ابوبکر شیخ
سُورج کب کا اُگ آیا تھا پر گرمیوں کی دوپہر میں ابھی وقت تھا۔میں نے ایک بجے کے قریب بدین شہر کو چھوڑا اور جنوب کی طرف نکل پڑا، شہر سے باہر دو تین کلومیٹر کا سفر کرنے کے بعد ایک پُل آتی ہے۔آپ جیسے اُس سے گذرتے ہیں۔سارا لینڈاسکیپ تبدیل ہو جاتا ہے۔زمینوں میں جہاں فصلیں ہیں وہاں ہریالی ہے۔ اور جن زمینوں سے گندم اور گھاس کٹ گئی ہے وہاں بھینسیں، بکریاں، بھیڑیں گھاس کے تنکے ڈھونڈتی ہیں، اُٹھاتی ہیں اور سر اوپر کرکے گھاس بھی چباتی ہیں اور راستے پر سے گذرتی گاڑیوں کو بھی دیکھتی ہیں۔اب یہ ہر ایک کی مرضی پر منحصر ہے کہ گھاس کھاتے دیکھے یا نہ دیکھے۔
لیکن میں تو دیکھتا تھا کہ میرے پاس یہ سب کچھ دیکھنے کے علاوہ اور کچھ دیکھنے کو نہیں تھا۔شہر بہت دور رہ گیا تو اچھا راستہ بھی وہیں رہ گیا۔اب سڑک کا نام رہ گیا ہے۔گاڑی چلتی کم ہے ہچکولے زیادہ کھاتی ہے۔۔یہ سب اسلئے ہے کہ میں بدین سے پچاس کلومیٹر دوُر اُس گاؤں میں جا رہا ہوں جو اس طرف سرحد کا آخری گاؤں ہے۔اس گاؤں کے جنوبی بغل میں ایل بی او ڈی کا شوریدہ پانی سا بھرا نالہ بہتا ہے۔جس نے اس زرخیز پٹی کی زرخیزی کا گلا گھونٹ کر مار ڈالا ہے۔اس فلاپ پراجیکٹ کے پئسے دئے ورلڈ بئنک نے غلط پلاننگ کی واپڈا نے سزا ملی ان جیسے سیکڑوں زرخیز زمینوں اور وہاں کی مکینوں کو۔
اس آخری گاؤں میں کسی بسری ہوئی یاد کی طرح کبھی دھان کی مختلف قسموں کے کھیت لہلہاتے تھے، گاؤں کے مشرق، مغرب اور شمال میں میٹھے پانی کی جھیلیں تھیں۔گھاس، پھوس، سرکنڈے ان جھیلوں کے کنارے اُگتے، کہتے ہیں وہ جھیل ہی کیا جس کے کنارے جاڑوں میں سرکنڈوں کی گائے کے دودھ جیسی سفیدی نہ جھولتی ہو!۔پھر ان جھیلوں میں کنول کے پھول کھلتے۔جاڑوں میں مہمان پرندے آتے۔اطراف میں چھوٹے چھوٹے میلے لگتے تو لوک داستانیں سنتے سنتے مشرق کے ماتھے پر صبح کی سُرخی پھیل جاتی۔اوطاقوں پر مہمان آتے تو جاڑوں کی راتوں میں الاؤ جلتے اور زمانے کی باتوں میں آدھی رات کٹ جاتی۔
یہ وہ دن تھے جب ‘آدم پٹیل‘ پر جوانی کسی ساون کی بارش کی طرح برستی تھی۔اُس کے باپ کا نام علی بخش تھا۔اُس کے پاس بیلوں کے آٹھ جوڑے تھے زمینوں میں ہل چلانے کیلئے۔چار سو ایکڑ زمین تھی جو ساری کی ساری آباد ہوتی تھی۔
