فرحت قاضی
چوری کرنے پر اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا اور وہ سر راہے بیٹھا ہاتھ پھیلاکربھیک مانگ رہا تھا
میرے بچے نے ایک ہاتھ سے محروم بھک منگے کی جانب ہمدردی سے دیکھتے ہوئے پوچھا:۔
’’بابا!کیا چوری بہت بڑا جرم ہے؟‘‘
میں نے جواب دیا:
’’ہاں بیٹا! یہ استحصال سے بھی بڑا جرم ہے‘‘
میں سمجھتا تھا
کہ شاید کرۂ ارض پر چور یا چوروں کو دعا دینے والا میں واحد انسان ہوں لیکن نہیں ایسانہیں ہے مجھ سے پہلے، بہت پہلے بھی ایک ایسا بندہ خدا ہو گزرا ہے جو ان کو دعا بھی دیتا رہتا تھا اور اپنے اس خیال کا اظہار انہوں نے اپنے ایک شعر میں بھی کیا ہے:
نہ لٹتا دن کو تو کب رات کویوں بے خبر سوتا
رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو
اس شخص کا نام غالب تھا شعر سے لگتا ہے کہ ان سے بھی چوری ہوئی تھی اوربعد ازاں ان کو نقصان کے ساتھ اس میں ایک فائدہ بھی دکھائی دیا تھا ہمارے ساتھ بھی ایک دفعہ ایسا ہوا اور اب ہم بھی ان کے ہم نوا ہوکر ہر نماز کے بعد اپنے ماں باپ،بہن بھائیوں اور تمام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ چوروں کو بھی دعا دیتے ہیں۔
ہوا یوں
مجھے سول کوارٹرز میں ایم ایم اے حکومت کے دور میں ایک مکان الاٹ ہو گیا اور اس میں ایک عدد بیوی اور بچی کے ساتھ خوش خوش رہنے لگااپنی دس ہزار کی تنخواہ میں ہر ماہ میری یہ کوشش رہتی کہ چار پانچ سو روپے پس انداز کروں چنانچہ سال کے آخر میں اتنے پیسے جمع ہوگئے کہ میں نے اس سے اپنے لئے سونی کمپنی کا ٹیپ ریکارڈر خرید لیا
اور
جب دفتر سے تھکا ماندہ آتاتھوڑی دیر سستاتا یا سوجاتا پھر اٹھتاتو اپنا ٹیپ ریکارڈر اٹھاکر میز پر رکھ دیتا او ر کوئی کیسٹ لگا دیتامیں نے آہستہ آہستہ پندرہ سے بیس کیسٹ جمع کرلئے ان میں دو کیسٹ راگ رنگ کے بھی تھے جو میں نے اپنے دوست اکرم سے بھروائے تھے اور کبھی ایک تو کبھی دوسرا لگادیتاجب اس سے اکتا جاتا تو اخبار پڑھنے لگتا یا پھر بچی کو ساتھ بٹھا کر پڑھانے لگتا۔
رفتہ رفتہ
مجھے یہ خیال آیا کہ ایک کیسٹ میں دس یا پندرہ گیت ہوتے ہیں لیکن ان میں دو چار ہی مجھے اچھے اور بھلے لگتے ہیں جبکہ بعض بہت زیادہ اچھے لگتے ہیں تو کیوں نہ ان کو الگ کرلیا جائے چنانچہ ایک دن میں نے کاغذ اور قلم لیا اور اس پر پسندیدہ گانے لکھنا شروع کردئیے گو کہ اس وقت میرے پاس چالیس سے بھی زائد کیسٹ تھے لیکن ان میں صرف پانچ ہی میرے پسندیدہ تھے کیونکہ میں نے ان چالیس کیسٹوں میں سے یہ چن چن کر گیت بھرے تھے۔
بیوی کا تقاضہ تھا کہ اس مرتبہ ریفریجریٹر لیں گے جبکہ میری خواہش تھی کہ اپنے پرانے اور پھٹیچر سائیکل کو فروخت کرکے اپنے لئے چین کا نیا ریگل سائیکل خرید لوں لیکن ہوا وہی جو آج تک ہوتا آرہا ہے زبردست کا ٹھینگا سر پرخدا خدا کرکے چھ سالوں کی جمع پونچی نکالی بازار گئے اور وہاں سے آپ کو معلوم ہونا چاہئے وہی ریفریجریٹر لے آئے جس کی ٹیلی ویژن اور ریڈیو پرہمہ وقت تشہیر ہوتی رہتی ہے اور اس کے ساتھ ایک خوبصورت لڑکی بھی ہوتی ہے اس خوشی کو یہاں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا گھر کا ہر بندہ خوش اور خوشی سے ناچ رہا تھا۔
