بلوچستان اور چائنا پاک اکنامک کوریڈور

عزت بلوچ ۔سیکریٹری جنرل بی ایس او آزاد

12718165_10205843639505869_4522830239671502881_n


پاکستانی قبضے سے چھٹکارا پانے کے لئے بلوچ آزادی کی تحریک 6دہائیوں سے زیادہ عرصے سے جاری رہنے کی وجہ سے طویل تحریکوں میں سے ایک ہے۔ بلوچستان میں آزادی کے لئے لڑی جانے والی جنگ عوام سے اُبھرنے والی تحریک ہے جو کہ انسان کے فطری جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔ کیوں کہ تاریخی حوالے سے ایک الگ جغرافیے، الگ زبان و الگ رسم و رواج کو غیر فطری و خود ساختہ بھائی چارگی کے بندھن میں باندھا نہیں جا سکتا۔ اس لئے تمام ریاستی مشینری کے متحرک رہنے کے باوجود بلوچستان میں آزادی کی تحریک ہمیشہ اپنی موجودگی کو ظاہر کرتی رہی ہے۔

نئے ہزاریے کے شروع سے یہ اظہار مختلف طریقے سے اور ایک شدت کے ساتھ ہورہا ہے، اس لئے پاکستانی معیشت کے لئے یہ جنگ ایک بارگراں ثابت ہورہی ہے۔ہر چند کہ بلوچ اپنی مدد آپ کے تحت اس جنگ کو جاری کیے ہوئے ہیں، لیکن پاکستان جیسے غیر منظم و کرپٹ اداروں کے حامل ریاست کے لئے بلوچستان کی سخت موسمی حالات و جغرافیہ کی وجہ سے اس انسر جنسی کو کاؤنٹر کرنا اتنا سہل نہیں۔ اس لئے پاکستان اس خطے میں ابھرنے والی نئی طاقت چائنا کی مدد سے کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے اس تحریک کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ پاکستانی فوج اپنے کاروباری افسروں کی بلوچستان کے حوالے ایک ایسی ذہنیت کی تربیت کررہی ہے جو کہ پاکستان کے 45فیصد رقبے ’’بلوچستان‘‘ پر قبضے کو برقرار رکھنے کے لئے5فیصد عوام ’’ بلوچوں‘‘ کو مٹانے کی حمایت میں ہیں۔

ویسے بھی پاکستان میں فوج کی پہچان ایک دفاعی ادارے سے زیادہ کاروباری ادارے کی حیثیت سے ہوچکی ہے۔ پاکستانی میڈیا میں فوجی تجزیہ کار بلوچ آزادی پسندوں کی سرعام پھانسی کا بار بار مطالبہ کرتے ہیں۔یہ ایک خوفناک ذہنیت ہے جو کہ ریاستی طاقت کا مالک ہے۔ اس طاقت کا استعمال چائنا کی بلوچستان میں سرمایہ کاریوں کے باضابطہ اعلان سے بہت پہلے شروع ہو چکا ہے اور روز بہ روز اس میں شدت لائی جارہی ہے۔

چائنا بظاہر عالمی فوجی اتحادوں اور جنگوں میں براہ راست شرکت کرنے سے گریزاں ہے، لیکن اپنی سرمایہ کاری کو توسیع دینے اور دوسری منڈیوں پر قابض ہونے کے لئے ریاستی کنٹرول میں چلنے والی چائنا کی کمپنیاں دوسرے کئی ملکوں میں جنگوں اور بڑے پیمانے پر قتل عام کا اہتمام کر چکی ہیں۔انگولا، ایریٹیریا، موزمبیق، سوڈان اور برما سمیت کئی افریکی ممالک چائنا کی کمپنیوں کی وجہ سے جنگ و قتل عام کی صورت حال سے گزر رہے ہیں۔اپنی تیل کی ضروریات پوری کرنے اور اسلحہ منڈی تلاش کرنے کے لئے چائنا کی کمپنیاں اپنے ہمسایہ ممالک سمیت افریکی ممالک میں بھاری رقم سرمایہ کاری کے لئے لگا چکے ہیں۔ تاکہ کمزور افریقی ممالک میں موجود تیل کی ذخیروں کو سستی قیمت پر حاصل کیا جا سکے۔

