلوچوں کا متفقہ رہنما قرار دے دیا۔انہوں نے ایک قبائلی سردار کی طرح ہی حکومت کی ، جہاں پناہ کو جو پسند نہ آیا وہ آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر دوبارہ نظر نہ آیا۔بعض افراد کو تو سبق سکھانے کیلئے آتش عزیر میں بھی دھکیلا گیا ، کچھ بدتمیزوں کے گھر بھی پھونکے گئے۔لیاری کی تاریخ میں پہلی دفعہ خواتین کی آبرو ریزی کے ریکارڈ بھی بنائے اور توڑے گئے۔

پراسرار بندے ہوں یا محافظان جمہور ، ادب و ثقافت کے پیغام بر ہوں یا فٹبال و باکسنگ کے شائق ان کے دربار میں سب کی داد رسی ہوتی رہی ۔چونکہ بلوچستان کی سیاست پاکستان کی صحت کیلئے مضر ہے اس لیے جنرل کیانی کے پرستار عزیر بلوچ نے اس قسم کی سیاست پر مکمل پابندی عائد کروارکھی تھی۔

وقت نے پھر کروٹ لی۔نوابشاہ کے بادشاہ کو والی کراچی عزیر بلوچ کی من مانیوں پر طیش آگیا، انہوں نے والی کو برطرف کرنے کا اعلان صادر فرمادیا۔گھمسان کا رن پڑا۔۔۔درجنوں کیڑے مکوڑے کچلے گئے مگر شاہ رائیونڈ نے سردار کو بچائے رکھا۔پراسرار بندوں اور والی بدین ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی ثالثی کے بعد معاملات لمحے بھر کیلئے سلجھ گئے۔۔انتخابات ہوئے ، عزیر بلوچ کی پوزیشن مستحکم اور نبیل گبول جیسے جدی پشتی حکمرانوں کو شکست کا سامنا ہوا۔سردار تو خوش ہوا مگر موگیمبو کی تیوری پر بل چڑھ گئے۔

جنگ پھر چھڑ گئی۔نتیجہ یہ نکلا کہ عزیر بلوچ پراسرار بندوں کی پراسرار تحویل میں پراسرار طور پر غائب ہوگئے اور اب تیس جنوری کو پراسرار طور پر برآمد ہوکر یقیناً پاکستانی سیاست میں ایک اور پراسرار کردار ادا کرینگے۔

ڈاکٹر منان بلوچ کا پراسرار بندوں سے متضاد تعلق رہا۔انہوں نے زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم مشکے میں شعور کی دہلیز پر قدم رکھا۔صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کیلئے لوگوں کو سسکتے و بلکتے دیکھا۔میٹرک کرتے کرتے سیاست بھی کرنے لگے۔پڑھنے لکھنے اور دنیا کو سمجھنے کا شوق تھا سو غریب والدین نے پیٹ کاٹ کر بولان میڈیکل کالج بھیج دیا۔

طلبا سیاست اور کوئٹہ کے علمی ماحول کے باعث وہ بلوچستان کی تاریخ اور پاکستان کے ساتھ اس کے رشتے کو بھی جان گئے۔طالبعلمی سے فارغ ہوئے تو دورافتادہ علاقے جھاؤ جاکر دکھی انسانیت کی خدمت میں جت گئے۔بلوچ عوام کی سادگی اور ان کی محرومی کا اتنے قریب سے مشاہدے نے ان کی فکری زندگی کو اتھل پتھل کردیا۔

IMG-20160130-WA0000

خود کہتے تھے کہ میرے سب سے بڑے استاد جھاؤ کی وہ بوڑھی خواتین ہیں جنہوں نے مجھے زندگی کا وہ فلسفہ سمجھایا جسے میں کتابوں سے نہ سمجھ سکا ۔ ان کے چہرے کی جھریوں میں مجھے بلوچستان دکھتا ہے۔ وہ شاید وہاں رہ کر انہی جھریوں کا علاج کرتے رہتے مگر خیر بخش مری کی مہربانیوں اور غلام محمد بلوچ کی جوشیلی تقریروں کے باعث جلد ہی وہ دوبارہ سیاست کی جانب پلٹے۔

جس وقت عزیر بلوچ پراسرار بندوں سے عوام کو دبانے کے میکیاولیانہ ہنر سیکھ رہے تھے ٹھیک اسی وقت ڈاکٹر منان بلوچ عوام کو پراسرار بندوں کیخلاف منظم کررہے تھے۔

عزیر بلوچ کا جبری حلقہ اثر کراچی تھا جبکہ ڈاکٹر منان بلوچ کراچی سمیت بلوچستان بھر کو اپنا وطن تسلیم کرتے تھے۔انہیں سنگلاخ چٹانوں ،بے آب و گیاہ میدانوں ، ریگستانوں ، نخلستانوں اور پہاڑوں سے نکلتی ندیوں پر مشتمل بلوچستان نامی اس خطے سے عجب عشق تھا۔

پاکستانی میڈیا اور حکومت نے منشیات فروش اور قاتل عزیر بلوچ کو سردار قرار دے رکھا تھا جبکہ مسیحائی کا بار اٹھائے سردار مخالف روشن فکر ڈاکٹر منان بلوچ کو خطرناک اور جرائم پیشہ اشتہاری کے نام سے یاد کیا جارہا تھا۔

تیس جنوری 2016، ڈاکٹر منان بلوچ دہشت گرد قرار دے کر خاکی وردی کے ہاتھوں قتل ہوئے جبکہ عزیر بلوچ اسی خاکی وردی کے باعزت مہمان کے روپ میں پیش کیے گئے۔

عزیر بلوچ کی دریافت پر کسی نے ماسوائے ان کے رشتے داروں و کاسہ لیسوں کے چوں بھی نہ کی جبکہ ڈاکٹر منان بلوچ کے قتل پر پوری قوم سوگوار ہے۔

پاکستان اور بلوچ کے درمیان یہی سب سے بڑا فرق ہے ، اگر کوئی سمجھے۔

Comments are closed.