چونکہ بیوی خوش تھی تو میں بھی خوش تھا اور ہماری خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا جبکہ اکلوتی بچی کا یہ حال تھا کہ وہ بار بار نئی مشین سے لپٹ جاتی اسے پاپا کی مانند چومنے لگتی او رتھوڑی دیر کے بعد کہتی پاپا یہ ہمارا ہے نا میں آئس کریم بناؤں گی ریفریجریٹر کی آمد محلے میں جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی اور کیوں نہ پھیلتی کیونکہ میری بیوی مجھے اور ہماری بچی کو آرام کب آرہا تھااور پھر محلے کے بچوں نے ہمیں اسے لاتے ہوئے دیکھ لیا تھاچنانچہ ہمسایوں کا تانتا بندھ گیا اور مبارک بادوں پر مبارک بادیں مل رہی ہیں ہم ہی نہیں بلکہ قریبی ہمسایہ بھی خوش تھے کہ اب ان کو بھی گرمیوں میں برف مل سکے گی۔
یہ مسئلہ حل ہونے پر ہم نے خدا کا شکریہ ادا کیا اور پھر سائیکل کے لئے پیسے اکٹھے کرنے کی تیاریوں میں جت گئے ہماری یہ آرزو بھی دو سالوں میں پوری ہوگئی اور اب ہمارے گھر میں ریفریجریٹر کے ساتھ ساتھ سائیکل بھی کھڑی تھی پھر ہوتے ہوتے پندرہ برس کے عرصے میں ہمارے مکان میں ضرورت اور آسائش کی کئی چیزیں جمع ہوگئیں خدا کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اب ہم اس بات پر بھی خوش تھے کہ محلے کے مخصوص گھرانوں کی طرح ہمارے پاس بھی استری، سائیکل، ریفریجریٹر، ٹیپ ریکارڈر، ٹیلی ویژن، سی ڈی، کیمرہ،کمپیوٹر اور اسی قسم کی دوسری چیزیں آگئی تھیں اور محلے میں سر جھکا کر چلنے کی ضرورت نہیں رہی تھی
ایک دن کالونی کی ایک خاتون نے آکر پوچھا’’آپ کو معلوم ہے‘‘ اس کے سوال کرنے کا انداز چونکا دینے والا تھا لہٰذا ہمارے کان کھڑے ہوگئے ہم نے پوچھا :’’اللہ خیر کرے کس چیز کے بارے میں؟‘‘ تو اس نے کہا ’’ اوپر کے مکانوں میں ایک کلرک سے چوری ہوگئی ہے چور گھر کا صفایا کرگئے‘‘ ہمیں اس بات پر نہایت دکھ اور بڑا افسوس ہوا کہ بیچارے کلرک نے ہماری طرح ایک ایک پیسہ جوڑ کر چیزیں خریدی ہوں گی اور اب اس سے چوری ہوگئی ہیں تو اس کا اس کی بیوی اور بچوں کا کیا حال ہوگا ۔
ابھی چوری کے اس واقعہ کو چھ ماہ سے زیادہ نہیں ہوئے تھے کہ اس قسم کی ایک واردات دوسری ہوگئی ہم میں دکھ کے ساتھ تشویش بھی پیدا ہوگئی اور اب اپنی چیزوں کی فکر ستانے لگی میری اور میری اہلیہ کی یہ نفسیات بن گئی کہ چوروں کو برا بھلا کہنا اور پولیس اور حکام کی نااہلی پر اظہار خیال کرنا اپنا فرض سمجھ لیا جہاں چوری یا چور کا ذکر چھڑ گیا تو اس کو دنیا کا ذلیل ترین فعل کہنے میں سب سے آگے اپنے آپ کو پایااور بالآخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ چوری تمام برائیوں کی جڑ ہے چنانچہ ادھر چوری کا ذکر ہورہا ہے اور میں نے اپنا تمام زور اسے برائیوں کی جڑ اور بنیاد قرار دینے پر صرف کردیابلکہ اس کی مخالفت میں مواد بھی جمع کرنا شروع کردیامجھے کہیں سے احساس ہوگیا کہ یہ میرے اندر کا خوف بول رہا ہے۔
