فضل ربی راہی
ضلع چارسدہ کی تحصیل شبقدر میں کچہری کے احاطے میں خود کش حملہ میں 20 افراد اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جب کہ 30 سے زائد زخمی ہوگئے۔ تحریک طالبان کے گروپ جماعت الاحرار نے دھڑلے سے اس مذموم کارروائی کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ جماعت کے ترجمان احسان اللہ احسان نے ہمیشہ کی طرح میڈیا کو جاری کئے گئے اپنے بیان میں کہا کہ یہ حملہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی سزائے موت پر عمل درآمد کا ردِ عمل ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ممتاز قادری کو پھانسی کی سزا ججوں نے دی، صدرِ مملکت نے اس کی رحم کی درخواست مسترد کردی اور حکومت نے سزا پر عمل درآمد کیا لیکن ردِ عمل کے طور پر کن لوگوں کو خاک اور خون میں نہلایا گیا؟ تفصیلات کے مطابق اس خود کش حملہ میں 3 پولیس اہل کاروں، 7خواتین اور ایک بچے سمیت 20 افراد شہید اور 31 مجروح ہوگئے۔ چلیں مان لیتے ہیں، ممتاز قادری نے گورنر سلمان تاثیر کو توہینِ رسالتؐ پر گولیاں ماردی تھیں، ریاست نے ممتاز قادری کو گورنر کے قتل کے جرم میں پھانسی پر لٹکایا لیکن شبقدر میں مرنے والے عام شہری کس جرم کی پاداش میں رزقِ خاک ہوئے؟
پاکستان کے بدترین آمر جنرل ضیاء الحق نے جہاد کے نام پر جس بداَمنی کی تخم ریزی کی تھی، تین عشروں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ہم اس کی تباہ کاریوں کی پیہم زد پہ ہیں۔ دوسرے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے اپنے دورِ حکومت میں اس پھلتی پھولتی فصل کی خوب آبیاری کی جس کے نتیجہ میں اس بداَمنی کا دوسرا لیکن خونیں فیز60 ہزار عام شہریوں اور 7 ہزار سکیورٹی فورسز کی جانیں نگل چکا ہے۔
موجودہ عسکری قیادت نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے فوجی آپریشن ضربِ عضب شروع کیا، مگر بے گناہ لیکن بد قسمت پاکستانیوں (جن میں خصوصی ہدف صوبہ خیبر پختون خوا اور پختون ہیں) کی قیمتی جانوں کے ضیاع کا سلسلہ اس کی ’’کامیابی’’ کے باوجود رُکا نہیں ہے۔
ممتاز قادری کی پھانسی سے پہلے یہ سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا، پھانسی کے بعد وہاں سے دوبارہ جڑ رہا ہے۔ عشقِ رسولؐ کے دعوے دار عاشقِ رسولؐ کی سزا کا بدلہ ان بے گناہ پختونوں سے لینا چاہتے ہیں جو خود اپنی سرزمین پر روز دہشت و وحشت کے پجاریوں کی سفاکانہ کارروائیوں کا ہدف بن رہے ہیں۔ کبھی انھیں اس الزام کے تحت خودکش حملوں اور بم دھماکوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ پاک فوج شیطانی قوتوں کا ساتھ دے رہی ہے، امریکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ کبھی امریکی ڈرون طیاروں کے ردِ عمل میں پختونوں کو مارا جاتا ہے اور کبھی ان کے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم ان پختون بچوں کو گولیوں اور خود کش حملوں کے ذریعے سزا دی جا تی ہے کہ ان مغرب زدہ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوان مستقبل میں ان کے لیے خطرہ بنیں گے۔
