ذوالفقار علی زلفی
مغل دربار اور اس کا رعب و دبدبہ ہمیشہ سے ہندی فلم انڈسٹری کا موضوع رہا ہے اور سب سے زیادہ پرکشش شخصیت جلال الدین محمد اکبر کی رہی ہے….1935 کی فلم “انارکلی” سے لے کر تاحال شہنشاہ اکبر کے کردار کو مختلف اداکاروں نے پردے پر پیش کیا مگر 1966 کی سدا بہار فلم “مغلِ اعظم” میں شہنشاہ کا جو کردار پرتھوی راج کپور نے پیش کیا اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
معروف فنکار نصیرالدین شاہ نے کیا خوب کہا ہے کہ : “مغلِ اعظم کے اکبر کی اداکاری خود شہنشاہ اکبر بھی نہ کرپاتے“۔
پنجاب کا وہ حصہ جو آج پاکستان کہلاتا ہے نے ہندی سینما کو متعدد ایسے فنکاروں سے نوازا جو آج سینما کے فخر سمجھے جاتے ہیں مثلاً ، بلراج ساھنی ، سنیل دت و سنجے دت ، گووندا ، منوج کمار وغیرہ اور ان سب میں ممتاز کپور خاندان۔
پرتھوی راج کپور غیر منقسم پنجاب کے شہر لائل پور کے نواح میں واقع ایک قصبے سمندری میں 03 نومبر 1906کو پیدا ہوئے۔چونکہ اس زمانے میں لائل پور ، شاہ فیصل سے متاثر نہ تھا اور ہندووں کو دشمن یا حقیر نہیں سمجھا جاتا تھا اس لیے ان کے والد بشیشر ناتھ کپور جو پولیس افسر تھے کو کافی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔بعض فلمی تاریخ دانوں کے مطابق وہ ایک کھتری پنجابی تھے۔
پرتھوی راج کپور نے ابتدائی تعلیم لائل پور اور لاہور سے حاصل کی بعد ازاں ان کے والد پشاور ٹرانسفر ہوگئے اس لیے اعلی تعلیم کیلئے انہوں نے کنگ ایڈورڈ کالج پشاور کو چنا….ان کے والد کی خواہش تھی کہ بیٹا پڑھ لکھ کر پولیس افسر بنے جبکہ خاندان کے دیگر افراد ان کو وکیل کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے مگر وہ ان تمناؤں سے بے نیاز اداکاری کے عشق میں مبتلا تھے۔
عشق پر زور کہاں یہاں تو “قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلتا ہے” سو 1928 کو گھر والوں کی مخالفت اور منت سماجت کی پرواہ کیے بغیر وہ دو سو روپے جیب میں ڈال کر اپنی نوبیاہتا بیوی روما دیوی کو منتظرِ فردا کی تلقین کرکے فلم نگری کی تلاش میں نکل گئے , لیلائے فن کا پتہ بنگال کا نکلا سو کلکتہ پہنچ گئے۔
نیو تھیٹر کلکتہ کی دھوم مچی ہوئی تھی جبکہ خاموش فلموں کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا تھا مگر ان کو بنگالی جادو جچا نہیں , سفر پھر شروع ہوا ، ممبئی پہنچتے پہنچتے جیب اتنی ہلکی ہوچکی تھی کہ پیٹ کو سہارا دینا مشکل ہوگیا۔
ممبئی کی فلم نگری نے کسی مغرور حسینہ کی طرح ان کا استقبال کیا، وہ اس اسٹوڈیو سے اس اسٹوڈیو تک صبح شام کرتے مگر بے سود….کھانے کے لالے پڑ گئے، خوددار تھے اس لیے نہ گھر والوں سے رابطہ کیا نہ کسی سے مانگا بس جو گزری اسے دل پر رقم کرتے رہے۔