اب میں نے کوارٹرسے زیادہ وقت باہر گزارنا بھی چھوڑ دیا اور بیوی کو بھی بار بار کہتا کہ وہ صرف اسی صورت میں گھر کی دہلیز سے باہر قدم نکالے جب میں موجود ہوں اگرچہ میں اس نوعیت کے مشورے اسے ہر دوسرے تیسرے روز دیتا رہتا تھا تاہم چوری کا اندیشہ پھر بھی دامن گیر رہتا تھا کیونکہ مجھے بیوی کی اس عادت کا علم تھا کہ وہ باتیں اور چیزیں بھول جایا کرتی ہے مختصر یہ کہ چوری کا ڈر اور خوف میری رگوں میں اترگیا تھااور پھر ہلکا ہلکا بخار رہنے لگا بیوی بار بار تسلی دیتی کہ کوئی بات نہیں اور پھر کیا یہ ضروری ہے کہ جب لوگوں سے چوریاں ہوں تو ہماری بھی ہو ایسی حالت میں جبکہ آپ نہیں ہوتے تو میں ہوتی ہوں اور میں نہیں ہوتی ہوں تو آپ ہوتے ہو لہٰذا اس کا امکان نہیں ہے لیکن چور جب چوری کرتا ہے وہ آپ سے پوچھ کر تو کرتا نہیں ہے تاکہ کچھ بارگین کرسکوچور تاک میں تھا اور وہ اس لئے بھی کہ جب میں کوئی چیز لاتا تو اس کا چرچا محلے بھر میں ہوجاتا تھاچنانچہ قرب وجوار کے تمام باسیوں کو معلوم تھا تو چور کو کیوں نہ ہوتا کہ ہمارے مکان میں کیا کیا ہے بالآخر جس کا ڈر ستاتا رہتا تھا وہی ہوا بیوی اپنے ایک رشتہ دار کی فوتگی پر تعزیت کے لئے گاؤں گئی تھی میں گھر پر تھا کہ امجد کا فون آگیا انہیں کوئی مسئلہ درپیش تھا اور میری موجودگی ضروری تھی پانچ منٹ کے لئے گیا تھا اور ایک گھنٹہ پچاس منٹ لگ گئے آیا تو گھر چیزوں سے خالی، میں جاتے وقت ہمسایہ کو یہ بتا نا بھول گیا تھا کہ کہیں جارہا ہوں۔
چوری کے واقعہ نے ہم سب کو ہلاکر رکھ دیا میں تو پہلے ہی سے بیمار تھا اب تو تمام روز بیمار رہنے لگا اور یہ سلسلہ کئی ہفتے رہا لیکن کب تک رہتا جب کوئی مرجاتا ہے تو پہلے انسان رونا رہتا ہے مگر بالآخر آرام آجاتا ہے ہمیں بھی آگیا
اس بات کو عرصہ گزر گیا تو مجھے احساس ہوا کہ چوری کے حوالے سے جو ڈر رہتا تھا اور چوری کو ہر برائی کی جڑ قرار دینا چوروں کو بر ابھلا کہنا چوروں کے اعضاء کاٹنے کی تجاویز کی حمایت کرنا کے تصورات سے نجات مل گئی بلکہ غالب کا بڑی حد تک ہم نوا بن گیا گو کہ ان کی طرح دعا دینے کے لئے ہاتھ نہیں اٹھتے تھے لیکن جب کوئی چوری کا واقعہ سناتا تو صرف سن لیتانہ حمایت اور نہ مخالفت اور نہ ہی کوئی تبصرہ کرتا ہوں نہ اچھا سمجھتا ہوں اور نہ ہی لعنت بھیجنے پر اپنی قوت صرف کرتا ہوں
اب جب کبھی بیوی ڈر ڈر کر فرمائش کرتی ہے تو جواب میں کہتا ہوں کہ سب لوگوں کو روزگار ملنے دوجب ہر ایک کے پاس مکان اور ضرورت کی ہر چیزمیسرہو گی تو پھر ہم بھی ایک ایک کرکے پھر تمام اشیاء خرید لیں گے اور یورپ کی مثال پیش کرنے لگتا ہوں توبیوی جواب میں کہتی ہے :۔
’’ وہ کافر ہیں ان کا تو کوئی دین مذہب نہیں ہے ہم مسلمان ہیں اللہ پر ہمارا ایمان ہے اسی مالک کائنات نے کسی انسان کو غریب تو کسی کو امیر اور کسی کو ہماری طرح بنایا ہے اسی طرح کسی کو بے حساب دولت اور پیسہ دیا ہے اور کوئی پائی پائی کا محتاج ہے اللہ کا نظام ہے اسی کی تقسیم ہے اور وہی بہتر جانتا ہے‘‘
ایک دن میں نے کہا: ’’ آپ نے جو کچھ کہا بجا ہے بلاشبہ یہ اللہ کی تقسیم ہے تم مانتی ہو میں مانتا ہوں خالہ حمیدہ بھی جزو ایمان سمجھتی ہے القصہ تمام کے تمام اس پر متفق ہیں اسے درست اور صحیح مانتے ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ چور اس تقسیم کو نہیں مانتے ‘‘ ۔
♠