فرحت قاضی
انگریز دور حکومت میں جب متحدہ ہند میں تعلیم کا نیا نظام متعارف کرانے کے لئے اس کے شہر اور دیہہ میں تعلیمی ادارے کھولے جانے لگے تو ان کی بھر پور مخالفت کی گئی
چنانچہ اسے لارڈمیکالے کی تعلیمات کے نام سے یاد کیا گیا
اسے مروجہ اخلاق اور ثقافت سے متصادم مشہور کیا گیا
مغربی تعلیم کا نام دے کر بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی
فقط اس پرچار پر قناعت نہیں کی گئی بلکہ سکولوں اور اساتذہ پر حملے بھی کئے گئے
پاکستان کی صورت میں نئی مملکت کی تشکیل کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا البتہ شہروں کی نسبت دیہات میں جدید تعلیم کی سب سے زیادہ مخالفت کی گئی یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ اس مخالفت میں دیہات کا جاگیردار طبقہ پیش پیش تھا اور یہ بھی اب سر بستہ راز نہیں رہا کہ اس کی مخالفت اس لئے نہیں کی گئی کہ اسے میکالے نے متعارف کرایا تھا یہ مروجہ ثقافت اور عقائد سے متصادم تھی یا اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ مغربی تھی
اسے اگر میکالے نے نہیں کسی اور نے متعارف کرایا ہوتا یہ عقائد اور ثقافت سے متصادم نہ ہوتی اور اسے مغرب سے نہیں مشرق سے درآمد کیا جاتا تب بھی یہ مخالفت ہوتی کیا جدید تعلیم سے پہلے بجلی،لاؤڈ سپیکر،ریڈیو اور پھر ٹیلی ویژن کے خلاف پرچار نہیں کیا گیا
جاگیردار طبقہ نے تو اس کی مخالفت کرنا تھی کیونکہ یہ جدید تعلیم کا مسئلہ نہیں تھا بنیادی طور پر مغرب اور یورپ میں سائنسی ایجادات اور جدید آلات پیداوار نے انسان کو پیداوار کے نئے آلات سے متعارف کرادیا تھا نئی اور دیو ہیکل مشینوں نے فیکٹری و کارخانہ کو جنم دے دیا تھا اور اس کے ساتھ ہی سرمایہ دار کی شکل میں ایک نیا طبقہ بھی نمودار ہوگیا تھا
جاگیردار جس چیز سے خوف زدہ تھا وہ یہی نیا طبقہ تھا یہ محنت کش طبقہ کا نیا مالک تھا
نیا سرمایہ دار طبقہ پرانے جاگیردارانہ نظام کی بساط لپیٹنے لگا تھا فیکٹری و کا رخانہ لگنے سے پڑھے لکھے افراد کی ضرورت پیدا ہوگئی تھی اس لئے ہند کے طول و عرض میں جدید تعلیمی ادارے کھولے گئے
کارخانوں نے صنعتی مزدور کو جنم دیا
وہ محنت کش جو دیہہ میں کچھ بولتے ہوئے دہشت زدہ رہتا تھا اور سر جھکا کر چلتا تھا اس نے اپنی ٹریڈ یو نین بنالی تھی
متحد ہونے سے اسے اپنے طاقت کا احساس ہوا
جاگیردارانہ دور کے ان پڑھ کسان کا بیٹا پڑھ لکھ کر بابو اور افسر بن گیا
اسے روزگار کا ایک نیا ذریعہ ہی ہاتھ نہیں لگ گیا بلکہ اس میں وہ نسبتاً آزاد ہوگیا
پہلے وہ نسل در نسل غریب چلا آرہا تھا تعلیم و کارخانہ نے اس پر ترقی کے دروازے کھول دئیے
درباری لکھاریوں کا دور تمام ہوگیا
پہلے غریب عوام کو ہر چیز کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا تھا حتیٰ کہ قدرتی آفات کے لئے بھی اسے قصور وار گردانا جاتا تھا اور اب میڈیا عوام نہیں بلکہ حاکم وقت کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے
قدیم فنون اور ادب کو جدید پیمانوں پر پرکھا جانے لگا
فلم انڈسٹری وجود میں آگئی
یہ محنت کش عوام کو جدید تصورات سے لیس کرنے لگی بھارت میں اس کے اختیارات کیمونسٹ نظریات کے حامل افراد کے ہاتھوں میں آگئے
ساحر لدھیانوی
کرشن چندر
مجروح سلطان پوری
سنیل دت
اور دیگر ترقی پسندوں نے عوام کی تعلیم و تربیت کی تو ہندحکومت کی جانب سے بھی ہاتھ ہولا رکھا گیا