باپ کے گذرنے کے بعد یہ سب آدم پٹیل کا ہوا۔شام کو شاندار گھوڑے پر وہ زمینوں کے چکر لگاتا۔اپنی ذات برادری کا وہ بڑا تھا اسلئے ‘پٹیل‘ کا لقب اس کا حق ٹھہرا۔سارے چھوٹے بڑے فیصلہ اس کی اوطاق پر ہوتے۔وقت سب کا ہے، وقت کسی کا نہیں۔اُسے بس گذر جانا ہے اور وہ گذر گیا۔میں جب 2004ء میں اُس سے ملا۔تب سب کچھ لٹ چکا تھا۔سارے علاقے کی خوبصورتیاں وقت نے اپنے بے رحم ہاتھوں سے نوچ لی تھیں۔آدم پٹیل پر سے جوانی ساون کی بارش کی طرح برس کر کب کی جا چکی تھی۔اُس کے چہرے پر جھریوں نے جیسے آشیانہ بنالیا تھا۔وقت آپ پر سے دن، مہینے بن کر نہیں گذرتا، بلکہ ایک ایک پل بن کر گذرتا ہے۔اور اگر حالات سازگار نہ ہوں تو ہر پل آپ کی روح کو روندتا گذرتا جاتا ہے، جس کا حساب چہرے پر جھُریوں کی شکل میں تحریر ہوتا جاتا ہے۔
“اس علاقہ کی پہلی بدقسمتی سمندر کی بڑی لہر کی صورت میں 1954ء میں آئی، اس سمندری پانی سے اُس برس کی فصلیں برباد ہوئیں۔لیکن پھر حالات کچھ برسوں میں بہتر ہوگئے۔” یہ بات آدم پٹیل نے مجھے اپنے گاؤں کی نہر پر کھڑے کیکر درخت کے نیچے جہاں ہم بیٹھے تھے بتائی۔ وہ مجھے جب بھی ملا اُس کے پاؤں ننگے ہوتے۔داڑھی بڑھی ہوتی، کپڑے ڈھیلے ڈھالے اور بے ترتیب۔پرائمری تک تعلیم حاصل کی تھی اور قدرتی طور پر حافظہ غضب کا، جو بات پوچھو وہ اگر اُسے معلوم ہوتی تو تاریخ، سن، دن اور ٹائم کے ساتھ آپ کو بتادیتا۔
وہ پٹیل تھا، پر جب کوئی میٹنگ ہوتی کسی این۔جی۔او کے حوالہ سے تو وہ سب سے آخر میں بیٹھا ہوتا۔اپنے سر کو ہاں میں ہلا رہا ہوتا۔اور آخر میں جو بھی بات کرتا اُس میں ہمیشہ اُمید اور توقع کی لو جلتی محسوس ہوتی۔ پھر کبھی کبھار وہ گاؤں کے مغرب میں بہتی ہوئی نہر کے مغربی کنارے پر کھڑے کیکر کے درخت کے نیچے بیٹھا رہتا۔میں بھی اُس کے ساتھ بیٹھ جاتا۔۔
جگہ وہ جلتی ہے جہاں آگ لگی ہو۔ایک دفعہ میں آدم پٹیل کے ساتھ اُس کی زمین دیکھنے گیا۔ وہ چلنا نہیں چاہ رہا تھا۔کون اپنی تمناؤں کی قبریں دیکھنا چاہے گا!؟۔لیکن میری ضد کی وجہ سے وہ میرے ساتھ چلا۔دھوپ تھی مگر اس کے پاؤں ننگے تھے۔ہم نے کچھ گھاس پھوس کی جھونپڑیوں کے قریب سے گذر کر، اُس زرخیز زمین پر گئے جہاں بیلوں کے آٹھ جوڑے ہل چلاتے تھے۔جہاں چار سو ایکڑوں میں دھان کی ہریالی لہراتی، جہاں شام کو آدم پٹیل گھوڑے پر زمین پر چکر لگانے جاتا۔پھر آدم ایک سوکھی میٹھے پانی کی نالی پر کھڑا ہوگیا۔اُ س نے جنوب کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں دو تین ایکڑوں میں جنگلی گھاس اُگی ہوئی تھی اور حد نگاہ تک شوریدہ زمین تھی، نمک کے سفید ذرات تیز دھوپ میں چمکتے اور آنکھوں میں اُن کی روشنی چُبھتی۔
“یہ کیا ہے۔؟“
“یہ زمین ہے۔۔؟“
“یہ تمہاری زمین ہے؟“
“یہ میری زمین ہے۔“
“یہ وہ زمین ہے جہاں دھان کی فصل ہوتی تھی؟“
“یہ میری وہ زمین ہے جہاں دھان کی فصل ہوتی تھی۔