چائنا کی( (ODIاورسیز ڈائرکٹ انوسٹمنٹ پالیسی کے تحت 1998سے2012تک مختلف افریقی ممالک میں چار ہز ار سے زائد منصوبوں پر چائنا کی کمپنیوں نے کام کیا۔ جن میں چند ایک منصوبوں کے علاوہ تمام خام تیل حاصل کرنے کے لئے تھے۔ افریقہ میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کے باوجود وہاں کے معاشی حالات میں سدھار آنے کے بجائے کئی لوگ روزانہ بھوک سے مررہے ہیں۔ جبکہ سوڈان سمیت کئی دیگرافریکی ریاستوں میں چائنا کی کمپنیاں اپنے پراکسیوں کے ذریعے لوگوں کا قتل عام کروا رہی ہیں۔چائنا کی سرمایہ کاری سوڈان و برما میں کس طرح تباہی کا باعث بن رہی ہے، ذیل میں اس حوالے سے مختصر نگاہ ڈالی جائیگی، جس سے قارئین سرمایہ کاری اور معاشی ترقی کے نعروں کی آڑ میں مقامی لوگوں کی زندگیوں کے مشکلات کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ 

Greater Nile Oil Pipeline
گریٹر نیل آئل پائپ لائن سوڈان سے تیل برآمد کرنے کے لئے چائنا کا ایک بہت ہی اہم منصوبہ ہے۔ اس منصوبے میں
Greater Nile Petrolium Compny (GNPC)
کے ساتھ ساتھ چائنا کی سرکاری کمپنی ’’چائنا نیشنل پٹرولئیم کارپوریشن‘‘ کا بھی چالیس فیصد حصہ ہے۔ چائنا اپنی تیل کی ضروریات پوری کرنے کے لئے افریقی ممالک میں کئی عشروں سے سرمایہ کاری کررہا ہے۔جنوبی سوڈان کی آزادی سے قبل چائنا کی کمپنیاں تیل برآمد کرنے کے لئے سوڈانی آئل فیلڈوں سے کئی پائپ لائن سوڈان پورٹ تک تعمیر کر چکے تھے۔یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق سوڈان کی معیشت کا 98فیصد اس کے تیل کی درآمدات پر منحصر ہے۔اخبار آئل پرائس کے مطابق سوڈان کی لینڈ لاک زمین کے باعث تیل پائپ لائن جنوبی سوڈان ’’سوڈان سے آزادی 9جولائی2011‘‘ سے گزرتے ہیں۔

بجائے اس بات کے کہ سوڈان نے جنوبی سوڈان کو بطور ایک ریاست سب سے پہلے تسلیم کیا، لیکن چائنا کی دباؤ کے باعث جنوبی سوڈان نے سوڈان کے سرحدی ہیگ لگ آئل فیلڈ ’’ جو کہ عالمی سطح سوڈان کی ملکیت قرار دیا جا چکا ہے ‘‘ پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا ۔ اس آئل فیلڈ سے سوڈان پورٹ ’’جو کہ اب جنوبی سوڈان کا حصہ ہے ‘‘تک چائنا جنوبی سوڈان کی علیحدگی سے قبل ہی پائپ لائن تعمیر کر چکا تھا۔ اس کے علاوہ تیل پائپ لائن کو براستہ جنوبی سوڈان ریڈ سی تک منتقل کرنے کے لئے ٹرانزٹ فیس کی مد میں جنوبی سوڈان نے سوڈان پر دباؤ بڑھا لیا ۔2012میں سوڈان نے جنوبی سوڈان کی جانب سے حملے کے پیش نظر اپنی فوج کو Hegleg Oil Field’’جس پر جنوبی سوڈانی فورسز کا قبضہ تھا ‘‘ حملے کا حکم دیا۔ جوابی کاروائی کے طور پر جنوبی سوڈان نے سوڈان پر حملے کیے ۔الجزیرہ ٹی وی نے چائنا کو افریقہ کا سب سے بڑا ’’فوجی پارٹنر‘‘ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اپنے پائپ لائنوں کی حفاظت کے لئے چائنا کی اسلحہ کمپنی ”Norinco”کے مطابق سن 2013تک اس نے جنوبی سوڈانی حکومت کو 38ملین ڈالر کے بندوق، گرنیڈ، میزائل و دیگر اسلحہ فراہم کیے ۔

