دوستین بلوچ
کہا جا تا ہے کہ آوازٹکراؤ کا نتیجہ ہوتی ہے، اور ٹکراؤ کی بنیادیں تضادات ہوتے ہیں ، جو نہ صرف مختلف نا قابل مصالحت عناصر کی باہم مخالفانہ سرگرمی و حرکت کا مظہر قرار دئے جاتے ہیں بلکہ ان میں آنے والی شدت کسی بھی سرگرمی و حرکت میں تیزی اور وسعت بھی لاتی ہے، لہٰذا کسی بھی آواز کے خاتمے کیلئے ٹکراؤ کا خاتمہ ضروری ہے، اور ٹکراؤ تب ختم ہو سکتا ہے جب تضادات کا خاتمہ ہو جائے۔ جبکہ تضادات کے خاتمے کے حصول کیلئے ایک مقام پر پائے جانے والے مختلف متضاد عناصر کی ان کے وجود کی بر قراری کی ضروریات اور اس کے گرد جنم لینے والی سرگرمی و حرکت میں باہمی ہم آہنگی کا پیدا ہونا ضروری ہے۔
اس مقولے کا اطلاق قدرتی و سماجی تمام مظاہر پر ہوتا ہے ، لیکن جدید سائنسی رویوں اور طریقہ کار کو اپنانے کی دعویدار حکمران وبالادست قوتیں قدرتی مظاہر کی جانچ اور مسائل کے حل کیلئے کسی حد تک سائنسی اصولوں سے تو مدد لیتی ہوئی نظر آتی ہیں مگر سماجی تضاداتی و بحرانی مظاہر اور مسائل کے خاتمے کے سوال پر یہ حکمران قوتیں سائنسی طریقہ کار سے دامن چھڑاتے اور دور بھاگتی دکھائی دیتی ہیں ، ریاست ،سیاست و معیشت اور تہذیب و ثقافت سب سماجی مظاہرے قرار دئے جاتے ہیں ،جن کا براہ راست تعلق انسانوں یا انسانی آبادی سے ہے ۔
کیونکہ یہ تمام سماجی مظاہر انسانی ضرورت و ان کے بہتر حصول کیلئے کی جانے والی شعوری سرگرمی اور ان کی خواہشات وامنگوں اور نظریات وعقائد کی عکاسی کرتے ہیں ،اس تناظر میں کثیر القومی اور کثیر الطبقاتی معاشروں میں ایسا معاشی و سیاسی نظام اور ریاستی و انتظامی ڈھانچہ جو بلا تفریق و امتیاز تمام معاشرے یا انسانی آبادی کو یکساں و مساویانہ طور پر باہم شیرو شکر نہیں کر سکتا وہاں حقوق پر غاصب اور حقوق سے محروم اقوام و طبقات کے درمیان تضادات کی بالیدگی نا گریز ہے ، جن میں پیدا ہونے والی شدت باہم متضاد مفادات رکھنے والی قوتوں کے ما بین ٹکراؤ کو جنم دیتی ہے، اور یہ ٹکراؤ مختلف نعروں ،بیانات ،تقریروں و تحریروں سمیت نظریاتی و سیاسی بشمول مسلح جدو جہد کی شکل میں کئی قسم کی آوازوں کو جنم دیتا ہے۔
لہٰذا سائنسی اصولوں کے تحت ان آوازوں کے خاتمے کا درست راستہ تضادات کے حقیقی حل میں ہے ، جن کو دبا کر چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا، دبانے کی کوششوں میں بالادست قوتوں کو سطٰحی و عارضی کامیابیاں ضرور ملتی ہیں مگر یہ پائیدار ، گہری اور طویل مدتی اثرات و نتائج اور کامیابیوں کی حامل نہیں ہوتیں ،کیونکہ فطری طور پر انسان آزادی پسند اور بہتر سے بہترین زندگی کے حصول کا خواہشمند ہے، لہٰذا ایک ایسی جبر کی کیفیت جو اس کی فطری ضروریات و خواہشات کی پامالی کا باعث ہو کسی بھی طور انسانی مزاحمت و کشمکش کے جنم اور ابھار کے عمل کو پروان چڑھنے سے نہیں روک سکتی ۔
مبصرین کے مطابق بلوچ قومی تحریک کا ابھار بھی اسی انسانی جبلت کا شدت آمیز اظہار ہے، جو اپنے آغاز سے اب تک کئی نشیب و فراز سے گذر رہا ہے ، تحریک کے موجودہ ابھار کی ماضی سے انفرادیت یہ ہے کہ اس نے علاقائی و عالمی سیاست ومعیشت کو نہ صرف متاثر کیا ہے، بلکہ بین الاقوامی سطح پر کسی حد تک پذیرائی بھی ملی ہے ، جس سے پاکستانی مقتدرہ کی خارجی سطح پر مشکلات میں اضافہ اور لین دین کی پوزیشن کو کمزور کیا ہے۔ خاص طور پر بلوچستان سے وابستہ میگا عالمی اقتصادی منصوبوں کی بخیرو خوبی تکمیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے کی بجائے ایک سر اب بن گیا ہے، ان منصوبوں میں سر فہرست چائنا پاکستان اکنامک کو ریڈور ہے ، جو بحرہ جنوبی چین کے پانیوں میں بڑھتی کشیدگی اور مستقبل میں وہاں چینی تجارت و آمدورفت میں پیدا ہونے والی امکانی رکاوٹوں کے باعث چین کیلئے زیست و موت کی حیثیت اختیار کر گیا ہے ۔
