آئینہ سیدہ
پاکستان کے طول ؤ وعرض میں بسنے والے اے وہ لوگ ! جواپنے پیاروں کی طاقتورحلقوں کے ہاتھوں گمشدگی کے کرب سےعاری ہو اپنے بھائیوں اور بیٹوں کی طرف نظر دوڑا ؤ ! آج وہ تمھارے پاس ہیں اس لیے تم نہ تو کسی کے دکھ کو جان پا رہے ہو اور نہ یہ تکلیف گوارہ کر رہے ہو کہ صرف اتنا سوچ لوکہ ایک قاتل ، ڈاکو ، چور اور عادی مجرم کو تو تمہاری پولیس ،عدالتیں ،حکومتیں یہ حق دیتی ہیں کہ وہ گرفتار بھی ہو اورعدالت میں پیشیا ں بھی بھگتے اور اسکے وکیل صفائی بھی ہوں۔ مگر ایک بلوچ کو یہ حق نہیں کہ اس ریاست کے مروجہ طریقوں کے مطابق اسے گرفتار کیا جائے ، اس پر مقدمہ چلایا جائے اور پھر اس کی ضمانت ہو یا اسے سزا ملے ۔
اس کو کیوں اسکے گھر، نوکری ،سفر، کالج سے اٹھایا جاتا ہے پھر برسوں لاپتہ رکھا جاتا ہے، پھر ظلم ،زیادتی ،جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اپنے ان کا لے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کبھی اسکی لاش کو ویرانے میں چیل کوؤں اور درندوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے تو کبھی چونا ڈال کر ناقابل شناخت بنا کر ایک اجتماعی قبر نامی گڑھے میں دفن کر دی جاتی ہے ؟
یہ فرق کیوں ؟ یہ امتیاز کیوں ؟ یہ درندگی کیوں ؟
پاکستان کی تقدیر کے جھوٹے ٹھیکیدار اور انکے چیلے چانٹےکہتے ہیں کہ وہ گمشدہ اور پھر قتل شدہ لوگ پاکستان سے آزادی چاہتے تھے ؟ یہ کون ثابت کرے گا کہ اجتماعی قبر میں پڑی لاش پاکستان سے علیحدگی چا ہتی تھی ؟ کیا لاش کسی مردہ خور پاکستانی میڈیا اینکر کو بتائے گی کہ میں گناہ گار تھی یا بے گناہ یا اسکا فیصلہ ہمیشہ کی طرح ریاست کے گونگے بہرے اندھے ادارے کریں گے ؟
کیا انہوں نے 68 سال میں کبھی کوئی سچ بولا، جو اب بولیں گے؟ کون بتائے گا کہ جس لاش پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے وہ کسی ہتھیار بردار حریت پسند کی تھی یا کسی طالب علم کے یا کسی قلم سے سچائی کا علم بلند کرنے والے کی ؟ کون فیصلہ کرے گا کہ چونا لگا کر مسخ کیا گیا کسی ماں کا بیٹا پنجابی مزدوروں کا قاتل تھا ، بلوچستان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والا دلیر تھا یا دن رات مزدوری کرکے اپنی بہن کی شادی کے خواب دیکھنے والا ایک عام سا بلوچ محنت کش ؟
اگر کوئی بے وقوف ،احمق آج کل کی دنیا میں یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی کو اغوا کر کے اپنی درندگی دکھا کر کسی کی لاش ویرانوں میں پھینکوا کر یہ کہہ دے گا کہ مرا ہوا شخص “غدار ” تھا اور میرے کہنے پر یقین کرلؤ صرف اس لیے کہ میں نے کلف زدہ یونیفارم پہن رکھی ہے، چار بلے سینے پر لگا لیے ہیں، بغل میں ایک دو ٹکے کی چھڑی دبائی ہو ئی ہے تو اسکو یقینن آپنا علاج کسی ماہر نفسیات سے کرؤ انا چاہیے
یہی جھوٹے الزام اور بہتان طرازیاں تھیں جنہوں نے پہلے بھی اس زمین کی گود اجا ڑ ی تھی انکی ہٹ دھرمی، کوتا ہ اندیشی اور تکبر پہلے بھی اس دھرتی کے ایک بیٹے کو کھا گیا تھا آج یہ پھر اس بوڑھی دھرتی ما ں سے اسکا ایک اورسہا را چھین لینا چاہتے ہیں اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج بھی میڈیا کے گوشت خوروں کی بے رحمانہ روش وہی ہے ، عدلیہ اور حکومت کی وہی نااہلیاں اوران غیر حساس اداروں کا تو کیا ہی ذکر کریں جنہوں نے اس ماں کو بربا د کرنے میں کبھی بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی سر پر چادر تو کیا دیتے پاؤں کی جوتی بھی چھین لی ! دنیا جہاں میں رسوا کیا اور آج بھی اسکی اولاد کو ایک ایک کر کے اپنی آنا اور تکبر کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔
وہ نہیں جا نتے کہ
یہ دھرتی اسی کی ہے ،جو“
ظلم کے موسموں میں
کھلے آسمانوں تلے
“اس کی مٹی میں اپنا لہو گھولتا ہے