پہلے ہند میں جاگیردار کو ان داتا بناکر پیش کیا جاتا تھا 70سے90کی دہائی کے دوران ایسی فلمیں بنائی گئیں جن میں جاگیردار کو تمام برائیوں کی جڑ بتایا گیا اس کے تاریک اور استحصالی پہلو سے آگاہ کرنے پر عوام میں شعور کو بڑھاواملاا ور سرمایہ دارانہ نظام کی راہ میں حائل رکاؤٹوں کو دور کرنے کی سعی کی گئی
پاکستان میں بھی یہ دو بڑے طبقات موجود ہیں
دیہات میں اگر جاگیردار کی حاکمیت ہے تو شہروں میں سرمایہ داروں کو اختیارات حاصل ہیں
محنت کش طبقے کے یہ دو بڑے مالک ہیں اور دونوں کی الگ الگ ضروریات ہیں سو اس تناظر میں ہر مالک اپنی ضرورت کے تحت ملازموں کی تعلیم و تربیت میں مصروف ہے جاگیردار کے دیہہ میں وسیع و عریض کھیت ہوتے ہیں ان پر کاشتکار شب و روز محنت و مشقت کرکے فصلیں اگاتے ہیں جس طرح جاگیردار کے بیٹے کو وراثت میں زمین اور اختیارات منتقل ہوجاتے ہیں اسی طرح کھیت مزدور کا بیٹا بھی باپ کے بوڑھا اور کمزور ہونے پر ہاتھوں میں بیلچہ اور کدال اٹھالیتا ہے
اسے وراثت میں محنت،وفاداری اور اسی نوعیت کے تصورات منتقل ہوجاتے ہیں
امیر کا بیٹا امیراور غریب کا بیٹا غریب کا یہ سلسلہ دیہات میں صدیوں سے چلا آرہا ہے
کاشتکار کے بیٹے کو کھیتوں میں فصل کی بوائی اور کٹائی کے لئے کسی قسم کے سکول میں تعلیم و تربیت دینے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے وہ باپ اور بڑے بھائی کو یہ تمام عمل کرتے ہوئے بڑا ہوتا ہے تو خود بخود سیکھ لیتا ہے
اسی طرح وہ جاگیردار آقا سے بات چیت کے ادب آداب بھی سیکھ لیتا ہے
جاگیردار سرکاری ارباب اختیار کا بھی خیال رکھتا ہے اسی طرح وہ دیہہ کا بلا شرکت غیرے حاکم ہوتا ہے اپنی اس حیثیت اور مقام کو وہ ہمیشہ برقرار رکھنا چاہتا ہے چنانچہ دیہی آبادی کے بود و باش اور تصورات و نظریات کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان میں حالات اور صورت حال کو جوں کا توں رکھنے کا خیال رکھا گیا ہے
ہمارے سرکاری تعلیمی نصاب سے بھی اس کا اظہار ہوتا ہے اس میں صنعت وکارخانہ سے پہنچنے والے فوائد کا ذکر کم اور آلودگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے
ملک میں اس کی ستر فی صد آبادی دیہات پر مشتمل ہے اور ان پر قبائلی سردار،مشران،ملکان،پولیٹکل ایجنٹس اور جاگیردار حاوی ہیں اور انتخابات میں بھی ان ہی کا چناؤ ہوتا ہے اور پھر پارلیمنٹ میں جاکر قانون سازی بھی یہی کرتے ہیں تو نصاب تعلیم بھی ان کی ہدایات کی روشنی میں تیار کیا جاتا ہے
چونکہ اپنی ضروریات کے مدنظر یہ طبقہ حالات میں تبدیلی کا قائل نہیں ہے اور جملہ اختیارات بھی اس کے ہاتھوں میں ہیں چنانچہ اس کا اظہار ہر شعبہ جات میں نظر آتا ہے یہ ملک کو ترقی دینے کا تاثر ضرور دیتا ہے مگر ترقی دینا نہیں چاہتا ہے چنانچہ ایک سال میں بننے والے پل کی تعمیر پر دس برس صرف ہوجاتے ہیں
ہر سال فٹ پاتھ اکھاڑا اور بنایا جاتا ہے
عوام کو روزگار دے کر اپنے پیروں پر کھڑا نہیں کیا جاتا ہے ان کو زکواۃ، خیرات اور بھیک کا عادی بنایا جاتا ہے
شہر میں محنت کش طبقہ کا مالک سرمایہ دار ہوتا ہے ایک بڑے کارخانے کے کئی شعبہ جات ہوتے ہیں ہر شعبہ کے لئے الگ الگ ہنر اور ہنرمندوں کی ضرورت ہوتی ہے اس میں گیٹ پر چوکیداری،سامان کو ٹرکوں میں لادنے،مشینوں کو درست حالت میں چالو رکھنے، پیداوار اور تنخواہوں کا حساب کتاب ، مزدوروں سے کام لینے، نگرانی اورپیداوار کو کھپانے کے لئے الگ الگ افراد اور ملازمین کی ضرورت ہوتی ہے
