ارشد نذیر
جس طرح ڈاکٹر کا نسخہ، وکیل کی عرضی، جج کا فیصلہ، گرامر کی تفہیم اور لغت کی ترتیب و تدوین کبھی ادب نہیں بن سکتے۔ بالکل اْسی طرح سیاسی و سماجی فلسفہ بھی سماج میں اپنے اطلاقی میکانزم کے بغیرفلسفہ نہیں کہلاتا۔ سیاسی و سماجی فلسفے کا منتہائے نظر سماج میں پھیلی بے چینی اور عدم اطمنان جیسے مسائل کا حل پیش کرنا ہوتا ہے۔
بے چینی اور عدم اطمنان کبھی غیرجانبدار نہیں ہو سکتے اور نہ ہی یہ کسی انفرادی عقلی اور ذہنی مشق ہوتے ہیں۔ بے چینی اور عدم اطمنان سے مراد ہی سماج میں مروجہ سیاسی اور سماجی روایات اور قوانین سے غیر مطمئن ہوناہے۔ اس لئے کوئی بھی سیاسی اور سماجی فلسفہ خلا میں جنم لیتا ہے اور نہ ہی غیر جانبدار ہوتا ہے۔ سیاسی اور سماجی فلسفے میں غیرجانبداری محض اکیڈمک اصطلاح تو ہو سکتی ہے، اس کی کوئی عملی افادیت نظر نہیں آتی۔
کوئی بھی سماجی و سیاسی فلسفہ اگر سماج میں اپنے اطلاقی میکانزم کے بغیر مرتب کیا جاتا ہے تو وہ محض لفاظی کے اور کچھ نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھار تو محض ذہنی عیاشی بن کر رہ جاتا ہے۔ سماجی اور سیاسی فلسفے کے سامنے چند واضح مقاصد ہوتے ہیں۔ اس فلسفیانہ عمل میں سب سے بڑھ کراْس زمانے کے مروجہ سماجی اور سیاسی نظام سے بے چینی اورعدم اطمینان ہی کارفرما ہوتے ہیں۔
یہ وہ علتِ اولیٰ ہے جو کسی بھی سماجی اور سیاسی فلسفہ کے مرتب کرنے والے فلسفی کوفلسفیانہ عمل پر اکساتی ہے اور ایک طاقتور محرک کے طور پر اس کے سامنے رہتی ہے ۔ یہی کیفیات سماج ہی کی دی گئی ہوتی ہیں۔ فلسفی انہی بے چینیوں اور عدم اطمینانیوں کوایک بہتر اور قابلِ عمل اجتماعی شعورکے ساتھ ، امن اور احترامِ آدمیت کی شکل میں ڈھال کرایک منظم و مرتب نظام کے طور پر واپس سماج کو لوٹا دیتا ہے۔ ایسے میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ فلسفہ غیر جانبدار ہے۔
تاہم مابعد از جدیدیت کی اصطلاحات میں الجھے ہوئے کچھ دانشوراس عمل کو نہ صرف بے وقعت کر دیتے ہیں بلکہ ان کی نظر میں اس قسم کی کلیت ممکن ہی نہیں ہے۔ ثقافتوں کے تنوع میں اس قسم کی کلیت کی فکر ممکن نہیں ہے۔ کچھ دانشواس عمل میں غیر جابندارانہ کی اصطلاح کی آڑمیں پناہ لیتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود بھی کسی نہ کسی فکر یا نظرئے کو چمٹے ہوئے ضرور ہوتے ہیں۔
جدیدیت کوئی منظم اور مرتب فلسفہ نہیں دے سکی ہاں البتہ اس سے ڈی کنسٹرکشن یعنی ساختیات اور پسِ ساختیات جیسی کچھ اصطلاحات کو جنم دیا ہے۔ ایسے میں کچھ اکیڈمیشیئنز اور دانشورسیاسی اور سماجی عمل میں بھی غیر جابنداری کی اصطلاح استعمال کرتے رہتے ہیں۔
بے شک کائنات کی ہر چیز کی طرح سماج بھی تغیر و تبدل کے تابع رہتا ہے۔ کسی بھی سیاسی یا سماجی فکر اور فلسفے کی سچائی اور صداقت کا سب سے بڑا پیمانہ وہ زمانہ خود ہوتا ہے جس میں کہ وہ رائج ہے۔ اگر سماج اپنی مروجہ روایات اور قوانین سے مطمئن ہے اور نظام ان کی ضروریات پوری کرتا ہے تو لوگ اس کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں۔ لیکن جب کوئی نظام سماج کی اکثریت کی ضروریات اور تقاضوں کو حل کرنے میں ناکام ہوجائے تویہی عدم اطمنان اور بے چینی ہی نظام کی تبدیلی کا محرک ثابت ہوتی ہے۔
یہی علتِ اولیٰ جو فلسفی سماج سے لیتے ہیں اور یہی اس کی فلسفیانہ فکر کا محرک بنتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ چند ایک دیگر سچائیاں اور صداقتیں بھی منسلک ہوتی ہیں جیسا کہ کسی بھی زمانہ میں کون سا سماجی فلسفہ کتنے انسانوں کی سماجی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی ضروریات کو پورا کرسکتا ہے ۔ وہ فلسفہ جوزیادہ سے زیادہ انسانیت کی خدمت کرے حقیقی فلسفہ کہلاتا ہے۔
ہر سماجی اور سیاسی فلسفہ اپنی اطلاقی شکل میں اپنے زمانے کے سیاسی اور سماجی فلسفیوں کی مسلسل جانچ پڑتال کا سبب بھی بنتا رہتا ہے ۔ یہی بے چینی اور عدم اطمنان ہی ایک دفعہ پھر اس کی تبدیلی اور تغیر کی کسوٹی بن جاتے ہیں۔
♦