تیل کے کاروبار کے ساتھ ساتھ سوڈان و جنوبی سوڈان کی تنازعات کی وجہ سے یہ خطہ چائنا کے اسلحہ کے لئے بھی ایک بہترین مارکیٹ بن چکی ہے۔

Sino-Miyanmar Pipelines

افریقی ممالک میں سرمایہ کاری جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ چائنا اپنے ہمسایہ ممالک میں بھی سرمایہ کاری کرنے کی دلچسپی رکھتا ہے۔چائنا کی بیرونی سرمایہ کاری کے یہ منصوبے چین کی ’’ گرینڈویسٹرن ڈیولپمنٹ اسٹریٹجی ‘‘ کے اُن منصوبوں کا حصہ ہیں جن کا آغاز 1978میں چائنا نے کیا تھا۔اخبارایا بیٹاکے مطابق چائنا دنیا کا سب سے بڑا آئل امپورٹرہے،اخبار نے USانرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ چائنا میں تیل کی کھپت2015کے آخر میں 43%سے زیادہ ہو جائے گی۔ ان تمام خدشات و ضروریات کا ادراک کرتے ہوئے چائنا نے تیس سال کی مدت تک کے لئے اپنی پٹرولیم ضروریات پورا کرنے کے لئے برما تا چائنا 771کلومیٹر طویل پائپ لائن اور2,806کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن کے منصوبے کا2007میں آغاز کیا تھا۔

یہ پائپ لائن برما کے ساحلی علاقے کیا پوکو سے دنیا کی چند بلند تریں پہاڑوں اور طویل جنگلوں سے ہوتے ہوئے چا ئنا کی سرحد سے ملحقہ کوکان علاقوں سے گزر کر چائنا کے صوبے یووان کے دار الحکومت تک پہنچا دیا گیا ہے۔ان پائپ لائنوں کی تعمیر بالترتیب جون 2013اور اگست2014 میں مکمل کیے گئے ۔ان پائپ لائنوں کی تعمیر کے خلاف مقامی آبادیوں نے کئی کئی دنوں تک CNPCکی برما میں قائم دفتر کے سامنے دھرنا دے کر اپنے تحفظات ظاہر کیے۔ ان دیہاتیوں کے مطابق پائپ لائن کی تعمیر انہیں ان کے علاقوں سے بیدخل کرنے کا سبب بن رہی ہے۔

چائنا ایک طرف برما سے پائپ لائن و دیگر تجارتی سرگرمیوں میں مصروف ہے تو دوسری طرف ’’چائنی نسل‘‘ کوکان باغیوں کی بھی برما سے علیحدگی کی مدد کررہا ہے۔ کوکان باغیوں کے کمانڈر پنگ جیشنگ جو کہ 2009سے انڈر گراؤنڈ ہو چکے تھے۔ اب ایک مرتبہ پھر میدان میں آکر نئے سرے سے جدوجہد کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ برمی حکومت کو شک ہے کہ وہ اس دوران چائنا میں گئے ہوئے تھے جہاں چائنا کی حکومت نے انہیں برما کے کوکان علاقوں کی آزادی کے لئے لڑنے کے لئے واپس بھیجا ہے۔ کئی عرصوں کی سیز فائر کے خاتمے کے بعد میانمار نیشنل ڈیموکریٹک الائنس آرمی ’’باغیوں کے اتحاد‘‘کے خلاف برمی آرمی برسرپیکارہے۔چائنا برما سے پائپ لائن و ریلوے ٹریک کی تعمیر کے ساتھ ساتھ باغیوں کے گروہوں کو بھی برما کو غیر منظم کرنے کے لئے استعمال کررہی ہے تاکہ برمی حکومت آسان شرائط پر سرمایہ کاری کرنے پر راضی ہو جائے۔ان جنگوں میں کئی ہزار لوگ مر گئے ہیں جبکہ ہزاروں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں۔ چائنا کی سرمایہ کاری چونکہ اپنے مفاد کے لئے ہے، اس لئے عام لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

