علماء ہند کا ذہنی و فکری تضاد

4212_109624585991_3851843_nبیرسٹر حمید باشانی


جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے فرمایا ہے کہ وہ بھارت میں سیکولرازم کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہیں۔ایسا انہوں نے ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے۔

یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ بھارت کے کسی ممتاز عالم دین نے ایسا بیان دیا ہے۔بھارت کے بیشتر علمائے کرام اکثر اوقات ایسا کرتے رہتے ہیں۔لیکن جمعیت علمائے ہند کے عالم دین ہمیشہ اس مسئلے پر آگے آگے رہتے ہیں۔جمعیت علمائے ہند کو بھارت کی مسلمانوں کی فکری تحریکوں میں ایک بہت ہی اہم اور بنیادی مقام حاصل ہے۔

علمائے دیوبند روایتی طور پر بھارت کے مسلمانوں کی مذہبی معاملات پر رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے آئے ہیں۔ یہ بر صغیر کے مسلمانوں میں ایک اہم ترین اور طاقتور فرقہ ہے۔ پاکستان اور بھارت میں اس کے کروڑوں پیروکار ہیں۔دونوں ممالک میں ان کی ہزاروں مدارس، مساجد، اور دوسرے مذہبی ادارے موجود ہیں۔تقسیم بر صغیر سے قبل دونوں طرف کے علما کا تنظیمی ڈھانچہ اور فکری مرکز ایک ہی تھا۔

جمعیت علمائے ہند کے بیشتر رہنمائے کرام قیام پاکستان کے خلاف تھے۔ان کے خیال میں قومیں مذہب سے نہیں وطن سے بنتی تھیں۔وہ قیام پاکستان کو برصغیر کے مسلمانوں کی تقسیم تصور کرتے تھے۔اس جماعت کے بیشتر رہنما سیاست میں سیکولرازم کے حامی تھے۔اس جماعت کے اکا دکا لوگ قیام پاکستان کی تحریک کے دوران قائد اعظم کے ساتھ شامل ہو گئے۔ ان میں علامہ شبیر احمد عثمانی جیسے لوگ بھی تھے جنیں سیکولر جناح کے اندر ایک برگزیدہ ہستی نظر آتی تھی اور ان کے بزرگ خوابوں میں آکر ان کو قائد اعظم کے ساتھ چلنے کی تلقین کرتے تھے۔

لیکن قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پاکستان میں زور و شور سے اسلامی نظام کے قیام اور سیکولرازم کی مخالفت شروع کر دی۔اب قیام پاکستان کے بعد یہاں ایک عجیب صورت پیدا ہو گئی۔ایک ہی مکتبہ فکر سے ان علمائے کرام نے، جو ایک ہی فقہ پر یقین رکھتے ہیں،ایک ہی طرح کی تفاسیر قران اور دیگر مذہبی کتابوں سے استفادہ کرتے ہیں، ایک ہی طرح کی درس گاہوں میں ایک ہی طرح کا نصاب پڑھاتے ہیں، لیکن تقسیم کی لکیر کے ایک کلو میٹر ادھر یہ لوگ سیکولرازم کے پر چارک ہیں، اور ایک کلومیٹر ادھر یہ سیکولرازم کو لادینیت اور الحاد قرار دیکر اس کا نام لینے والوں کو قتل کرنے پر اتر اتے ہیں۔

Cdc0YVCWIAAgjLVاس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر سیکولرازم بھارت میں علمائے کرام کے لیے ایک ایسا کاز ہے جس کے لیے وہ شہید ہونے کے لیے تیار ہیں تو پاکستان میں اسی مکتب فکر کے علمائے کرام کے لیے یہ اتنی نا پسندیدہ تصور کیوں ہے۔اس سوال کا سادہ جواب یہ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کا فائدہ سیکولرازم میں ہے۔چونکہ وہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور ہندو اکثریت میں۔اس لیے وہاں ریاست کا مذہب سے الگ رہنا، یا تمام مذاہب کو برابری کی بنیاد پر دیکھنا ہی مسلمانوں کے فائدے میں ہے۔