پختونوں کے خلاف منصوبہ بندی کرنے والا ماسٹر مائنڈ جب بھی وار کرتا ہے، اس کا خصوصی ہدف عموماً پختونوں کی نئی نسل ہوتی ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ پختون جہل کی تاریکیوں سے نکل آئیں اور تعلیم کی روشنی سے منور ہوکر اپنی سرزمین سے تیرگیوں کو دور کرے۔ وہ (ماسٹر مائنڈ) اگر ایسا نہیں کرے گا تو پھر اس کی جنگ کے لیے ایندھن کون بنیں گے؟ کس کی سادگی اور مذہب پرستی سے وہ فائدہ اٹھائے گا؟ کس کی برین واشنگ کرکے اسے اپنے انسانیت کش عزائم کے لیے بروئے کار لائے گا؟
اس لیے تو اس جنگِ زرگری میں ابھی تک پختون علاقوں کے 800 کے قریب تعلیمی ادارے مکمل یا جزوی طور پر دھماکوں سے اڑا دئیے گئے ہیں۔ جن میں 640 اسکول ملاکنڈ ڈویژن میں تباہ کردئیے گئے ہیں جب کہ ان 640 اسکولوں میں 400 صرف سوات میں بارود کے ذریعے منہدم کر دئیے گئے ہیں۔
سوویت یونین کے خلاف امریکی جنگ میں بھی افغانستان اور پاکستان کے پختون استعمال کئے گئے تھے جس کے نتیجے میں افغانستان ’’شہیدوں کا قبرستان‘‘ بن گیا تھا اور ہزاروں لوگ معذور ہوکر تاعمر کرب و اذیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے اور آج بھی دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں پختون سرزمین اور پختون عوام (خصوصاً کم سِن خود کش حملہ آور) ایک نئے انداز میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔
سوات، باجوڑ، وزیرستان، پشاور، چارسدہ، مردان اور صوبہ خیبر پختون خوا کے دیگر بہت سے علاقے اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دہشت گردی کے خونیں پنجے اگرچہ پورے ملک میں پیوست ہیں لیکن اس کا خصوصی ہدف پختون علاقے اور پختون ہیں۔ آج بھی وزیرستان کے پختون فوجی آپریشنوں کی وجہ سے دربدری کا عذاب سہ رہے ہیں۔
باجوڑ کے باشندے ابھی تک اپنے گھروں کو واپس نہیں جاسکے ہیں۔ تمام متاثرہ علاقوں میں فوج کی موجودگی سے مقامی پختون جو مسائل اور تکالیف سہ رہے ہیں، میڈیا میں اس کا تذکرہ تک نہیں ہوتا۔ اپنے ہی زمین اور اپنے ہی گھروں میں انھیں جس طرح غیروں کی طرح ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کا کرب صرف وہی جان سکتے ہیں۔
سلمان تاثیر اور ممتاز قادری دونوں اللہ کے حضور جاچکے ہیں۔ نیتوں کا حال صرف اللہ ہی جانتا ہے۔اب اللہ جانیں اور وہ دونوں، لیکن رسولِ مہربان کے نام پربے گناہ انسانوں کا قتل بہیمانہ درندگی ہے۔ رسولِ مہربانؐ نے تو اپنے بدترین دشمنوں کو بھی معاف فرمایا تھا لیکن انؐ کے نام لیوا، انؐ کے عشق کے داعی کس بنیاد پر بے گناہ انسانوں کا قتلِ عام کر رہے ہیں؟
شبقدر میں جرم بے گناہی میں مارے جانے والے مسلمان کیا توہینِ رسالت کے مرتکب ہوئے تھے؟ کیا انھوں نے سلمان تاثیر کے حق اور ممتاز قادری کے خلاف کوئی جلوس نکالا تھا؟ تحریک طالبان کے گروپ جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان کو اس کا جواب دینا چاہئے۔ وہ یقیناً کسی خفیہ ہاتھ کے مکروہ اور انسانیت کش ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ بے گناہ اور معصوم انسانی جانوں سے کھیل کر نا جانے اس کی کون سی حس کی تسکین ہوتی ہے۔ اس وحشت اور درندگی کا کوئی خاتمہ بھی ہے یا نہیں؟ کب تک بے گناہ اور معصوم انسان مذہبی جنونیوں کے پاگل پن کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے؟ اللہ کے واسطے اب بس بھی کریں۔
٭……٭……٭
By: Fazle Rabbi Rahi
Manchester (UK)