” آدم پٹیل نے کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح میرے سوالوں کے جواب دئے۔ دور سے کہیں ایک درد کی ہوک اُٹھی اور خاموشی چہار سُو پھیل سی گئی۔ہم بغیر کچھ کہے واپس آئے۔باہر تیز دھوپ تھی مگر کیکر کے نیچے چھاؤں میں ٹھنڈی ہوا بہتی تھی۔اتنے میں مچھلی سے بھری ڈاٹسن گذری، ساتھ میں نورجہاں بھی گاتے گذری۔“سب جگ سوئے ہم جاگے، تاروں سے کریں باتیں۔۔” ڈاٹسن دور ہوتی گئی اور نورجہان کی آواز بھی۔
“یہ سب۔ ہوا کیسے۔؟ مطلب اتنی بربادی۔۔“
“یہاں کون کسی کی سنتا ہے سائیں۔۔” آدم نے ہمیشہ کی طرح سگریٹ کا ایک ہلکا کش لیا اور دھوپ کی وجہ سے راستے کی طرف ایک آنکھ آدھی بند کرکے ایسے ہی دیکھنے لگا۔۔۔پھر اُس نے بتایا کہ، یہاں اگر میری ساری زمین نمک اُگنے لگی ہے تو اس ایریا کی ساری زمینوں کا ایسا ہی حال ہے۔کس کے دو ایکڑ گئے تو کسی کے چھ۔کوئی نہیں بچا۔پہلے ایل۔بی۔او۔ڈی کے ٹائڈل لنک نے سمندر کو ہماری ان زمینوں کا راستہ دکھایا۔ پھر اس ٹائیڈل لنک کی وجہ سے زیرزمین پانی شوریدہ ہوا اور زمینی واٹر لیول بڑھا، پھر 1999ء والا طوفان آیا۔ پھر ایریگیشن والے بڑے زمینداروں کو پانی بیچ دیتے ہیں اسلئے یہاں میٹھا پانی نہیں آتا۔۔بڑی دوڑ دھوپ کی پر کوئی بات سننے والا نہیں ہے۔۔سب برباد ہوگیا۔آدم نے ایک ناکام سسٹم کو دہائی دی اور خاموش ہوگیا۔کرتا بھی تو کیا!؟
گاڑی سے باہر اب تپتی دوپہر آگئی تھی۔راستے کے ساتھ بہنے والی نہر جس میں پانی نہیں تھا اسلئے بہتی بھی نہیں تھی۔مگر نہر کی مٹی اور ریت گیلی تھی، جس کا مطلب یہ کہ پانی کچھ دن پہلے بند ہوا تھا۔کہیں کہیں نہر کے کھڈوں میں پانی کھڑا تھا جس میں عورتیں کپڑے دھوتیں اور اسی پانی میں چھوٹے بچے نہانے کیلئے چھوٹی سی چھلانگ لگا دیتے۔اور اس طرح ان نہروں کے کنارے صبح ہوتی، شام ہوتی اور زندگی یوں ہی تمام ہوتی۔۔
مجھے پتہ تھا کہ آدم جو اب نام کا پٹیل رہ گیا تھا۔ وہ تپتی دوپہر بتانے کیلئے اس نہر والی کیکر کی ٹھنڈی چھاؤں میں آگیا ہوگا ۔کیونکہ وقت گذر گیا تھا۔ایک زمانہ میں وہ وقت کو گذارتا تھا اب وقت آدم کو گذار رہا ہے۔۔
پھر لینڈاسکیپ تبدیل ہونے لگا۔ہریالی کم ہونے لگی اور سرحد کا آخری گاؤں نزدیک آنے لگا۔راستہ مُڑتے ہی مغرب کی طرف وہ جھیل آئی جو کسی وقت میں میٹھے پانی کی جھیل تھی، اب چونکہ سمندر نے یہاں کا راستہ دیکھ لیا ہے اسلئے سمندر کے شوریدہ پانی کی بڑی جھیل ہے اور جھیل کے کنارے روکھے اور بے رنگ ہیں۔ کیونکہ شوریدہ پانی کے کنارے پھوس اور سرکنڈے نہیں ہوتے۔زمین کا رنگ مٹیالے سے تبدیل ہوکر کالا سا ہوگیا ہے۔کیونکہ زرخیزی کی جگہ نمک نے لے لی ہے۔گھاس پھوس کی جھونپڑیاں، سامنے سے نظر آنے والا ٹائڈل لنک کا بند، جس کی ناکامی کا اعتراف ورلڈ بینک بھی کر چکا ہے۔مگر اعتراف سے کیا ہوتا ہے۔ ایک زرخیز پٹی کے آنگن میں اس ایل۔بی۔او۔ڈی کے لنک نے ہمیشہ کیلئے موت تحریر کردی۔۔