زندہ رہنے کیلئے ایک اکسٹرا سپلائر سے رابطہ کیا ، سپلائر نے بھیڑ میں کھڑے رہنے کا موقع دلوایا۔اس زمانے میں ایکسٹرا اداکاروں کو نقد پیسے دینے کا رواج نہ تھا بس کھانے پینے کو مل جاتا تھا۔
رات ہمیشہ کیلئے نہیں ہوتی جلد یا بدیر اسے سحر سے شکست کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے پرتھوی صاحب کی شام غم بھی کچھ دنوں میں دور ہوگئی ۔ایمپریل فلمز کے مالک اردشیر ایرانی نے ان کو اپنی کمپنی میں ماہوار سترہ روپے کے عوض ملازم رکھ لیا۔
سنہ1929 کو کمپنی نے فلم “سینما گرل” بنانے کا منصوبہ بنایا۔ ہیروئن کیلئے معروف اداکارہ ایر میلن منتخب کی گئیں جبکہ ہیرو کیلئے ایرانی نے کپور کو چنا۔فلم کامیاب تو نہ ہوئی مگر ان کی اداکاری کی صلاحیتوں نے خود کو منوالیا۔مپنی نے ان کو فلموں میں موقع دینا شروع کردیا۔اردشیر ایرانی کی زیرک نگاہوں نے ان کی فنکارانہ صلاحیتوں کو مکمل طور پر بھانپ لیا اس لیے جب انہوں نے ہندوستان کی پہلی بولتی فلم “عالم آرا” بنائی تو کپور وہ پہلے اداکار تھے جو اس فلم کیلئے منتخب کیے گئے۔پہلی بولتی فلم کا پہلا مکالمہ بھی انہوں نے ہی ادا کیا۔اس فلم کے ساتھ کپور کی حیثیت مسلم ہوگئی۔
ممبئی دونوں بانہیں کھول کر انہیں گلے لگا چکا تھا مگر پھر بھی ان کے اندر کا فنکار انہیں بے چین کیے رکھتا تھا۔بالآخر وہ فنکار کے سامنے ہار گئے اور انہوں نے ایک بار پھر کلکتہ کا رخ کیا۔نہ کلکتہ اب محض بنگالی تھا اور نہ ہی بی این تھیٹر ،دونوں بنگالی کے ساتھ ساتھ ہندی کو بھی قبول کرچکے تھے۔کپور نے بی این تھیٹر جوائن کرلیا۔بی این تھیٹر نے انہیں “راج رانی میرا” میں اس زمانے کی مشہور ہیروئن درگا کھوٹے کے مقابل بطور ہیرو سائن کرلیا۔فلم کو وسیع کامیابی تو نہ ملی مگر بنگال کے فلم بینوں نے ان کی اداکاری کو کافی سراہا ، یہ فلم بینوں کی محبت ہی تھی جس نے ان کو 1933 سے 1939 تک کلکتہ کا ہی بنا کے رکھا۔
سنہ1941 کو سہراب مودی کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم “سکندر” کو ان کے فن کی بلندی قرار دیا جاسکتا ہے۔اس فلم میں ان کی بے ساختہ اداکاری نے نہ صرف آج تک سکندر کو زندہ رکھا ہے بلکہ اس فلم کی شناخت بھی پرتھوی راج کپور ہیں جہاں وہ ایک سچے فنکار تھے وہاں وہ ایک بہترین انسان بھی تھے۔انہوں نے اکسٹرا سپلائرز کا تختہ الٹ کر اکسٹرا اداکاروں کو یونین بنانے کی ترغیب دی تاکہ کوئی ان کا استحصال نہ کرسکے۔
فلمی دنیا کے روایات کے برعکس وہ جونیئر کو بھی وہی عزت و احترام دیتے جو سینئرز کو حاصل تھا ، ان کی شخصیت ہر قسم کے اسکینڈلز سے بے داغ رہی اسی لیے انڈسٹری سے وابستہ افراد ان کا نام لینے کی بجائے انہیں احترام کے ساتھ “پاپا” کہہ کر پکارتے یہ روایت آج بھی قائم ہے۔