China Pakistan Ecnomic Corridore (CPEC)
امریکی بحریہ کے سابق کمانڈر رابرٹ ڈی کیلان نے امریکی جریدہ میں چھپنے والے اپنے مضمون ’’اکیسیویں صدی بحر ہند اور طاقتوں کے کھیل‘‘ میں بحریہ کے سابق سربراہ الفریڈ تائر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ دنیا کی ان طاقتوں نے جنگوں میں کامیابی حاصل کی جنہوں نے اپنے بحری اثاثوں کی تحفظ کے ساتھ ساتھ ہر مشکل حالات میں بحری راستوں کی بھی حفاظت کی ہے‘‘۔ماہرین اس بات کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں کہ بلا شبہ اکیسیویں صدی بحر ہند پر قبضے کے لئے عالمی طاقتوں کی رسہ کشی کا سال ثابت ہوگا۔ اس رسہ کشی میں چائنا و بھارت براہ راست ایک دو سرے پر سبقت لے جانے کے لئے آبی گزرگاہوں پر تجارت کے نام پورٹ تعمیر کرکے اپنے اپنے قدم جما رہے ہیں۔

چائنا کی بلوچستان میں گوادر پورٹ، سری لنکا میں پورٹ کی تعمیر، برما میں پورٹ و پائپ لائنوں کی تعمیر اور انڈیا کی چابہار پورٹ کی تعمیر میں دلچسپی اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ دنیا کے مصروف ترین سمندری گزرگاہ پر اپنے تجارت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنی عسکری برتری کو ثابت کرنے کے لئے یہ طاقتیں اپنا زور لگا رہے ہیں۔بلوچستان میں پورٹ و ریلوے ٹریک کی تعمیر سے چائنا اپنے تجارتی راستوں کو مختصر بنانے کا ارادہ رکھنے کے ساتھ عسکری حوالے سے اہم ترین گوادر بندرگاہ کو طاقت کے توازن کو اپنے حق میں رکھنے کے لئے استعمال کر سکتی ہے۔

سی پی ای سی کے تحت ہونے والی سرمایہ کاری پورٹ و ریلوے ٹریک کی تعمیر تک محدود نہیں بلکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 46بلین ڈالر کی اس سرمایہ کاری میں فائبر آپٹک، سڑکیں، بجلی کے منصوبے سمیت کئی دوسرے منصوبے بھی شامل ہیں۔ چائنا سمیت دوسرے سرمایہ کار ممالک تیسری دنیا کی ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر کبھی بھی سرمایہ کاری نہیں کرتے بلکہ ایسی ریاستوں میں بد نظمی پھیلا کر اپنے کاروبار کے لئے راہ ہموار کرتے ہیں۔ افریقی ممالک میں چائنا کی کئی دہائیوں سے سرمایہ کاری وہاں کے عوام کے لئے سول وار، جنگوں اور معاشی بد حالی کے علاوہ کچھ نہ لا سکی ہے۔ اسی طرح برما میں بھی چائنا کی سرمایہ کاری جنگ و قتل عام کا باعث بن رہی ہے۔ 

بلوچستان میں چائنا کی سرمایہ کاری اس وجہ سے بے رحم و شدید تر ہو سکتی ہے کہ یہاں چائنا کی کمپنیاں ریاستی کرپٹ ترین ادارہ ’’آرمی ‘‘کو براہ راست بطور پراکسی استعمال کررہی ہیں۔چائنا کی سرمایہ کاری کے باضابطہ اعلان سے قبل ہی پاکستان آرمی نے بلوچ آزادی کی تحریک کو بیدردی سے کچلنے کا ہوم ورک مکمل کیا تھا۔ ان منصوبوں پر دستخط کے دنوں بعد پاکستان آرمی نے اسمبلیوں سے تحفظ پاکستان آرڈیننس کا قانونی ایپکس کمیٹی کے تحت ہونے والے غیر انسانی اعمال کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لئے پاس کروا کر بلوچستان میں طاقت کا بڑے پیمانے پر استعمال شروع کیا ۔