پاکستان میں چونکہ مسلمان اکثریت میں ہیں اس لیے یہاں سیکولرازم کی مخالفت میں ان کا فائدہ ہے۔مگر اس جواب کے ساتھ مسئلہ ہے کہ یہ جواب واضح طور پر دوہرے معیار اور منافقانہ پالیسی کا مظہر ہے اور ظاہر ہے یہ مذہب کی بنیادی اخلاقیات سے متصادم ہے۔اس لیے اس سوال کا کوئی سادہ جواب ممکن ہی نہیں ہے۔البتہ اس کا درست جواب ضروردیا جا سکتا ہے جو کہ طویل اور پیچیدہ ہے۔سیاسی سماجی اور معاشی محاز پر مذہب کے کردار کے حوالے سے تاریخی اعتبار سے بر صغیر کے مذہبی حلقے ہمیشہ بہت بڑے کنفیوزن کا شکار رہے ہیں۔

اس کا پہلا براہ راست تجربہ سر سید احمد خان کو ہوا۔سر سید کی جہدو جہد کا بنیادی مقصد تعلیمی اور سماجی اصلاحات تھا۔ان کا مذہبی معاملات میں مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔لیکن ان کی ہر کوشش کی مخالفت صرف مذہب کی بنیاد پر کی گئی۔اپنے اس تجربے کا ذکر کرتے ہوئے سر سید خود لکھتے ہیں کہ ہم مذہب پر گفتگو سے گریز کرتے تھے۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے روئیے، سماجی اطوار اور مذہبی عقائد اس حد تک آپس میں گڈمڈ ہو چکے ہیں کہ کسی بھی سماجی مسئلے پر مذہب کو بیچ میں لائے بغیر بات ہی نہیں ہوتی۔

انہوں نے مُلا کی کنفیوژن اور تضاد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ اگر ان کو کوئی نقصان دہ کام نہ کرنے کا کہا جائے تو وہ کہتے ہیں اس کا اسلام میں حکم ہے، اور اگر ان کو کئی مثبت کام کرنے کو کہا جائے تو وہ کہتے ہیں یہ اسلام میں منع ہے۔سر سید احمد خان نے ایک سیکولر شخص ہونے کے باوجود مسلمانوں کے اندر تعلیمی اور سماجی اصلاحات کی خاطر جس قدر مذہب اپنایا جا سکتا تھا، اپنایا۔یہاں تک کہ اس نے علماء کو علی گڑھ کا نصاب ترتیب دینے کی پیشکش کی جسے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا گیا کہ جس درس گاہ میں شیعہ طلبا کو داخلہ دیا جائے گا اس میں وہ پاؤں رکھنا بھی گوارہ نہیں کر سکتے۔

مذہب کو اپنی گفتگو اور کام سے الگ رکھنے کی کوشش کے باوجود مُلاؤں نے سر سید کے خلاف اٹھ سو سے زائد کفر و الحاد کے فتوے دئیے۔ فتووں کی اس روایت کے بڑے امین پاکستان کے مذہبی پیشوا زیادہ نظر آتے ہیں۔قائد اعظم کو کافر اعظم قرار دینے سے لے کر سلمان تاثیر کے قتل تک کے اقدامات ان کی قدامت پرستی،سیکولرازم اور مذہبی رواداری سے دشمنی کے مختلف مظاہر ے ہیں۔

ظاہر ہے ہر کام اور ہر ملک کی اپنی سیاسی اور سماجی حالات اور ضروریات ہوتی ہیں جن کے مطابق مختلف ایشوز پر مختلف موقف اپنائے جا سکتے ہیں۔سیکولرازم کی شکل بھی ایک ملک سے دوسرے ملک میں مقامی حالات کے مطابق مختلف ہو سکتی ہے۔جیسا کہ امریکہ، فرانس اور بھارت میں ہے۔مگر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے کہ ایک ملک میں سیکولرازم مسلمان علماء کے لیے ایک ایسا عظیم آدرش ہو کہ اس پر جان بھی دی جا سکتی ہو اور پڑوسی ملک میں یہی سیکولرازم ایسا کفر و الحاد ہو جس پر جان لی جا سکتی ہے۔

یہ برصغیر کے علماء کا ایک ایسا ذہنی وفکری تضاد اورکنفیوژن ہے جس پر غور کیا جانا چاہیے۔

Comments are closed.