سامنے کیکر کے درخت کی گھنی اور ٹھنڈی چھاؤں تھی مگر اس کے نیچے پٹیل آدم نہیں تھا۔ میں گاڑی سے اُترا اور آدم کو آواز دی، دوپہر کی دھوپ میں چہارسُو خاموشی کی ایک چادر سی بچھی ہوئی ہے۔ اسلئے میری آواز دور دور تک گئی۔ کچھ دیر کے بعد آدم نہیں آیا اُس کا بیٹا آیا، اُس کے بغل میں پھوس سے بنا زمین پر بچھاکر بیٹھنے کا چھپر تھا۔اُس نے درخت کے نیچے چھپر بچھایا اور ہم اُس پر بیٹھ گئے۔آدم کے بیٹے کی قمیض کولہے سے پھٹی تھی، پھر کچھ وقت گذر گیا کوئی بات چیت نہیں ہوئی، میں بار بار اُس پلی کی طرف دیکھتا جہاں سے آدم پٹیل آتا تھا۔لیکن منظر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، دھوپ اور خاموشی گہری ہونے لگی۔ تب پتہ چلا کہ آدم نہیں آئے گا۔
اُس کے بیٹے نے جب یہ بتایا، تب اُس کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں، باپ کے بچھڑنے کے درد کی پھانس تھی جو اُس کے دل میں چبھتی تھی۔ویرانی اور اُداسی اور گہری ہوگئی، اس کیکر کے مغرب میں سامنے ایک درویش کی درگاہ ہے اور قبرستان بھی، آدم اس قبرستان کی منوں مٹی کے نیچے ابدی نیند سویا ہوا ہے۔۔ایک وقت میں زمانہ اس کی نہیں سُنتا تھا اور اب آدم پٹیل کسی کی نہیں سنے گا۔۔
اس علاقے میں کئی ایسے آدم ہونگے جن کے درد ہم نہیں جانتے۔پر یہاں کے سب لوگوں کو پانیوں نے مار ڈالا ہے۔سمندر کو راستہ دکھانے والے ایل۔بی۔او۔ڈی کے پراجیکٹ نے، طوفانوں کے پانیوں نے، سمندر کے آگے بڑھتے ہوئے پانی نے۔ اور میٹھے پانی کی کمی نے۔کہاں فراوانی نے سب کچھ چھین لیا ہے تو کہیں شیریں پانی کی کمی بھی اس لوٹ مار میں شامل ہوگئی ہے۔آدم پٹیل کہتا تھا کہ، اگر ایریگیشن والے پانی اوپر والے زمینداروں کو نہ بیچیں تو یہاں کی زمینیں اتنی بے بس اور بیواہ کی طرح نہ ہوتیں۔۔صحیح کہتا تھا، کہ جب زمین میں میٹھا پانی نہ آئے اور دھان نہ پھوٹے تو زمین بیواہ ہی ہوئی نا۔۔۔!
باہر دھوپ ہے اور لینڈ اسکیپ تبدیل ہونے لگا ہے۔آدم کا گاؤں پیچھے رہ گیا ہے۔اب اُس گاؤں میں کوئی ‘پٹیل‘ نہیں ہے کہ، آدم چلا گیا ہے۔جس کی زمینوں کو پانیوں نے مارڈالا ہے۔جس کے بیٹے کی کولہے سے قمیض پھٹی ہوئی ہے۔جہاں میٹھے پانی کی جھیلوں میں سمندر کا پانی بسیرا کرتا ہے۔اب وہ کیکر کا پیڑ تپتی دوپہروں میں اکیلا ہوگا۔ کیونکہ اُس سے باتیں کرنے والا آدم پٹیل ایک برس پہلے اسے اکیلا چھوڑ کر چلا گیا ہے۔کہ ویرانیاں اب اس کی ساتھی ٹھہریں۔۔
♣