اس کے علاوہ سینٹرل ایشیاء و ایران سے وابستہ اقتصادی و اسٹرٹیجک مفادات کے حصول کیلئے بھی بلوچستان کی اہمیت دو چند ہے ، غرض بلوچستان میں پاکستانی حکمران و بالادست قوتوں اور علاقائی و عالمی طاقتوں کے گہرے مفادات ایک ایسی سیاسی و سماجی فضا کے قیام کے متقاضی ہیں ، جہاں ان کے حصول میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ نہ ہو ، لیکن بلوچ قومی سوال کے گرد ابھرنے والی تحریک ان تمام میگا منصوبوں جنہیں بلوچ سیاسی و عوامی حلقے نو آبادیاتی مقاصد کے حامل قرار دیتے ہیں کی راہ میں ایک انتہائی مشکل اور پیچیدہ رکاوٹ کے طور پر سامنے آئی ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ جن شدت آمیز اور جان لیوا اقتصادی ،سیاسی و سماجی بحرانوں کا حکمران قوتیں سامنا کر رہی ہیں ، ان سے چھٹکارے کیلئے وہ تحریک کو کچلنے یا دبانے کی کوئی بھی حد پار کر سکتی ہیں، بلوچستان میں فورسز کی جاری کارروائیوں اور ان میں آنے والی شدت کو بھی بعض حلقے اسی نظر سے دیکھ رہے ہیں، آمدہ اطلاعات کے مطابق گذشتہ مہینہ بھی سیکورٹی اداروں کی پے در پے کارروائیوں کے باعث بلوچ قوم کیلئے انسانی المیوں اور رنج و غم سے بھر پور رہا۔
کو ہستان مری ،سبی،بولان، ڈیرہ بگٹی،نصیر آباد، چاغی ، کوئٹہ ،مستونگ،قلات و خضدار،پنجگور،بسیمہ، مشکے،آوران، تربت،گوادر، لسبیلہ اور دیگر علاقوں میں کئے جانے والے آپریشنز کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ سیکورٹی اہلکاروں نے عام بلوچ آبادیوں کو نشانہ بنایا جن میں بچوں سمیت متعدد افراد شہید اور درجنوں زخمی اور گرفتار ہوئے، جبکہ گھروں کو نذر آتش کرنے اور مال و متاع لوٹنے کی بھی اطلاعات ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ جن افراد کو شہید کیا گیا ہے ان میں عام آبادی و سیاسی کارکنوں کے ساتھ بلوچ رہنما بھی شامل ہیں ۔بعض سیاسی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن بلوچوں کو حراست میں لیا گیا ہے، انہیں ریاستی تحویل میں لا پتہ کر دیا گیا ہے، اب تک نہ تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا گیا ہے اور نہ ہی لواحقین کو با خبر رکھا جا رہا ہے، جس کے باعث متاثرہ لواحقین کو یہ خدشہ لا حق ہے کہ کہیں ان کے لاپتہ پیاروں کو بھی دیگر جبری گمشدہ بلوچوں کی طرح سفاکانہ ذہنی و جسمانی تشدد سے شہید کر کے ان کی مسخ لاشوں کو ویرانوں میں نہ پھینک دیا جائے ۔ اس کے علاوہ گذشتہ ماہ بھی لا پتہ بلوچوں کی مسخ لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ جاری رہا۔
اگرچہ حکومتی ادارے لاشوں کی بر آمدگی اور کارروائیوں کے دوران انسانی حقوق کی بد ترین پامالیوں کی ذمہ داری لینے سے انکار اور اس کی تردید کر رہے ہیں ، لیکن بلوچ سیاسی وعوامی حلقے تردیدوں کو میں نہ مانوں کی رٹ قرار دیتے ہیں، ییہ کیفیت ظاہر کرتی ہے کہ بزور ریاستی طاقت بلوچ تنازعے کو دبانے کی کوشش حکمرانوں کو دیر پا کامیابی نہیں دے سکے گی،اور نہ ہی تحریک کی شکل میں اٹھنے والی آواز کو دبایا یا کچلا جا سکے گا، کیونکہ جب تک بلوچ قومی سوال یا تضاد موجود ہے تب تک اس تضاد کے گرد ٹکراو بھی ہوگا اور آواز بھی ابھرتی رہے گی۔
♣