یہ ضروریات تعلیمی ادارے پوری کرتے ہیں چنانچہ ایسی تعلیم وتربیت کا ہونا ضروری ہوتا ہے جن کو سیکھ کر نوجوان ان تمام شعبہ جات کو بہ احسن طریق چلاسکتے ہوں کارخانہ داری فروغ پاتی ہے اور پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے تو مال کی کھپت کے لئے منڈیوں کی تلاش اولین ترجیح بن جاتی ہے چنانچہ سرمایہ دار طبقہ حکومت پر ہمسایہ ممالک سے بہتر روابط اور تعلقات پر زور دیتا ہے جو پاسپورٹ پہلے ایک مہینے میں بنتا تھا اب وہ دودنوں میں تیار کیا جانے لگتا ہے اس کے ساتھ ہی رنگ، نسل اور ذات پات کے پرانے بت ٹوٹنے لگتے ہیں باہمی تنازعات کو بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ریت روایت چل پڑتی ہے
ان حقائق کی زندہ مثال یورپ ہے اس کی قدیم تاریخ کا ہر صفحہ جنگ و جدل اور خون آلودہ ہے مگر اب ایک سے دوسری ریاست جانے کے لئے پاسپورٹ کا تکلف بھی نہیں برتا جاتا ہے
سرمایہ دار کی یہ ضرورت پڑھا لکھا اور ٹیکنالوجی سے لیس نوجوان،آزاد میڈیا اور جمہوریت پوری کرتا ہے
ہمارے ملک میں جب ایک لکھاری
جمہوریت
آزاد میڈیا
ٹیکنالوجی
کے لئے بیرون ترقی یافتہ ممالک کی مثال پیش کرتا ہے تو اسے ان حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا کہ ہر ملک کی اپنی ضروریات اور مجبوریاں ہوتی ہیں
پاکستان میں وہ طبقہ ہی نہیں ہے پرانا جاگیردار طبقہ تاحال حاوی اور مالک ہے اس کا سکہ چل رہا ہے لہٰذا یہاں جمہوریت تو ہے مگر لولی لنگڑی اور بیساکھیوں کی محتاج ہے
یہاں تعلیم تو ہے مگر وہ منطقی اور سائنسی بنیادوں پر استوار نہیں ہے
یہاں میڈیا تو ضرور ہے مگر وہ آزاد نہیں ہے
وہ عوام کے مابین پائے جانے والے تضادات اور تنازعات حل نہیں بلکہ ساس بہو کی توتومیں میں کے ذریعے بڑھارہا ہے
یہاں فزکس،کیمسٹری،طبیعات، حساب اور ٹیکنالوجی سکھائی جاتی ہے مگر اس کا استعمال نہیں ہے
پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت اور اس کے قائدین عمران خان،پرویز خٹک اور اسد قیصر نے سرکاری اداروں سے رشوت ستانی کے سدباب،تجاوزات کے خاتمے اور میرٹ کی بنیاد پر تعیناتی کے لئے اقدات اٹھانے کا تہہ کررکھا ہے
یہ سب کچھ قابل تحسین و ستائش ہے مگر نہایت دکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں وہ طبقہ مضبوط نہیں ہے جو اس کے مستقل بنیادوں پر خاتمہ کا خواہاں ہوتا ہے
تجاوزات کا خاتمہ اور سڑکوں کی توسیع سرمایہ دارانہ اور کاروباری ضرورت ہے
پاکستان میں پھلتا پھولتا کاروبار ہی نہیں ہے وہ مسلسل سکڑ رہا ہے
میرٹ اور قابلیت کی ضرورت وہاں ہوتی ہے جہاں پر ترقی ہوتی ہے
ایک کارخانہ دار اپنے کارخانے کی پیداوار بڑھانے کا آرزو مند ہوتا ہے تو وہ قابل، لائق،ذہین اور اہل نوجوانوں کو آگے آنے کا موقع دیتا ہے
ماموں، چاچا
ماموں کا بیٹا، چاچا کا بیٹا
کے خیالات خود بخود پس پشت چلے جاتے ہیں
ایک میڈیا تھوڑا بہت کردار ادا کرسکتا ہے مگر اس کے سر پر بھی دو دھاری تلوار لٹک رہی ہے
کاروبار اور پیداوار کے دو الگ الگ طریقے دو الگ الگ مالکان پیدا کرتے ہیں ان کا محنت کشوں کی زندگی اور خیالات پر بھی اثر پڑتا ہے کیا ہم دیکھتے نہیں ہیں کہ دیہہ کا ایک بدھو شہر آتا ہے اس میں رہتا ہے اور کوئی پیشہ اختیار کرتا ہے تو وہ بدل جاتا ہے
ہم پاکستانی محنت کش عوام کا مالک جاگیردار ہے اس لئے ہمارے بے وقوف بننے اور رہنے کے امکانات موجود ہیں ہاں البتہ باربار کے دھوکے ہمیں ہوشیار بنارہے ہیں مگر یہی دغا و دھوکہ ہم اپنے طبقے کے افراد سے کرنے لگتے ہیں تو روشن مستقبل اور ترقی یافتہ پاکستان ایک ادھورا خواب لگتا ہے
کیا یہ خواب آج کا نوجوان پورا کردکھائے گا؟
♠