انسر جنسی کو کاؤنٹر کرنے کے لئے پاکستان آرمی اپنے مقامی نمائندوں و سرداروں کے ذریعے پیسے کا بے تحاشا استعمال کررہی ہے، ڈر کو بطور ہتھیار استعمال کرکے عام لوگوں کے گھروں، فصلوں کو جلایا جا رہا ہے تاکہ لوگوں کو طاقت کے زور پر خاموش کیا جا سکے۔ فوجی طاقت کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے بلوچستان کے اندرونی علاقوں سے کئی ہزار خاندان جبری طور پر بیدخل کیے جا چکے ہیں۔ پاکستان کی آرمی سربراہ و وزیر اعظم ایک سے زیادہ مرتبہ CPECکے سامنے حائل رکاوٹ ’’بلوچ آزادی پسندوں‘‘ سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی دھمکی کا اظہار کر چکے ہیں۔اس اظہار کا واضح مقصدآزادی کی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کا واضح اعلان ہے۔

آزادی پسند بلوچ پارٹیا ں اس خدشے کا بارہا اظہار کرچکے ہیں کہ چائنا کی سرمایہ کاری بلوچستان میں تذویراتی تبدیلی کا باعث ہوگا۔ بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں غیر بلوچوں کی آبادکاری کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ پہلے سے ہی پاکستان خاموشی سے بلوچستان کے ساحل پر بیس لاکھ غیر بلوچوں کی آبادکاری کا منصوبہ بنا چکی ہے۔لیکن بغاوت کی وجہ سے پاکستان کا یہ منصوبہ تاخیر کا شکار رہا ہے۔ حالیہ بغاوت کے لہر کی سب سے بڑی کامیابی اس آبادکاری کو روکے رکھنا ہے۔

لیکن پاکستان اب چائنا کی مدد سے اپنی آبادی کے ایک حصے کو بلوچستان کے ساحل پر منتقل کرنا چاہتی ہے، یہ تعداد مزدوروں سے زیادہ ان فوجی خاندانوں کی ہو گی جو کہ بلوچستان میں کاروبار میں براہ راست شریک ہیں۔ بلوچستان کے ساحلی علاقے اورماڑہ میں طویل نیول بیس کا قیام، فائرنگ رینج کے نام پر حاصل کی جانے والی ہزاروں ایکڑ زمین اپنی آبادی کو سلسلہ وار بلوچستان میں منتقل کرنے کی کوششیں ہیں۔گوادر کی مقامی آبادی کے لئے جان بوجھ کر زندگی گزارنے کے لئے بنیادی ضر وریات و وسائل کی قلت پیدا کر انہیں نکل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

گوادر میں پانی کا شدید بحران اور مقامی لوگوں کے لئے تعلیم، صحت اور روزگار کے ذرائع ’’ جو پہلے سے ہی انتہائی محدود تھے‘‘ بند کرکے ا ن کو زمینیں خالی کرنے کا خاموش دھمکی دیا جا رہا ہے۔جبکہ اندرون بلوچستان اکنامک کوریڈور کے راستے آنے والی آبادیوں کو بیدخل کرنے کی پالیسی پر عمل در آمد شروع ہو چکی ہے۔اس کوریڈور کی حفاظت کے لئے پاکستان آرمی چائنا کی مدد سے ایک خصوصی فوجی دستہ تشکیل دے رہی ہے جو کہ ان استحصالی منصوبوں کی حفاظت ممکن بنائی گی۔سی پی ای سی کے تحت ہونے والی منصوبوں پرریاستی طاقت کے بے رحم استعمال سے عمل در آمد ممکن بنانے کی پالیسی اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان میں صورت حال برما و افریقی ممالک سے بھی شدید تر ہو سکتی ہے۔ 

Comments are closed.