یوں تو 1951 کی ماسٹر پیس فلم “آوارہ” میں بھی ایک اصول پسند جج کے کردار میں انہوں نے کمال کر دکھایا ہے ،اس فلم کے ہدایت کار اور ہیرو ان کے لیجنڈ فرزند راج کپور تھے لیکن ان کے فن کی معراج یقینی طور پر “مغل اعظم” ہے۔
مغل اعظم اور کپور کا تعلق بھی ایک دلچسپ داستان ہے۔ہدایت کار کے آصف ،اکبر اعظم کے کردار کیلئے چندر موہن کو منتخب کرچکے تھے مگر اس دوران وہ شدید علیل ہوگئے اور ان کیلئے اداکاری کرنا ممکن نہ رہا یوں ان کے متبادل کے طور پر پرتھوی راج کپور کو پیشکش کی گئی ۔اس اتفاق کو عطیہ قدرت کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو۔
گرجدار آواز ، چہرے کے اتار چڑھاؤ ، مکالموں کی ادائیگی سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے واقعی ایک عظیم الشان شہنشاہ پردے پر آگئے ہوں۔1966 کی مغل ِاعظم تاحال وہ واحد فلم ہے جس میں حقیقی بادشاہ کو دکھایا گیا ہے۔مغل شہنشاہوں پر متعدد فلمیں بنی ہیں حتی کہ چند سال قبل رتھک روشن بھی فلم “جودھا اکبر” میں اکبر بن کر سامنے آئے لیکن ھندی سینما اپنی سوسالہ تاریخ میں کوئی دوسرا ایسا مغل فرمانروا پیش نہ کرسکی جو پرتھوی کے فن کا مقابلہ کرسکے۔
کہا جاتا ہے مغل اعظم پر 1944 میں کام شروع کیا گیا تھا اور یہ فلم 20 سال کے طویل عرصے کے بعد 1966 کو ریلیز کی گئی۔اس فلم میں ہدایت کار کے.آصف نے جان لڑادی تھی اور انہیں اس کا بھرپور ثمر بھی ملا۔ آج مغل اعظم ہندی سینما کے 50 بہترین فلموں میں سے پہلے 10 میں شمار ہوتا ہے۔ہدایت کاری ، اداکاری ، موسیقی ، نغمے ، کاسٹیوم ، مکالمے ، اسکرپٹ الغرض فلم کا ہر شعبہ بے داغ ہے اور بے داغ ترین کردار ہیں۔ اکبر اعظم جو حرف آخر ہے۔
مغل اعظم کے بعد پرتھوی راج کپور نے دیگر فلمیں بھی کیں مگر وہ دوبارہ فن کی اس بلندی تک نہ پہنچ سکے….
اس زمانے میں فنکار فلم کمپنی کے ملازم ہوا کرتے تھے جو ان سے ماہوار تنخواہ کے عوض کام کراتے تھے ، کپور وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس نظام سے بغاوت کرکے اپنی آزاد حیثیت منوائی اور ہر فلم کا معاوضہ خود طے کیا ، ان کے اس قدم نے مستقبل پر دور رس اثرات مرتب کیے۔آج عامر اور سلمان جیسے اداکار کروڑوں میں معاوضے لیتے ہیں جس کے لیے انہیں پرتھوی راج کپور کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
ہندی سینما کے یہ مغل اعظم 65 سال ہی جی سکے۔ 29 مئی 1972 کو وہ جسمانی طور پر اس جہاں سے رخصت ہوئے….اسی سال انہیں ہندی سینما کے اعلیٰ ترین اعزاز “دادا صاحب پھالکے ایوارڈ” سے نوازا گیا۔بھارتی حکومت نے یوں تو انہیں متعدد اعزازات سے نوازا تاہم ایک بڑے فنکار کی اصل عزت عوام کی محبت ہوتی ہے اور یہ محبت انہیں آج بھی حاصل ہے۔
♣